سوشل میڈیا پر بھارتی پراپیگنڈا تو ہم دیکھ ہی رہے ہیں لیکن 7 مئی 2025 کی رات بھارت کی جانب سے کیا گیا آپریشن سندور جنوبی ایشیا کی عسکری تاریخ میں انتہائی ناکام اور بے بنیاد کارروائی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ بھارت نے اعلان کیا تھا کہ اس نے پاکستان کے اندر دہشت گرد تنظیموں جیشِ محمد اور لشکرِ طیبہ کے نو مبینہ تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا ہے، تاہم زمینی حقائق اور عالمی میڈیا رپورٹس اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔
بھارت کی جانب سے ایک حملہ مریدکے میں جماعت الدعوۃ کے اس تعلیمی کمپلیکس پر کیا گیا جسے وہ لشکرِ طیبہ کا مرکز قرار دیتا رہا ہے۔ یہ کمپلیکس کئی برس سے حکومتی تحویل میں ہے اور عملی طور پر غیر فعال ہے۔ بھارتی بیانیے کے مطابق حافظ سعید اس حملے کا مرکزی ہدف تھے جو اس مقام پر تھے ہی نہیں بلکہ برسوں سے نظربندی میں ہیں۔ حملے میں تین عام شہری، جن میں ایک استاد اور دو طالبعلم شامل تھے، شہید ہوئے جبکہ مسجد کو بھی نقصان پہنچا۔ اسی طرز پر بہاولپور کے نواح میں واقع ایک مدرسے پر حملہ کیا گیا جسے بھارت کی جانب سے جیشِ محمد کا مرکز قرار دیا گیا۔
بھارت کے مطابق اس کا ہدف مولانا مسعود اظہر تھے مگر وہ تو طویل عرصہ سے منظر عام سے غائب ہیں۔ حملے میں ان کے خاندان کے 10 افراد شہید ہوئے جن میں پانچ بچے اور دو خواتین شامل تھیں یہ ایسے ہی ہے جیسے اسامہ بن لادن کے نام پر سعودی عرب میں مقیم ممتاز کاروباری خاندان "بن لادن" پر حملہ کر دیا جائے جو کہ امریکا نے بھی کبھی نہیں کیا کیونکہ غیر جانب دار افراد کا تعلق خاندان سے ہی کیوں نہ ہو وہ معزز شہری شمار ہوتے ہیں۔
بہرحال بھارت کے بہاولپور حملہ میں کوئی بھی عسکری کمانڈر یا ہائی ویلیو ٹارگٹ نشانہ نہیں بنا۔ یہ حملہ ایک عام مدرسہ پر کیا گیا تھا۔ حملے کے باقی مقامات میں سیالکوٹ، شکرگڑھ، تہرا کلاں، مظفرآباد، کوٹلی، باغ اور بھمبر جیسے علاقے شامل تھے۔ ان مقامات پر بھارت نے جن عمارات یا ٹھکانوں کو تباہ کیا ان میں سے بیشتر عام شہریوں کی املاک تھیں یا ایسی مذہبی یا فلاحی عمارتیں تھیں جن پر کسی بھی نوعیت کی عسکری سرگرمی کا کوئی مصدقہ ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ ان علاقوں میں ہونے والی بمباری کے نتیجے میں مزید 18 شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے، جن میں خواتین اور بچے نمایاں تھے۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق مجموعی طور پر ان حملوں میں 31 شہری شہید اور 57 زخمی ہوئے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ یاد رہے کہ یہ بھارت کے انٹیلی جنس بیسڈ ٹارگٹ تھے جن میں وہ اس لشکر طیبہ اور جیش محمد کو ٹارگٹ کر رہا تھا جو دہائیوں سے پاکستان میں موجود ہی نہیں ہیں۔
بھارت کے اپنے ٹارگٹ حملوں نے دنیا بھر میں اس کے بیانیے کے چیتھڑے اڑا دئیے ہیں جس کی وجہ سے مودی سرکار کو شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے بھارت کی اس جارحیت کا نہایت مؤثر جواب دیا۔ پاک فضائیہ نے اسی رات پانچ بھارتی جنگی طیارے مار گرائے جن میں دو MIG-29، دو Su-30MKI اور ایک Netra AEW&C شامل تھے۔ ان طیاروں اور دیگر ڈرونز کی مجموعی مالی لاگت کا تخمینہ 38 ارب روپے کے لگ بھگ لگایا جا رہا ہے یہ کتنا نقصان ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ پاکستان کے وفاقی بجٹ میں صحت کے لیے مختص کل بجٹ 27 ارب روپے ہے جبکہ بھارت کو ایک رات میں پاکستان نے 38 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی دفاعی نظام نے 9 اور 9 مئی کو داخل ہونے والے 22 سے زائد بھارتی ڈرونز کو بھی نشانہ بنایا، جن میں جدید جاسوسی آلات نصب تھے۔
پاکستان کی اس جوابی کارروائی کا اہم ترین مرحلہ وہ تھا جب لائن آف کنٹرول کے چورا سیکٹر میں بھارتی چوکیوں پر سفید جھنڈا لہرا دیا گیا۔ عسکری تاریخ میں یہ اقدام شکست، ہتھیار ڈالنے یا غیر مشروط جنگ بندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ منظر بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنا اور بھارت کے لیے ایک نفسیاتی شکست کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے علاہ پاکستان نے کشمیر میں بھارتی فضائی اڈے، بریگیڈ ہیڈکوارٹر اور دیگر فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا۔
امرتسر میں بھی میزائل حملے کے نتیجے میں ایک فوجی کیمپ کو نقصان پہنچا جبکہ دہلی، پٹھان کوٹ اور اجمیر میں سکیورٹی ہائی الرٹ رہا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے 9 مئی کو پریس بریفنگ میں تمام بھارتی حملوں کی ناکامی کی تفصیلات فراہم کیں اور بتایا کہ بھارت نے اپنے ہر عسکری ہدف میں ناکامی کا منہ دیکھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی فضائی حدود کی کامیاب دفاع کیا بلکہ دشمن کے اہم عسکری اثاثے بھی تباہ کیے۔ بھارت کو اس مہم جوئی کے بعد نہ صرف عسکری محاذ پر بلکہ سفارتی، سیاسی اور مالی محاذ پر بھی شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
عالمی مارکیٹ میں بھارتی روپیہ 3.4 فیصد گرا، ممبئی سٹاک ایکسچینج میں 870 پوائنٹس کی کمی آئی اور تین بین الاقوامی سرمایہ کاری اداروں نے بھارتی درجہ کم کر دیا۔ سفارتی سطح پر اقوام متحدہ، چین، ترکی، روس، جرمنی، ایران اور او آئی سی نے بھارتی کارروائی پر تحفظات کا اظہار کیا اور پاکستان کے مؤقف کی تائید کی۔ امریکی محکمہ خارجہ نے بھارت سے تحمل کا مظاہرہ کرنے اور دونوں ممالک کو معاملات مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا۔
آپریشن سندور سے نہ صرف بھارت کے عسکری عزائم بے نقاب ہوئے بلکہ پاکستان نے اپنی دفاعی برتری، عسکری تیاری اور بین الاقوامی ساکھ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا کہ وہ کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سُبکی سے بچنے اور فیس سیونگ کے لیے 8 مئی کو بھارت کی جانب سے دوبارہ دراندازی کی کوششیں کی گئیں اور لاہور، سیالکوٹ، راولپنڈی اور اوکاڑہ کی فضائی حدود میں مختلف بھارتی ڈرونز نے داخل ہونے کی کوشش کی، جنہیں پاک فوج کے فضائی دفاعی نظام نے فوری طور پر فضا میں ہی تباہ کر دیا۔
لاہور کے نواحی علاقے فیروز والا میں مارا گیا ڈرون ایک جدید سرویئلنس ڈیوائس سے لیس تھا، جس کا مقصد حساس تنصیبات کی تصویری معلومات اکٹھی کرنا تھا۔ راولپنڈی کے مضافات میں مارا گیا ڈرون پاکستانی ایئر سپیس میں 8 کلومیٹر اندر داخل ہوا تھا جسے شالیمار کے قریب مار گرایا گیا۔ 8 مئی کی رات ہی لائن آف کنٹرول پر راولا کوٹ سیکٹر میں دو بھارتی کواڈ کاپٹرز کو بھی مار گرایا گیا۔ اسی رات بھارتی ڈرونز نے کھوئی رتہ اور تتہ پانی سیکٹرز میں نظر رکھنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج کے فضائی نگرانی کے نظام نے فوری جواب دیا اور بھارت کے 12 ڈرون مار گرائے جس سے بھارت کو مزید سُبکی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی اہم ہے کہ بھارت کی جانب سے ان حملوں کے فوری بعد داخلی میڈیا کو بریف کیا گیا کہ کارروائی انتہائی "سرجیکل" اور "نشانہ ساز" تھی حالانکہ زمینی حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔
بھارتی دعویٰ کے برعکس کوئی بھی مطلوب شخص نہ مارا جا سکا، کوئی عسکری مرکز تباہ نہ ہوا اور پاکستان کی جوابی حکمت عملی نے ہر بھارتی جارحیت کا بروقت اور مؤثر جواب دیا۔ بین الاقوامی سطح پر ان حملوں کو جواز فراہم کرنے میں بھارت مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ دفاعی حلقوں کے مطابق کسی بھی عسکری مہم کی کامیابی صرف اہداف کے حصول میں ہوتی ہے اور بھارت اس بنیادی شرط پر مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ اس کا یہ آپریشن نہ صرف عسکری اور انٹیلی جنس اعتبار سے ناقص منصوبہ بندی کا مظہر ہے بلکہ یہ جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی جنگی فضا کو بھی جنم دے رہا ہے۔
پاکستان میں دہشت گردوں کے کیمپوں پر مبنی بھارتی موقف بھی واضح طور پر جھوٹ ثابت ہوگیا کیونکہ ایک بھی جگہ کوئی کیمپ یا دہشت گرد نہیں تھا۔ پاکستان نے اپنی دفاعی صلاحیتوں، ردعمل کی رفتار اور قومی یکجہتی سے ثابت کر دیا ہے کہ وہ نہ صرف ہر جارحیت کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے، بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنی ساکھ اور پوزیشن کو مؤثر انداز میں پیش کر سکتا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ابھی تک پاکستان نے اپنے دفاع کا حق یعنی "رائٹ ٹو ڈیفنس" کا استعمال کیا ہے جبکہ پاکستان کے پاس جوابی حملوں کا حق یعنی "رائٹ ٹو اٹیک" محفوظ ہے۔