Friday, 12 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Ali Raza Ahmed
  4. Ezazi Awara Gard (3)

Ezazi Awara Gard (3)

جب انسان اپنا بلڈ گروپ ہی بدل لے پھر وہ ہر کام میں ماہر ہو جاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں اپنے ملازم کو باتوں میں لگا کر اپنی دائمی بیماری کو اس کی موسمی بیماری سے یہ کہہ کر بدل لیا کہ تو اپنا نزلہ مجھ پر گرا کر میرا بلڈ پریشر فری لے لے۔ چنانچہ سبزیوں کی اسی دوڑ دھوپ میں انہیں آج کل کوئی گھاس تک نہیں ڈال رہااور وہ خود اس کی تلاش میں نگر نگر اور ریڑھی ریڑھی سرگرداں ہیں۔ جہاں سے کبھی انہیں ہر قسم کی گھاس سپلائی رہتی تھی اب ان گھاس پھونس ڈالنے والوں نے بھی اس کام سے ہاتھ روک لیا ہے بلکہ انہوں نے اپنی یہ فرنچائز ہی بند کر دی ہے اور واپس اِن کے ہاتھ میں دانتری تھما دی ہے کہ اپنی دال روٹی کا انتطام خود کرو۔

تازہ تو کیا؟ اب وہ انہیں خشک گھاس ڈالنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ان صاحب کی خواہشات اور مطالبات کی تکمیل کے جواب میں انہوں نے مسکراتے ہوئے یہ تک کہہ دیا ہے جاؤ میاں "گھاس چراؤ" اب وہ اپنے دونوں ہاتھ فضا میں بلند کرکے گھاس کی ٹرالی کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں مگر دوسری جانب انہوں نے آئندہ کے لئے نہ صرف گھا س بلکہ پھونس کو بھی روک کر، اس کے عادی عناصر کو کوزے میں بند کر دیا ہے تاکہ گھاس کی بچت بھی ہو اور سنگھاسن کی بھی۔ انہی حالات کی وجہ سے یہ حواس باختہ سے زیادہ "اُداس باختہ" دکھائی دیتے ہیں۔ دریں اثنا یہ صاحب اس سوچ میں ہیں کہ "بکری کرے گھاس سے یاری تو کھانے کہاں جائے" یوں انہوں نے بھی ماضی کے اس کاغذی گھوڑے کو گھاس سے پرہیز کروا کر دھکے کھانے پر مجبور کر دیا ہے۔ اِنہوں نے اپنا ایک سیٹ والا بحری جہاز بنا رکھا تھا تاکہ انہیں کوئی یہ نہ کہہ سکے۔ "نہ تین میں نہ تیرہ میں"۔

انہی کے بقول ان کے پاس سولہ سے زائد مختلف عہدے رہے ہیں جہاں انہی تنظیموں میں کہیں نا کہیں ان کے "پارے" بیٹھے ہیں یعنی یہ ان سب کی بنیادوں میں اپنا کوئی نہ کوئی "پارا" ڈال آئے ہیں۔ جب ان کے پاس مضبوط عددی طاقت تھی تو ان کے خلاف کوئی کچا بیان بھی دے دیتا تو "نقاد" سیڑھی لگا کر گھر سے سارے "مسودے" اٹھا کر ساتھ لے جاتے تھے۔ پھر یہ اتنے اونچے ہو گئے کہ بغیر سیڑھی کے ہی خود کار نظام کی کی بدولت منزل مقصود پرجا پہنچنا ممکن ہوگیا تھا۔

اسی دور میں اپنے ایک قریبی دوست سے کہنے لگے کہ ہماری پالیسیاں بہت اچھی جا رہی ہیں۔ ڈالر مسلسل گر رہا ہے اور ہماری کرنسی مضبوط ہو رہی ہے اگر تمہارے پاس قوت خرید ہے تو آ ج ہی "روپیہ" مارکیٹ سے اٹھا لویہ آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوگا اور ساتھ تو بھی۔ اس کی قوت سماعت یا قوت حافظہ کمزور ہونے کی وجہ سے اس سے یہ کار خیر انجام نہ ہوسکا اور اس نے پہلی بار اپنی قوت ارادی پر ناز کیااور اپنی قوت حافظہ کی کمزوری کونقصان سے بچانے پر فخر کا اظہار کیا۔

آج کل خود بھی کچھ سوالات کا جواب دینے سے کتراتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میرے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی تو تمہارا کچھ جانا نہیں اور میرا کچھ رہنا نہیں۔۔ دریں اثناء اپنے ایک ووٹر نو نہال سنگھ کا واقعہ سناتے ہوئے کہتے ہیں (نونہال کے نام کے شروع ہونے والے "نو" کے متعلق وضاحت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ نہ تو انگریزی والا gain No pain No ہے اور نہ ہی 9 نقد نہ تیرہ ادھار والا ہے اور پنجابی والی "نو" بالکل نہیں ہے بلکہ یہ سرداروں کا خالص اپنا"نوزئیدا" ہے) نہال سنگھ کی اپنی بیوی سے نوک جھونک ہوگئی حالانکہ ان کا آپس میں بہت پیار تھا لیکن اسی دوران اس کے منہ سے نکل گیا "بس کر میری ماتامیری عقل نہ مار" بیوی کو ماں کہنے پر مذہبی معاملات درمیان میں آ گئے۔ وہ بھاگا ہوا اپنے دوست کے پاس گیااس سے اپنا ماجرا بیان کیا کہا مجھے رشتے کی بحالی کے لئے فوری مشورہ چاہئے۔

اس کا دوست اسے اپنی موٹر سائیکل پر لے کر فوری اپنے گرو کے گھر پہنچا تو آگے کیا دیکھتے ہیں کہ گرو جی اپنے گروہ سمیت بیٹھے ہیں چنانچہ انہیں اپنا مسئلہ بتایا گیا۔ ان سب نے بیک زبان یہی رائے دی کہ "اسی بندوں کو تین وقت کا لنگر اسی دن کھلایا جائے" پھر کہیں اس بھیانک غلطی کی تلافی ہو سکے گی۔ بہرحال انہوں نے اپنی محبت کا پاس رکھنے کے لئے ہر روز لنگر کا اہتمام کرنا شروع کر دیا حتیٰ کہ انہیں گھر کی ہر شئے کو بیچنا پڑا اور اس دوران یہ اپنے ہر چھوٹے بڑے ہر اثاثہ سے محروم ہو گئے۔ اسی دن پورے ہونے میں ابھی ایک دن باقی تھا۔ بیوی نو نہال سنگھ کو بڑے ادب سے کہہ رہی تھی کہ وہ غصہ نہ کیا کرے اور اپنی زبان پر کنٹرول کیا کرے کیونکہ تم اپنی زبان دارزی کی وجہ سے نونہال سے کنگال سنگھ بن گئے ہو۔ اس نے پھر اپنا چہرہ سرخ کرتے ہوئے کہا "توں فیر چھیڑنی اے اپنے باپو نوں"۔

اس بیوقوفانہ بات کے بعد ان دونوں کے منہ پھر لٹک گئے۔۔ اسی دوران وہی گرو اپنے چیلوں سمیت ادھر سے گزرا اور ان کے پاس رک گیا اور ان سے کہنے لگا کہ ہم نے تم سے جو کہا تھا وہ کر دکھایا ہے یعنی ہم نے ایک پنجابی ایک اردُو والا "اَسی" کہا تھا کہ "اسی سارے مل کے تواڈے لئی اسی دن لنگر چلاواں گے" بس اب صرف کل کا دن باقی ہے اور اب ایسی ویسی بات منہ سے نہ نکالنا ورنہ آپ کو خود اپنا لنگر خرچہ برداشت کرنا پڑے گا۔

انہوں نے اپنی تعلیم کے برخلاف بچپن ہی سے سیاسی بصیرت پائی ہے اور مخالفین کے خلاف چار پہیوں والی ایسی چال چلتے ہیں کہ خود انہیں ہی "شہ" ہو جاتی ہے بلکہ ٹانگہ پارٹی خیال رکھتی ہے کہ پہیے چار ہی رہیں۔ ان کا ایک اکلوتا سپورٹر الطاف جو ہکلاتا ہے، کی باتوں سے بہت محظوظ ہوتے ہیں اور کہتے ہیں اس کی "حس الطافت"مجھے بہت پسند ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہنے لگے میں ہمیشہ بڑی دانشمندانہ اور گہری بات کہتا ہوں مگر لوگوں کو آسانی سے سمجھ آ جاتی ہے۔ ایک لیڈر کے بارے میں کہنے لگے "میں اسے تمام عمر دیسی کڑاہی کھاتے دیکھ رہا ہوں"۔