کبھی کبھی ایک جملہ کئی الجھی گتھیاں سلجھا دیتا ہے۔ جرائم آبزرور کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں جرائم کا رجحان بڑھنے کے پیچھے بے روزگاری سے لے کر نوجوانوں میں پھیلتے اضطراب تک کئی وجوہات ہیں۔ میں اکثر سوچتا تھا کہ کیا کوئی ایک ایسی وجہ ہے جس پر قابو پا لیا جائے تو جرائم کا خاتمہ ہو سکتا ہے یا کم از کم اس کی شرح کم ہو سکتی ہے؟
یاد آتا ہے چند سال قبل ایک معاصر میڈیا ہائوس میں ملازمت کے دوران فن لینڈ کے سفیر کا انٹرویو کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ فن لینڈ جیسا چھوٹا سا ملک کرائم فری ملک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تب پہلی بار احساس ہوا تھا کہ کسی بھی معاشرے سے جرائم کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے بعد میں سوچتا رہا کہ پاکستان میں ایسا کب ممکن ہوگا۔ ہم جو خودکش حملوں سے لے کر نسل در نسل چلنے والی خاندانی دشمنیوں کے درمیان جی رہے ہیں، کیا یہ خواب دیکھنے کی جسارت کر سکتے ہیں کہ ہمارے بچے کرائم فری معاشرے میں رہیں؟
کرائم آبزرور کے طور پر میں جرائم کے پیچھے چھپے سیاسی اور سماجی رویوں سے انکار نہیں کر سکتا لیکن یہ گتھی کبھی نہ سلجھ سکی تھی کہ ایسی کونسی چیز ہے جس پر قابو پا لیا جائے تو ہم 99 فیصد جرائم فری معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں اگلے روز ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب شہزادہ سلطان نے ایسی ہی ایک بات کہہ دی جس نے جرائم کی ساری وجوہات کو ایک جملے میں سمیٹ دیا۔
میں نے کچھ عرصہ قبل لکھا تھا کہ پولیس فورس میں علم و ادب سے لگا رکھنے والے انٹلیکچول افسران کو فیلڈ پوسٹنگ پر لایا جائے تو بہت سے عوامی مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ ان کی پبلک ڈیلنگ اور شائستہ رویہ عوامی مزاج کو ہینڈل کرنے میں بہت کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی شہزادہ سلطان بھی ایسے ہی آفیسر ہیں۔ انہوں نے ایسا جملہ کہا کہ میں نے چائے کا کپ میز پر رکھ دیا اور اس جملہ کی گہرائی ماپنے لگا۔ انہوں نے کہا ہمارے معاشرے میں 99 فیصد جرائم کی وجہ "بے صبری" ہے۔ لوگ بے صبرے پن کا شکار ہو کر جرم کر بیٹھتے ہیں۔ اس ایک جملے نے مجھے فیلڈ میں آنے سے لے کر اب تک کے کئی اہم واقعات یاد دلا دیئے۔ "ایک لمحہ " انسانی زندگی میں بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ زندگی تباہ ہونے میں "ایک لمحہ" ہی لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بے صبری 99 فیصد جرائم کی وجہ ہے؟ کیا یہ ایک سینئر پولیس آفیسر کا محض جذباتی بیان ہے یا اس کے پیچھے کوئی ٹھوس بنیاد بھی موجود ہے؟ ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب کا یہ جملہ اس قدر اہمیت کا حامل تھا کہ میں نے گھر آتے ہی اسے جانچنے کے لیے مختلف ریسرچ رپورٹس کا جائزہ لینا شروع کر دیا۔ ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ بے صبری دراصل ایک ایسی جذباتی کیفیت ہے جس میں انسان فوری نتائج کا خواہاں ہوتا ہے اور جب ایسا نہ ہو تو وہ غصے، جھنجھلاہٹ اور شدتِ جذبات میں قابو کھو بیٹھتا ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر فرحت عزیز کہتی ہیں کہ زیادہ تر جرائم جذباتی بے قابو پن، فوری ردعمل اور عدم برداشت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ کیفیت اس وقت جنم لیتی ہے جب فرد وقتی دبائو یا محرومی کے باعث خود پر قابو نہیں رکھ پاتا۔ عالمی سطح پر بھی بے صبری کو جرائم کی ایک بڑی وجہ مانا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے دفتر برائے انسدادِ جرائم (UNODC) کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 87 فیصد وقتی جرائم جیسے کہ جھگڑے، گھریلو تشدد، روڈ ریج اور چوری جذباتی عدم توازن کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یہی رجحان پاکستان میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
نیشنل کرائم رپورٹنگ سیل (NCRC) اور پنجاب پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ملک بھر میں ہونے والے قتل کے 52 فیصد واقعات معمولی تکرار یا جذباتی ردعمل کے نتیجے میں پیش آئے۔ گھریلو تشدد کے 70 فیصد کیسز اور سڑکوں پر جھگڑوں کے 60 فیصد واقعات بھی اسی کیفیت کا شاخسانہ تھے۔ لاہور، کراچی اور فیصل آباد میں کیے گئے ایک مشترکہ سروے کے مطابق 71 فیصد ملزمان نے خود اعتراف کیا کہ انہوں نے جرم کسی ذاتی دشمنی کے بجائے "غصے" یا "عدم برداشت" کے باعث کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان تمام مجرموں کی زندگیاں محض "ایک لمحہ" میں تباہ ہوئیں۔ اگر ان کی زندگی کے اس "ایک لمحہ" کو تبدیل کر دیا جاتا تو آج یہ مجرم کی بجائے شریف شہری ہوتے مگر ایک لمحہ کی "بے صبری" نے انہیں تباہی کر دیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ بے صبری کو محض ایک شخصی خامی قرار دینا درست نہ ہوگا۔ یہ مسئلہ انفرادی سے زیادہ اجتماعی ہے۔
ماہرین معاشرت کے مطابق ہماری معاشی، سماجی اور خاندانی ساخت بے صبری کو فروغ دے رہی ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بڑھتی ہوئی محرومی نے نوجوانوں کو شارٹ کٹس کی طرف مائل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مصنوعی زندگی اور فوری شہرت کی دوڑ نے صبر اور محنت جیسے اصولوں کو پرانے خیالات کے صندوق میں بند کر دیا ہے۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے، خاندانی نظام کی کمزوری اور تعلیمی اداروں میں کردار سازی کی کمی نے نئی نسل کو جذباتی طور پر غیر متوازن کر دیا ہے۔ اس میں عدالتی نظام کی سستی بھی اپنا حصہ ڈال رہی ہے، جہاں برسوں تک فیصلے نہیں ہوتے، وہاں لوگ خود ہی انصاف کا فیصلہ کرنے پر اتر آتے ہیں۔
عدم برداشت کا حد تک معاشرے میں سرایت کر چکی ہے اس کا اندازہ لگائیں کہ اپریل 2024 میں لاہور کے علاقہ گلبرگ میں ایک نوجوان نے ٹریفک کے جھگڑے پر دوسرے شخص کو گولی مار دی۔ پولیس کے مطابق ملزم نے اعتراف کیا "مجھ سے برداشت نہیں ہوا، میں نے لمحوں میں فیصلہ کر لیا"۔ یہ ایک جملہ ہمارے معاشرے میں جذباتی بے قابو پن کا عکس ہے جو روز کسی نہ کسی جرم کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔
ایڈیشنل آئی جی شہزادہ سلطان نے جرائم کی بڑی وجہ کی نشاندہی تو کر دی تھی کہ اگر صرف اس ایک وجہ پر قابو پا لیں تو ہمارے یہاں جنم لینے والے 99 فیصد جرائم ختم ہو جائیں گے لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بے صبری کے اس کلچر کو بدل سکتے ہیں؟ ماہرین کے مطابق اس کا حل ممکن ہے بشرطیکہ ہم انفرادی و اجتماعی سطح پر اصلاحات کریں۔ تعلیمی اداروں میں جذباتی تربیت، کردار سازی اور صبر و تحمل پر مبنی مضامین شامل کیے جائیں۔ خاندانی سطح پر والدین کو تربیتی ورکشاپس دی جائیں تاکہ وہ بچوں میں برداشت اور مثبت سوچ پروان چڑھائیں۔
میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ سنسنی خیزی کے بجائے ذمہ دارانہ انداز میں خبریں دے۔ حکومت نفسیاتی مشاورت کے مراکز قائم کرے، جہاں افراد بروقت رہنمائی لے سکیں۔ یاد رکھیں لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن جاتی ہے۔ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے دس منٹ اس کے نتائج پر غور کرنا شروع کر دیں تو جرم جنم لینے سے پہلے ہی مر جاتا ہے جبکہ انسان بچ جاتا ہے۔