Friday, 12 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Nusrat Javed
  4. Mismar Ki Gayi Kachi Bastion Ke Makeeno Ke Dukh

Mismar Ki Gayi Kachi Bastion Ke Makeeno Ke Dukh

اسلام آباد کے ہر تیسرے یا چوتھے گھر اور تقریباََ ہردفتر میں ان دنوں "اوپر کے کام کرنے والے" ملازمین کے دُکھ اور پریشانیاں ناقابل بیان ہیں۔ رواں برس کے آغاز میں اس شہر کے مالک ادارے سی ڈی اے نے فیصلہ کیا کہ یہاں کی قیمتی زمینیں کچی بستیوں کی نذر ہورہی ہیں۔ وہ ہر لحاظ سے غیر قانونی ہیں۔ خود روبوٹیوں کی طرح گزشتہ کئی دہائیوں سے نمودار ہوتی اور پھیلتی ان بستیوں کو مسمار کرکے شہر کو صاف ستھرا بنانا ہوگا۔

کچی بستیوں کی مسماری کے بعد بازیاب ہوئی زمینوں پر پارک بنائے جائیں گے تاکہ صاب لوگ بلڈپریشر اور دل کے عارضوں سے محفوظ رہنے کے لئے وہاں واک کیا کریں۔ نئے پارک بنانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتو یازیاب ہوئی زمینوں کو نئے انڈر پاس کے علاوہ اوورہیڈشاہراہوں کی تعمیر کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان کی بدولت "صاب لوگوں " کی گاڑیاں ٹریفک سگنلوں پر رکنے کے بجائے بلارکاوٹ تیز رفتاری سے سفر کرنے کے قابل ہوسکیں گی۔

کچی بستیاں دنیا کے کسی بھی بڑے شہر کے نواحی علاقوں کا فطری حصہ شمار ہوتی ہیں۔ ان بستیوں میں عموماََ دور دراز دیہات سے رزق کی تلاش کے لئے آئے لوگ ایک یا دوکمروں پر مشتمل گھروں میں رہتے ہیں۔ کسی زمانے میں وہ بجلی کے حصول کیلئے "کنڈوں " کا استعمال کرتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر ان کی بدولت بجلی کا حصول ناممکن ہوگیا۔ کچی بستیوں کے مکین سرکاری اداروں کے دئیے میٹر لگانے کو مجبور ہوئے۔ کچی بستیوں کو میٹر فراہم کرتے ہوئے حکومت نے بالواسطہ انداز میں کچی بستیوں میں واقع زمین پر بنائے ایک دو کمروں پر مشتمل مکانات کو "باقاعدہ" تسلیم کرلیا۔ یہ باقاعدگی مگر اسلام آباد میں بھلادی گئی ہے۔

کچی بستیوں میں جو گھرانے آباد تھے ان کے مرد وخواتین اسلام آباد کے قیمتی رہائشی سیکٹروں میں واقع گھروں میں کھانا پکانے، صفائی ستھرائی یا بطور ڈرائیور کام کرتے تھے۔ پوش ایریا کے سیکڑوں میں بنائے مکانوں میں ملازمین کے لئے سرونٹ کوارٹر بھی تعمیر کئے جاتے ہیں۔ ملازمین کی رہائش کے لئے بنائے یہ کوارٹر ایک یا دو چھوٹے کمروں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ عموماََ یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ گھر کا ڈرائیور یا خانساماں بیوی بچوں کے بغیر وہاں قیام پذیر ہوگا اور سال میں کبھی کبھاررخصت لے کر اپنے گائوں جایا کرے گا۔

خانساموں اور ڈرائیوروں کے لئے مگر عمر کے چند مخصوص برسوں میں تنہا رہنا ممکن نہیں۔ وہ گائوں سے اپنی بیوی شہرلانے کو مجبور ہوجاتا ہے۔ شہر آنے کے بعد مرد ملازمین کی بیویاں صاب لوگوں کی بیگمات اور بچیوں کے کپڑے دھونے اور استری کا کام کرتے ہوئے اضافی رقوم کمانا شروع ہوجاتی ہیں۔ چند برس گزرنے کے بعد ان کے ہاں بچے پیدا ہوکر بڑے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ ملازمین کے لئے بنائے کوارٹر انہیں کھپانہیں سکتے۔ ملازمین لہٰذا اپنے دلوں میں "خودمختاری" کا احساس اجاگر کرنے کے لئے شہر کے نواح میں قائم کچی بستیوں میں ایک یا دوکمروں پر مشتمل "مکان" کرایے پر لے کر وہاں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اپنے گھروں سے علی الصبح پیدل چل کر سوزکیوں میں گھسے "کام" پر پہنچتے ہیں اور شام تک صاب لوگوں کے کام نبٹانے کے بعد "گھر" واپس چلے جاتے ہیں۔

جس رحجان کا میں ذکر کررہا ہوں وہ گزشتہ 20سال سے اسلام آباد کا معمول بن چکا تھا۔ رواں برس شروع ہوتے ہی لیکن سرکار کو اسلام آباد کوکچی بستیوں سے پاک کرنے کا جنون لاحق ہوگیا۔ قانون کے کامل نفاذ کے نام پر دل ودماغ پر چھائی "نیک نیتی" نہایت سفاکی سے یہ حقیقت نظرانداز کرتی رہی کہ جن بستیوں کو گرایا جارہا ہے وہاں کے مکین ایک حوالے سے اسلام آباد کے پوش گھرانوں کی روزمرہّ زندگی آسان بنانے کے لئے آکسیجن کی طرح ناگزیر ہوچکے ہیں۔

صاب لوگ وسیع تر تناظر میں بلکہ کچی بستیوں کے مکینوں کے محتاج ہیں۔ ان کے بغیر "بیگمات"کو کھانا پکانا، کمروں کو صاف رکھنا اور کپڑے دھونا اور استری کرنا پڑتے ہیں۔ ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے نظربظاہر "پوش علاقوں " میں قائم گھروں کی خواتین بھی اضافی آمدنی کے حصول کے لئے گھروں سے نکل کر دفاترمیں کام کرنے کی عادی ہوچکی ہیں۔ اضافی آمدنی یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں گھروں کی دیکھ بھال کے لئے ملازمین گھروں میں موجود ہوں۔

ملازمین کی بے پناہ تعداد مگر اب "بے گھر" ہوچکی ہے۔ وہ جن بستیوں میں مقیم تھے انہیں نہایت وحشت سے مسمار کردیا گیا ہے۔ بے گھر ہونے کے بعد انہیں اسلام آباد کے مرکزی علاقوں سے کہیں دور واقع بستیوں میں بنائے کمروں میں نسبتاََ مہنگا کرایہ ادا کرنے کے بعد رہنا پڑرہا ہے۔ مکان کے کرائے کے علاوہ جن گھروں یا دفاتر کے لئے یہ ملازم کام کرتے ہیں وہاں پہنچنے کے لئے کمر توڑ کرایہ ادا کرکے پہنچا جاتا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے حصول کے لئے لمبا سفر پیدل ہی طے کرنا ہوتا ہے۔ میٹروبس کے حصول کے بعد جائے ملازمت تک پہنچنے کے لئے بھی پیدل ہی چلنا ضروری ہے۔

اپنی آمدنی کا تقریباََ75فیصد حصہ مکان اور ٹرانسپورٹ کے کرائے میں صرف کرنے اور جائے ملازمت تک پہنچنے کی مشقت سے گزرتے ہوئے گھریلو ملازمین اپنے ہوش وحواس کھونا شروع ہوچکے ہیں۔ ان کے چہروں پر کامل اداسی چھائی ہوئی ہے۔ دل ودماغ میں اُبلتی پریشانیوں کے بوجھ سے کئی گھریلو ملازم طبی بیماریوں کا شکار ہوئے۔ میڈیا سے وابستہ ہونے کی وجہ سے مجھے تقریباََ ہر دوسرے روز دیگر گھروں میں کام کرنے والے کسی ملازم کے مرض کی تشخیص کے لئے اپنے کسی نوجوان ساتھی سے سفارش کرنا پڑتی ہے۔ بیماری کی شدت دریافت ہوجانے کے بعد مہنگی دوائوں کی خریداری کے لئے اپنی توفیق کے مطابق حصہ بھی ڈالنا پڑتا ہے۔

اسلام آباد میں کچی بستیوں کی مسماری سے ہزاروں گھریلو ملازمین جس عذاب سے دوچار ہیں اس سے ہمارے حکمران قطعاََ غافل دکھائی دے رہے ہیں۔ کوئی سوچ ہی نہیں رہا کہ "سرکاری زمینوں " پر کئی دہائیوں سے ابھری اور مسلسل پھیلتی کچی بستیوں کو وہاں کے مکینوں کے لئے متبادل انتظامات کی فراہم کے بغیر چلائے بل ڈوزر اسلام آباد کی روزمرہّ زندگی کو ہولناک انداز میں بدل رہے ہیں۔ حالات یوں ہی رہے تو دیہاتوں سے رزق کے حصول کے لئے اسلام آباد آئے لوگوں کی اکثریت اپنے آبائی علاقوں میں لوٹنے کو مجبور ہوجائے گی۔ ان کی اکثریت بے زمین کسانوں پر مشتمل ہے۔ رزق کے امکانات ان کے آبائی علاقوں میں میسر ہوتے تو وہ اسلام آباد آنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کرتے۔

دوررس حوالوں سے ہمارے حکمرانوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ جن گھریلو ملازمین کے لئے اب اسلام آباد کی زمین تنگ ہورہی ہے ان میں سے بے تحاشہ افراد کے بچے اسلام آباد ہی میں پیدا ہوکر یہاں کے سکولوں میں پڑھنے کے بعد اب کالجوں یا کسی بھی طریقے سے مزید تعلیم کے حصول کے لئے بے تاب ہیں۔ اسلام آباد کی زمین ان کے لئے تنگ کردی گئی تو ان نوجوانوں کے دلوں میں ابلتا غصہ اور معاشرے کی جانب سے نظرانداز کئے جانے کا احساس انہیں جرائم یا انتہا پسندی کی جانب راغب کرنے کا کلیدی سبب ہوگا۔

اسلامی "جمہوریہ" پاکستان کے دارالحکومت میں تاہم بااختیار منتخب مقامی حکومت ہی موجود نہیں۔ اس کے ہوتے ہوئے شاید ہی کوئی افسر کچی بستیوں کو جنونی انداز میں مسمار کرنے کی جرأت دکھاسکتا ہے۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.