پاک انڈونیشیا تعلقات میں حالیہ پیش رفت اِس بنا پر بھی اہمیت کی حامل ہے کہ جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کا اقتصادی منظر نامہ بدل رہا ہے اور نئے معاشی اور دفاعی اتحاد تشکیل پارہے ہیں۔ یہ ایسی جغرافیائی تبدیلیاں ہیں جنھیں سمجھ لیا جائے تو مستقبل کے لیے بہتر منصوبہ بندی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور انڈونیشیا دونوں ہی مسلم دنیا میں ممتاز اور منفرد مقام رکھتے ہیں۔ اگر پاکستان جوہری طاقت ہونے کی بنا پر دفاعی حوالے سے اہم ہے تو انڈونیشیا نے بھی کمال مہارت سے گزرے دوعشروں کے دوران معاشی استحکام، صفعتی ترقی، سیاحت، روزگار اور جمہوری حوالے سے قابلِ رشک کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے ابھی پاکستان فاصلے پر ہے۔
جوہری طاقت ہونے کے باوجود پاکستان سیاسی عدمِ استحکام کا شکار ہے معیشت ناتواں، مہنگی توانائی، بڑھتی مہنگائی اور خارجی انحصار جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ اِن حالات میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے قریب آنا اور تعاون و اشتراک کے معاہدے کرنا بروقت ہے۔ مقامِ اطمنان یہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کو نہ صرف نئے حالات و مسائل کا ادراک ہے بلکہ اِن مسائل کو حل کرنے کی تگ و دو میں ہے اور سنجیدگی سے دونوں کی مستقبل کی منصوبہ بندی پر توجہ ہے۔ اگر عملی طور پر بھی ایسا ہوجاتا ہے تو اُن کے عالمی کردار و ساکھ میں بہتری آسکتی ہے۔ توقع ہے کہ موجودہ حالات میں انڈونیشین صدر ابووسوبیانتوکے دورہ پاکستان سے تعلقات کونئی جہت ملے گی کیونکہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کے حوالے سے دونوں نے کشادہ دلی کا دکھائی ہے۔
پاکستان اور انڈونیشیا میں کئی اقدار مشترک ہیں۔ دونوں ہی نہ صرف دنیا کی بڑی مسلم آبادی والے ممالک ہیں بلکہ ماضی میں نوآبادیاتی قوتوں کے خلاف جدوجہد سے آزاد ہوئے اور ترقی پذیر ممالک کے حقوق کے لیے عالمی سطح پر آواز بھی اُٹھاتے ہیں۔ دونوں میں اشتراکِ کار اِس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ مسلم ممالک کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتے اور محکوم اقوام کوحقِ خوداِرادیت دینے کے علمبردار ہیں۔ کشمیر، فلسطین، میانمار میں مسلم آبادی پر روا رکھے جانے والے مظالم کے سخت ناقد ہیں۔ اِن کا ایک آواز ہونا مسلم ممالک کے ساتھ ترقی پذیر ممالک اور محکوم مسلم آبادی کے لیے یقینی طور پر حوصلہ افزا ہوگا۔
پاک انڈونیشیا موجودہ قیادت دونوں ممالک کو قریب تر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ انڈونیشین صدرکے حالیہ دورے کے دوران اقتصادی و تجارتی تعلقات، دفاع، سلامتی، صحت، تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت اور ماحولیاتی تعاون کو مضبوط کرنے کے عزم کا اعادہ اطمنان بخش ہے۔ اگر تجارتی حوالے سے دیکھا جائے تو تجارتی توازن واضح طور پر انڈونیشیا کے حق میں ہے جس کی اہم وجہ پاکستان کا خوردنی تیل کی ضروریات کے لیے انڈونیشیا کو ترجیح دینا ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان صرف انڈونیشیا سے اپنی خوردنی تیل کی ستر فیصد ضروریات پوری کرتا ہے مگر انڈونیشیا کی طرف سے ایسی گرمجوشی عنقا ہے اور بے پناہ تجارتی مواقع ہونے کے باوجود ماضی میں اُس نے پاکستانی مصنوعات کی خریداری میں دلچسپی نہیں لی حالانکہ انڈونیشیا ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات اور حلال گوشت کی اہم منڈی ہے اور یہ اشیا اگر دیگر ممالک سے درآمد کرنے کی بجائے پاکستان کو فوقیت دے تو تجارتی عدمِ توازن کو باآسانی دور کیا جاسکتا ہے۔
ادویات اور آرائشی مصنوعات بھی خریدی جاسکتی ہیں معیاری اور سستی دفاعی سازوسامان خرید کر انڈونیشیا اپنے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکتا ہے۔ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کا حجم گزشتہ برس چار ارب ستر کروڑ ڈالر رہا جس میں پاکستان کی اندونیشیا کو برآمدات محض پچاس کروڑ تینتالیس لاکھ ڈالر رہیں۔ یہ صورتحال بہت مایوس کن ہے باہمی تجارت کو باآسانی آٹھ سے دس ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ اندونیشیا اپنی ترجیحات میں تبدیلی لائے اور پاکستان معاہدے کرتے وقت مال کے بدلے مال کے اصول کو اپنائے تاکہ دونوں ممالک کو یکساں معاشی ترقی کے مواقع حاصل ہوں۔
ماضی میں پاک انڈونیشیا تعاون قابلِ قدر رہا ہے۔ 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران انڈونیشیا زبانی و بیانی ہی نہیں عملی طور پر بھی پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا لیکن بعد میں قریبی تعاون کی رفتار برقرا ر نہ رہ سکی جسے بہتر بنانا دونوں ممالک کی ذمہ داری ہے۔ اب جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں انڈونیشیا تجارت کا ایک اہم اور قابلِ رشک مرکز بن کر سامنے آیا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ خطے کے اِس اہم ملک پر پاکستان توجہ دے اور اِس اہم تجارتی منڈی سے فوائد کشید کرے۔ جب دونوں ممالک کے تعلقات باہمی احترام اور اصولوں پر مبنی ہیں تو پاکستان سے درآمدات میں انڈونیشیا کیوں گریزاں ہے؟ نہ صرف اِن وجوہات کو جاننا بہت ضروری ہے بلکہ دور کرنا بھی پاکستان کی ذمہ داری ہے۔
انڈونیشین صدر کارواں ہفتے کا دورہ تبھی عملی طور پر بہتر ثابت ہو سکتا ہے جب پاکستان لاپرواہی اور سُستی چھوڑ کر تجارت کے فروغ میں حائل مسائل ختم کرنے پر توجہ دے۔ یقیناََ اِس کے لیے ضروری ہے کہ پیداواری شعبے کو مراعات دی جائیں تاکہ نہ صرف برآمدی سامان وافر ہو بلکہ سستا بھی ہو۔ مہنگی توانائی پیداوار میں بڑی رکاوٹ ہے جس کا خاتمہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ دوطرفہ تجارت کے حجم کو بڑھانے کے لیے انڈونیشیا سے ترجیحی تجارتی معاہدے کے ثمرات تبھی پاکستان حاصل کر سکتا ہے جب محض تجارتی منڈی بننے کی بجائے برآمدی سپلائی لائن بہتر کی جائے تاکہ تجارتی عدم توازن دورکرنے پر اتفاق حقیقت میں بھی نظر آئے۔
پاکستان اور انڈونیشیا دونوں کا تعلق امریکی بلاک ہے اور دونوں کے ہی ماضی میں امریکی انتظامیہ سے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان کی طرح اب انڈونیشیا بھی چین کے قریب ہو رہا ہے اِس کے باوجود تجارتی رکاوٹیں سمجھ سے باہر ہیں۔ انڈونیشین صدر کے دورہ پاکستان کو اگر دونوں اسلامی ممالک کے دیرینہ تعلقات کا مظہر کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مہمان کا اسلام آباد پہنچنے پر وزیرِ اعظم کا استقبال کرنا اور افواجِ پاکستان کی طرف سے گارڈ آف آنر پیش کرنا ثابت کرتا ہے کہ انڈونیشیا سے تعلقات کو پاکستان بہت اہمیت دیتا ہے۔
صدر آصف زرداری نے مہمان صدر کو نشانِ پاکستان سے نوازا۔ یہ اُلفت، احترام اور اہمیت کا اظہار ہے۔ مہمان صدر سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کا ملنا اور دفاعی تعاون، تربیت، اِنسدادِ دہشت گردی اور علاقائی سلامتی جیسے وسیع امور پر تبادلہ خیال کرنا بھی اہمیت کا حامل ہے۔ دونوں ممالک کے 75برس پر محیط تعلقات ہر آزمائش پر پورا اُترے مگر وہ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستانی مال کو نظرانداز کرتے ہوئے ترکیہ کی طرح انڈونیشیا دیگر ممالک پر مہربان ہے؟ اگر اِس سوال کا جواب تلاش کرلیا گیا توہی تجارتی عدم توازن بہتر ہوگا وگرنہ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔