جنرل فیض حمید سے مجھے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہ رہی اور نہ ہی ان سے کبھی مثبت وائبز آئیں۔ آئی ایس آئی کے واحد سربراہ جنرل حمید گل مجھے بہتر لگے، وہ بھی شخصی حوالوں سے۔ جب سرینا ہوٹل میں فیض حمید نے چائے کی پیالی ہاتھ میں پکڑے تصویر کھنچوائی تو "ہیٹ آف مومنٹ" میں شائد بات بری نہ لگی ہو مگر بعد میں جب بھی اس پر غور کیا اور تجزیہ کیا تو یہ ایک بلنڈر تھا۔
ویسے جنرل فیض حمید کے دوران ملازمت ہی لاہور کے صحافتی حلقوں میں ان کے کرپشن اور زمینوں پر قبضے کے معاملات کی خبریں ملنا شروع ہوگئیں تھیں، مگر ظاہر ہے کوئی کچھ لکھ سکتا تھا نہ ہی کوئی چھاپ پاتا۔
مجھے اس کی زیادہ سمجھ نہیں آئی کہ پی ٹی آئی جنرل فیض حمید کے اتنے قریب کیوں ہوگئی، خاص کر ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اگر جنرل فیض سے مشاورت کا عمل جاری تھا تو باقاعدہ بے وقوفی تھی۔ اگر نو مئی یا اس کے آس پاس بھی یہ مشاورت جاری تھی تو مزید حماقت تھی۔
بہرحال اس حوالے سے مکمل سچ شائد کبھی باہر آئے، سرکاری تحقیقات یا سزاوں اور فیصلوں وغیرہ سے اب لوگ مطمئن نہیں ہوتے، ان پر زیادہ یقین نہیں کرتے۔
جنرل فیض حمید کو اب کورٹ مارشل کے بعد چودہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ انہیں دفاع کا پورا موقعہ اور حق دیا گیا۔ ابھی بعض معاملات مین شائد مزید مقدمات بھی چلیں۔ اپنی سزا پر فیض حمید اپیل کر سکیں گے، مگر مجھے زیادہ امید نہیں کہ اپیل میں سزا ختم ہو، ممکن ہے تھوڑی بہت کم ہوجائے، چودہ سال سے دس سال ہو جائے، مگر سزا بہرحال ہوگی۔
جنرل فیض حمید کا قصہ اب تمام شد۔ وہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ چکے ہیں۔ پہلے ڈی جی آئی ایس آئی جنہیں اس قسم کی سخت سزا سنائی گئی۔ یہ ایک طرح سے نئی شروعات ہے، ایک نیا ٹرینڈ بھی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ساتھ معاملات میں مزید کتنی سختی آتی ہے؟
یہ کہا جاتا رہا ہے کہ جنرل فیض حمید کا معاملہ نمٹ جانے کے بعد خان صاحب کے لئے سختیاں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ اللہ پاک ان کے لئے آسانیاں فرمائے اور ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہو، آمین۔
افغانستان کے حوالے سے باخبر حلقے یہ کہتے ہیں کہ بہت سے معاملات میں گڑبڑ، پیچیدگی اور گنجلک پن جنرل ر فیض حمید کی وجہ سے آئے۔ کئی ایسی گرہیں لگ گئیں جو اب آسانی سے کھل ہی نہیں رہیں۔
جنرل فیض حمید نے تو اس حوالے سے جو کچھ کیا، انہیں سزا مل ہی گئی۔ سزا بھگت لیں گے۔ اداروں کو البتہ ایک ایسا شفاف نظام بنانا چاہیے جس میں کوئی ایسا طاقتور افسر آسانی سے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر تروڑ موڑ نہ سکے۔ یہ بہت ضروری ہے۔ سسٹم ایسا مضبوط ہونا چاہیے کہ اسے فیض حمید جیسا کوئی بااختیار اور طاقتور افسر بھی بریک نہ کر سکے، اس میں سرائیت نہ کر پائے۔ یہ چیز یقینی بنانا ہوگی۔ ملک وقوم کے لئے یہ اب لازم ہوگیا۔ جنرل ر فیض حمید کو سنائی گئی سزا اس حوالے سے تو خوش آئند ہے۔ جو داستانیں ہم نے ان کے دور عروج میں سنی تھیں، ان میں اگر پانچ دس فیصد بھی حقیقت تھی (میرے خیال میں اسے سے بہت زیادہ حقیقت تھی) تو فیض حمید اس سزا کے مستحق تھے۔ حق بحقدار رسید۔