عسکری قیادت کے ترجمان کی طرف سے کی گئی پریس کانفرنس میں جن جذبات کا اظہار کیاگیا، وہ ظاہر کرتے ہیں، کہ ان کے لب و لہجہ کے پیچھے بڑا کرب تھا، جس نے انھیں وہ تلخ الفاظ استعمال کرنے پر مجبور کیا جسکی ماضی میں نظیر نہیں ملتی، انکی گفتگو اس فرد کے بارے میں تھی، جو ماضی میں اس ادارہ کا منظور نظر رہا، انھوں نے اس پراعتماد کیا مگر یہ طوطا چشم واقع ہوا، اقتدار سے الگ ہونے کا اسے اتنا دکھ ہوا، اس نے تمام احسانات پر پانی پھیر دیا جن کا تذکرہ اسکی وڈیوز میں ملتا تھا، اس نے نہ صرف ماضی کے سپہ سالارکو ایکسٹیشن دی، بلکہ اعتراف کیا کہ امور مملکت میں اس کے معاون اگر وہ نہ ہوتے تو شائد اُس وقت ملک میں سرمایہ کاری نہ ہوتی۔ یہ بھی دعویٰ کیا سابقہ آمروں سے قطعی مختلف اور جمہوریت پسند ہیں۔
اقتدار کے زعم میں اسے ماہ و ملجا ہی سمجھ لیا، ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ قوم کو متنبہ کیا کرتے، جو لوگ اپنی افواج اور سپہ سالار کے بارے برا گمان رکھتے ہیں، وہ قوم اور ہمارے خیر خواہ نہیں ہیں، انھیں فرط جذبات میں ڈوب کر سابق وزیراعظم نے کہا کہ" حد ادب" سپہ سالار قوم کا باپ ہوتا ہے، اس حدتک جانے کے بعد نجانے کس کی برُی نظر انھیں لگی کہ مزید ایکسٹیشن دینے کا وعدہ وعید ہواقتدار کا کارپٹ مگر کھینچ لیا گیا، یہ"سیاسی مگر عسکری معاشقہ" زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں، کہ موصوف نے خود ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ عدم اعتماد کی تحریک ان کا مقدر بن گئی، نہیں معلوم کن سیاسی شخصیات نے انکی سیاسی تربیت کی کہ انھوں نے پارلیمنٹ میں پارلیمانی مدت کو پورا کرنا بھی گوارا نہ کیا، ریاست کے بڑے صوبے اور خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومتیں ان کا سیاسی اثاثہ تھیں ان سے نکلنے کی انھیں مگر بڑی جلدی تھی، کسی بھی جمہوری ریاست میں پارلیمنٹ ہی وہ بہترین فورم ہو سکتا ہے جس کی وساطت سے قانون سازی کرکے عوام الناس کی زندگی میں آسودگی لائی جاتی ہے۔
انصاف کی فراہمی کی بنیاد پر قائم ہونے والی اس مقبول تحریک نے پارلیمنٹ میں اپنا وجود برقرار رکھنا مناسب ہی نہ سمجھا، جس نے عدم اعتماد کی راہ ہموار کی اور اس کی کامیابی کے نتیجہ میں بانی تحریک انصاف بطور وزیر اعظم نکال باہر کئے گئے۔
دور اقتدار میں اختیارات کے ناجائز استعمال اور کرپشن کی بہت سی کہانیاں زیر گردش رہیں ثبوت کے ساتھ خفیہ اداروں کو متحرک ہونا پڑا، شکایات کا تعلق بڑے صوبہ سے تھا، سارے عمل سے کیا وہ بے خبر رہے؟ اقتدار سے الگ ہونے کا ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے ان کے ہمدردوں نے انھیں یہ پٹی پڑھا رکھی تھی، انھیں اقتدار سے الگ کرنے کا راستہ سیدھا راولپنڈی کو جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کے حواریوں نے طبل جنگ بجا دیا، وہ سمجھتے تھے کہ انکی بڑی ڈیوٹی تو دوسروں کو چور ڈاکو کہنا تھا، وہ بھی بدعنوانی کے الزام میں زیر عتاب ہوں گے انھوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہ تھا۔
بقول سیاسی ماہرین یہ تحریک سرے سے سیاسی پارٹی نہیں ہے، اس کے لچھن بھی سیاسی سوجھ بوجھ والے نہیں، اس کی قیادت بھی بڑی کنفوژ رہی ہے، کبھی یہ طالبان کے حمایتی رہے اور امریکہ کا اپنا دشمن کہتے، کبھی امریکہ کو اپنی مددکے لئے پکارتے اور کانگریس میں لابنگ کرتے، کبھی ملک کو قرضہ نہ دینے کے لئے عالمی ادارہ کو خط لکھتے، اسی مخمصہ میں 9مئی کا سانحہ ہوگیا، جس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ اذیت اس کے کارکنان کو اٹھانا پڑی، اس کا پس منظر بھی وہ آگ تھی جو جذبات کے ایندھن سے سوشل میڈیا پر لگائی گئی، اس کا نقصان یہ ہوا کہ بانی پارٹی مکمل طور پر تنہا ہوگئے، جبکہ دوسرے اور تیسرے درجہ کی لیڈر شپ بھی مذکورہ سانحہ کے الزامات کا سامنا کرتی رہی ہے۔
بانی پارٹی اقتدار سے الگ ہونے کے بعد میڈیا پر یہ اعتراف کر چکے کہ ان سے بہت سی غلطیاں سر زد ہوئی ہیں، مگر انھوں نے ان غلطیوں کی تلافی کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی، مقبول جماعت کے طور وہ قومی، مفاہمتی، آئینی کردار ادا کرنے سے قاصر رہی۔
جنکی بڑی خدمات اس تحریک کے قیام کے لئے تھیں وہ کارکنان پرشکوہ تھے انھیں نظر انداز کرکے روایتی سیاست دانوں کو اقتدار کا حصہ بنایا گیا، اسکی وجہ سے بانی پارٹی کو یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔ پارلیمانی نظام کا حسن یہی ہے کہ عوام کے وسیع تر مفاد میں حکومت اور اپوزیشن مل بیٹھ کر ریاست کی ترقی کا روڈ میپ دیتے ہیں بانی پارٹی نے اپنے تین سالہ اقتدار میں ایجنڈے کے تحت اپوزیشن کو پابند سلاسل رکھا، سیاسی قوت کے لئے دیگر پارٹیوں کو انگیج کرنے کوبھی لازم نہیں سمجھا۔
ناقدین کہتے ہیں کہ جس صوبہ میں قریباً دو دہائیوں سے زائد وہ برسر اقتدار ہیں وہاں بھی صورت حال قابل رشک نہیں، نقص امن سے اہل صوبہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ بھاری بھر عالمی قرض لینے کے باوجود کوئی میگا پراجیکٹ قوم کو نہیں دے سکے، نہ ہی اداروں میں اصلاحات کا آغاز ہو ا جس سے عوام کو کوئی ریلیف ملتا، خیبر صوبہ میں کرپشن کی داستانیں زد عام ہیں، وہ تبدیلی جس کا خواب انھوں نے آمرانہ چھتری کے سائے میں بیٹھ کر قوم کو دکھایا تھا وہ اتنا بھیانک ثابت ہوا ہے، ا نکے عمال کی وجہ سے ان پر غداری کے مقدمات کا عندیہ دیا جارہا ہے، ان کے پیروکاروں نے جس طرح منظم قومی ادارہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلا کر دشمن ممالک کی آشیر آباد حاصل کرنے کی جسارت کی ہے، اسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی، باوجود اس کے سابقہ آمرانہ ادوار میں سیاسی مخالفین کو ہر اعتبار سے دیوار کے ساتھ لگایا، متاثرین نے منظم ادارہ کا احترام مقدم رکھا، حالات نے ثابت کیا ان کے صبر کا پھل میٹھا تھا۔ لیکن عسکری قیادت کی گود میں بیٹھ کر اقتدار لینے والی ہستی کو اس سے مخاصمت زیب نہیں دیتی۔
بانی پارٹی کی جھوٹی انا نے اس کے ورکرز کو اس مقام پر لا کھڑا کیا، کہ شخصیت پرستی، بت پرستی نظر آنے لگی ہے، سید مودودی فرماتے ہیں کہ بلاشبہ افراد اجتماعی زندگی میں اہمیت رکھتے ہیں، مگر جو قوم محض کسی شخصیت کے بل پر اٹھتی ہے وہ اس کے ہٹنے سے گر بھی جاتی ہے نصب العین اور اصول پسندی مگر وہ چیز ہے جسکی عمر اشخاص اور افراد سے زیادہ ہوتی ہے، بانی پارٹی کی اصول پسندی کا آغاز عسکری قیادت کی کاسہ لیسی سے ہوا تھاسیاسی شعور سے عاری" سیاسی فین گروپ "کا انجام آپ کے سامنے ہے۔