Tuesday, 12 August 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Syed Badar Saeed
    4. Masnoi Zahanat Sahafat Ke Liye Khatra Ya Moqa

    Masnoi Zahanat Sahafat Ke Liye Khatra Ya Moqa

    دنیا تیزی سے بدل رہی ہے اور اس تبدیلی کی بڑی وجہ ٹیکنالوجی ہے۔ کبھی صحافت محض قلم، کاغذ اور پرنٹنگ پریس کی حد تک محدود تھی لیکن اب ڈیجیٹل جرنلزم خود کو منوا رہی ہے۔ چند سال قبل تک ڈیجیٹل جرنلزم بھی روایتی انداز میں تھی لیکن اب آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) سارا منظر نامہ تبدیل کرتی نظر آتی ہے۔ اے آئی نے جہاں معاشرتی، معاشی، تعلیمی اور طبی شعبوں کو بدل دیا ہے وہیں صحافت کے لیے بھی ناگزیر ہو چکی ہے۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ اے آئی صحافت میں جگہ پائے گا یا نہیں بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ صحافی اس تبدیلی کے ساتھ کیسے ہم آہنگ ہوں گے؟

    اس میں دو رائے نہیں کہ روایتی صحافت کا ماڈل کئی دہائیوں تک چلتا رہا ہے لیکن اب دنیا بدل رہی ہے۔ کاغذ پر چھپنے والی خبر سکرین تک پہنچے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے۔ ہم نے اخباری صحافت سے ٹی وی چینل تک کا سفر طے کیا لیکن اب ایک اور تبدیلی ہماری منتظر ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ساتھ ہی رپورٹر کی جگہ ڈیٹا رپورٹر آ رہے ہیں اور نیوز روم میں سب ایڈیٹر کے ساتھ "الگورتھم" بھی بیٹھ رہے ہیں۔ اے آئی کی بدولت خبروں کی تلاش، تحقیق، تصدیق اور اشاعت کے انداز یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔

    عالمی نیوز ایجنسیز جیسے رائٹر اور ایسوسی ایٹڈ پریس اے آئی ٹولز کے ذریعے خودکار نیوز رپورٹس تیار کر رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ بڑے میڈیا ہائوسز جیسے دی گارڈین، نیویارک ٹائمز اور بی بی سی جیسے بڑے ادارے بھی اے آئی کو نیوز آٹومیشن، کانٹینٹ تجزیے اور ٹرینڈز کی پیشگوئی میں استعمال کر رہے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں صحافت کئی چیلنجز کا شکار ہے جن میں اخلاقی بحران، مالی بحران، سنسرشپ اور روزگار کے خطرات بھی شامل ہیں۔

    ان حالات میں اے آئی صحافیوں کے لیے امید کی کرن بن کر ابھرا ہے۔ اے آئی کا سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ یہ ٹولز فرد کو بھی ادارہ جاتی طاقت عطا کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اے آئی ٹولز کا درست استعمال سیکھ لے تو پھر وہ اکیلا ہی تحقیق، رپورٹنگ، ایڈیٹنگ اور پبلشنگ کے مراحل سرانجام دے سکتا ہے۔ یوٹیوب چینلز، نیوز بلاگز اور سوشل میڈیا پیجز پر ہزاروں صحافی اب ذاتی برانڈ بن کر ابھر رہے ہیں اور ان کے پس پشت صرف اے آئی کی طاقت ہے۔

    صحافت میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے سب سے بڑے فائدے میں وقت کی بچت اور ڈیٹا پروسیسنگ شامل ہے۔ فرض کریں ایک رپورٹر کو کسی مقدمے پر خبر تیار کرنی ہے تو وہ اے آئی کی مدد سے اس مقدمے سے متعلق تمام عدالتی فیصلے، حوالہ جات اور پس منظر کی معلومات سیکنڈز میں حاصل کر سکتا ہے۔ یہ ٹولز اسے ابتدائی مسودہ نویسی میں مدد دے سکتے ہیں جبکہ اے آئی بیسڈ فیکٹس چیکنگ سسٹمز بے بنیاد خبروں کی فوری نشاندہی کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ترجمہ، ٹرانسکرپشن، وائس اوور اور سب ٹائٹلنگ جیسے کام جو پہلے گھنٹوں کی محنت لیتے تھے اب اے آئی کی مدد سے چند لمحوں کا کام ہیں۔

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ صحافت کے معروف ادارے اب اے آئی لٹریسی کو صحافتی تربیت کا حصہ بنا رہے ہیں۔ کولمبیا جرنلزم سکول، سٹینڈفورڈ اور ایم آئی ٹی جیسے ادارے اے آئی جرنلزم کے کورسز شروع کرا چکے ہیں۔ یہ وقت پاکستان کے میڈیا ہائوسز اور صحافی تنظیموں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پریس کلبز، یونیورسٹیز کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ اور صحافتی یونینز کو چاہیے کہ اے آئی ورکشاپس، آن لائن کورسز اور سیمینارز کا انعقاد کریں تاکہ صحافی آنے والے وقت کے لیے تیار ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اے آئی صرف ایک مشینی ٹول ہے۔ یہ صحافت کی روح یعنی انسانی مشاہدے، ضمیر، سچائی کی لگن اور اخلاقیات کا نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ یہ حقائق کو ترتیب دے سکتا ہے مگر ان کی معنویت اور انسانی پہلو صرف ایک صحافی ہی اجاگر کر سکتا ہے۔

    صحافت میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کو اپنانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انسان کی جگہ مشین لے رہی ہے بلکہ یہ انسان کی استعداد کو کئی گنا بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اے آئی صحافت کو زیادہ جمہوری اور شفاف بنانے میں بھی کردار ادا کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک مقامی رپورٹر کسی کرپشن کیس پر کام کر رہا ہے تو وہ اے آئی ٹولز سے اس کیس سے متعلقہ ریکارڈ، ڈیٹا، عدالتی فیصلے اور مالیاتی معاملات کی چھان بین خود کر سکتا ہے جبکہ پہلے اسے کسی ادارے پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اس طرح چھوٹے صحافی، مقامی رپورٹر اور فری لانسرز بھی وہ کام کر سکتے ہیں جو پہلے صرف بڑے میڈیا گروپس کے بس کی بات تھی۔ اے آئی صحافیوں کے لیے خطرہ نہیں بلکہ موقع ہے۔

    اگر ہم وقت پر ٹیکنالوجی کو گلے نہیں لگائیں گے تو پیچھے رہ جائیں گے اسی لیے ضروری ہے کہ صحافی کم از کم ان سے آئی ٹولز کا استعمال لازمی سیکھیں جو ان کی پروڈکٹیویٹی، تخلیقی صلاحیت اور ریسرچ کی رفتار کو بڑھا سکیں۔ یہ ٹولز صحافیوں کو خود کفیل بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج ایک صحافی اپنے موبائل، لیپ ٹاپ اور چند سے آئی ٹولز کے ساتھ ایک مکمل ڈیجیٹل میڈیا ہائوس کا متبادل بن سکتا ہے اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اے آئی اب صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ صحافت کے تسلسل کی ضمانت بن چکا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ صحافت سچائی، شفافیت اور انسانی فلاح کا علمبردار شعبہ ہے۔

    اے آئی اگر ان اصولوں کے تحت استعمال ہو تو یہ صحافت کی روح کو زندہ رکھنے میں سب سے بڑا معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر ہم اس ٹیکنالوجی سے دور رہے یا صرف اسے خوف کی نظر سے دیکھا تو نہ صرف ہم موجودہ دور سے پیچھے رہ جائیں گے بلکہ صحافت کا روشن مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ اب وقت ہے کہ ہم قلم کے ساتھ الگورتھم کو بھی تھام لیں اور خبر کے ہر محاذ پر سچائی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کو بھی اپنی طاقت بنائیں۔