Saturday, 12 July 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Syed Badar Saeed
    4. Derh Crore Kahaniyon Ka Almia

    Derh Crore Kahaniyon Ka Almia

    ایک خاموش انقلاب ہماری آنکھوں کے سامنے برپا ہو رہا ہے۔ آبادی کا وہ حصہ جسے تجربے، دانائی اور حکمت کی علامت سمجھا جاتا تھا، اب تنہائی، محرومی اور نظراندازی کی علامت بن چکا ہے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں عمر رسیدہ ہونا جرم بن چکا ہے جبکہ میڈیا بھی خاموش تماشائی سے زیادہ کردار ادا نہیں کر پا رہا۔

    اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا میں 65 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 76 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے، جو 2050 تک 1.6 ارب ہو جائے گی۔ پاکستان بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2023 تک ملک میں 60 سال اور اس سے زائدعمر کے افراد کی تعداد 15 ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہو چکی تھی جو کہ کل آبادی کا تقریباً 6.8 فیصد بنتی ہے۔ اسی طرح عالمی ادارہ صحت (WHO) کا کہنا ہے کہ 2050 تک پاکستان میں بزرگوں کی تعداد تین گنا بڑھ کر تقریباً 45 ملین ہو جائے گی۔ یہ صرف اعداد و شمار نہیں، بلکہ ڈیرھ کروڑ جیتی جاگتی کہانیاں ہیں۔ یہ کہانیاں ہیں تنہائی میں گم، زندگی کے آخری موڑ پر تھکے ہارے ان مسافروں کی جنہیں نہ ریاست یاد رکھتی ہے اور نہ میڈیا۔

    ریاستی بے حسی اپنی جگہ لیکن ہمارے میڈیا نے "وائرل" کی دوڑ میں ان کے ساتھ جو کیا وہ بھی ایک مکمل چارج شیٹ ہے۔ ہمارے چینلز کی اسکرین پر صرف وہ "بابا" دکھایا جاتا ہے جو سڑک کنارے بھیک مانگ رہا ہو یا پھر وہ اس بزرگ کی کہانی چلتی ہے جسے بچے اولڈ ہوم میں چھوڑ آئے تھے۔ وہ بزرگ جو زندگی بھر محنت کرتے رہے، اپنے بچوں کو پالنے میں عمر کھپا دی، آج وہ اگر ایک کونے میں خاموش بیٹھے ہیں تو انہیں "قابل رحم" بنا کر کیمرے کی آنکھ میں قید کیا جاتا ہے۔ کیا یہ ان کی عزت نفس کے خلاف نہیں؟

    اگلے روز اسی حوالے سے آگہی پھیلانے کی کوشش کرنے والے ایک ادارے "فید" کے زیر اہتمام بزرگوں کے موضوع پر ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا تو یہ سب ایک نئے انداز میں سامنے آیا۔ بلاشبہ فیصل حسین نے اس موضوع پر تحقیق کا حق ادا کر دیا۔ دنیا بھر میں سینیئر سیٹیزن کو سرمایہ سمجھا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں انہیں لاچار، کمزور اور بے بس دکھا کر ریٹنگ بڑھائج جاتی ہے؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ ہم نے بزرگوں کو سماجی بوجھ کے طور پر پیش کرنا شروع کر دیا؟ ہماری فلمیں، ڈرامے اور اشتہارات تک اس تاثر سے بھرے پڑے ہیں کہ عمر رسیدہ ہونا ناکامی یا بیچارگی کی علامت ہے۔ کہیں بیمار دادا اپنی دوا کے لیے ترس رہا ہے، کہیں ایک دادی تنہائی سے گھبرا کر خودکشی کی دہلیز پر جا پہنچی ہے۔

    مغربی دنیا میں یہ منظر مختلف ہے۔ جاپان میں ہر چوتھا شخص 65 سال سے زیادہ عمر کا ہے لیکن وہاں میڈیا بزرگوں کو علم، ہنر اور تاریخ کا امین سمجھ کر دکھاتا ہے۔ وہاں کے مارننگ شوز میں بزرگ مہمانوں کو بلایا جاتا ہے، ان کے تجربات پر گفتگو ہوتی ہے، ان سے سیکھنے کی بات کی جاتی ہے۔ سویڈن، ناروے اور کینیڈا جیسے ممالک میں کمیونٹی سینٹرز، سوشل سپورٹ پروگرامز اور بزرگوں کے لیے مخصوص ہیلتھ پالیسیز عام ہیں۔ ان ممالک کے میڈیا میں بزرگوں کی ایک باعزت اور متحرک تصویر دکھائی جاتی ہے، جو معاشرے کو ایک مثبت پیغام دیتی ہے۔

    المیہ یہ ہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 70 فیصد بزرگ شہری اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد معاشی عدم تحفظ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کے لیے سوشل پروٹیکشن، پنشن اسکیمیں، صحت کی سہولیات اور روزگار کے مواقع انتہائی محدود اور ناقابلِ رسائی ہیں۔ سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے مطابق صرف 5 فیصد بزرگ شہری کسی نہ کسی ریاستی سوشل سیکیورٹی اسکیم سے مستفید ہو رہے ہیں، باقی سب کا انحصار خاندان یا خیرات پر ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بزرگوں کے لیے مخصوص صحت مراکز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں بزرگ مریضوں کے لیے کوئی ترجیحی سہولت موجود نہیں، نہ فری میڈیکل کیمپس، نہ نفسیاتی سپورٹ اور نہ ہی کمیونٹی سینٹرز جہاں وہ سماجی سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں۔

    ہم نے لاشعوری طور پر طے کر لیا ہے کہ گھر بنانے اور پورے خاندان کو ساری عمر کھلانے والے بوڑھے شخص کو ایک چارپائی تک محدود کر دیا جائے جہاں وہ کھانستا رہے۔ اسے شادیوں میں تقریبات سے لے کر دیگر سوشل ایکٹیویٹیز کے لیے عضو معطل سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسا بزرگ کوئی بات کرے تو سننے والوں کے چہرے کے تاثرات اسے بتا دیتے ہیں کہ اسے دماغی خلل کا شکار سمجھا جا رہا ہے۔ کیا یہ وہی تہذیب ہے جہاں والدین کو جنت کا دروازہ سمجھا جاتا تھا؟

    کیا یہ وہی اقدار ہیں جہاں سفید بالوں کو احترام کی علامت مانا جاتا تھا؟ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ میڈیا کی سکرین صرف تفریح یا سنسنی کے لیے نہیں بلکہ تربیت کے لیے بھی ہوتی ہے۔ اگر یہ تربیت صرف نوجوانوں، فیشن اور تنازعات تک محدود رہے گی تو ہم ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ رہے ہیں جو کل خود اپنے آپ سے بے نیاز ہو جائے گا۔ ہمیں ان کہانیوں کو جگہ دینی ہوگی جو ہمارے بزرگوں کی خدمات، قربانیوں اور دانشمندی کو اجاگر کریں۔

    دوسری جانب برطانیہ، کینیڈا اور ناروے جیسے ممالک میں "Active Ageing" پالیسیز کے تحت بزرگوں کو معاشرتی سرگرمیوں میں شامل رکھا جاتا ہے۔ وہاں ٹی وی چینلز پر ان کی کامیاب زندگیوں کی داستانیں، مہارتوں پر مبنی شوز اور صحت و بہبود سے متعلق پروگرامز باقاعدگی سے نشر ہوتے ہیں۔ یہ کلچر پاکستانی میڈیا کو بھی اپنانا چاہیے۔ یہ "بیکار بابے" اس معاشرے کا اصل دماغ ہیں جن کے پاس برسوں کے تجربات کا انمول خزانہ ہے۔

    ہم ڈیرھ کروڑ کہانیاں اور ڈیرھ کروڑ تجربات کو ضائع کر رہے ہیں۔ جہاں میڈیا کو چاہیے کہ تحقیقاتی رپورٹس، ڈاکیومنٹریز اور ٹاک شوز کے ذریعے بزرگوں کے حقیقی مسائل پر روشنی ڈالنے کے ساتھ ساتھ نیوز بلیٹن میں "سینئر سٹیزن سیگمنٹ" شامل کرے، وہیں ریاست پر بھی لازم ہے کہ " سینئر سٹیزن پالیسی" کو صرف کاغذی وعدے تک محدود نہ رکھا جائے۔ عمر رسیدہ افراد کے لیے مفت علاج، بزرگ بینیفٹ کارڈز، رعایتی سفری سہولیات اور ہر ضلع میں بزرگوں کے لیے کمیونٹی سینٹرز کا قیام تو بنیادی اقدامات ہیں جو اب تک ہو جانے چاہیے تھے۔ اس وقت بزرگوں کو لاوارث کی طرح گھر کے کونے میں منتقل کرنے کا نقصان تیزی سے بڑھتا جنریشن گیپ ہے۔

    جب پوتا اپنے دادا کی بجائے موبائل گیم میں مگن ہوگا تو یقیناََ دادا طاق نسیاں پر رکھ دیا جائے گا۔ یہ خیال جسے آئے گا کہ آج نظر انداز ہونے کی جس اذیت سے یہ بزرگ گزر رہے ہیں کل ہم اس سے زیادہ نظر انداز ہونے والے ہیں۔ اگر ہم نے آج ان کی عزتِ نفس، ضروریات اور کردار کو سنجیدگی سے نہ لیا، تو ایک ایسا سماج تشکیل پائے گا جو اپنے ماضی سے کٹا ہوا اور اپنے مستقبل سے غافل ہوگا۔ بزرگ محض افراد نہیں، ایک عہد، ایک تاریخ اور ایک تہذیب کا تسلسل ہوتے ہیں۔