Friday, 12 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Abu Nasr
  4. Kuch Att Satt Baatein

Kuch Att Satt Baatein

تلہ گنگ سے میاں محمد ملک نے یہ سوال کرکے ہمیں دنگ کر دیا کہ

"انشاء اللہ خان انشا کا شعر ہے:

نہ چھیڑ اے نکہتِ بادِ بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹھکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بیزار بیٹھے ہیں

اس شعر میں "راہ لگ اپنی" درست ہے یا "راہ لے اپنی" درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں"۔

صاحب! شاعر نے تو "راہ لگ اپنی" ہی استعمال کیا ہے۔ "راہ لے اپنی" تو ہم نے کہیں نہیں پڑھا۔ یوں بھی "راہ لگنے" اور "راہ لینے" کے معانی اور محلِ استعمال میں تھوڑا سا فرق ہے۔ فرق ملحوظ رہے۔

"راہ لگنا" سے مراد ہے کسی طریقے پر یا کسی ڈھنگ پر چل پڑنا۔ مثلاً: "لڑکا یوں ہی مارا مارا پھر رہا تھا، خیر سے اچھی ملازمت مل گئی، اپنی راہ لگ گیا"۔

انشاؔ کے محولہ بالا شعر کا دوسرا مصرع پڑھیے تو وہ بھی ہمیں یہی بتاتا ہے کہ شاعر نے پہلے مصرعے میں نکہتِ بادِ بہاری کو نیک چلنی کی تلقین کی ہے۔ اپنے کام سے کام رکھنے کو کہا ہے۔ مردِ بے زار سے چھیڑ چھاڑ کو منع کیا ہے۔ محض چل دینے یا چلتا بن جانے کو نہیں کہا۔

"راہ لگانا" کسی کی رہنمائی کرنا یا کسی ڈھب پر ڈال دینا ہوتاہے۔ جیسا کہ ناسخؔ کے ساتھ اُن کے دل نے یہ واردات کر ڈالی کہ

دل نے جس راہ لگایا میں اُسی راہ چلا
وادیِ عشق میں گمراہ کو رہبر سمجھا

"راہ پر لگانا" بھی ایک طرح کی رہنمائی ہے۔ اس رہنمائی میں خودغرضی و خود نمائی شامل کرکے داغؔ خوش اور خوش امید ہوئے:

راہ پر اُن کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

گویا راہ لگنا "بے راہ ہونے" یا "گمراہ ہونے" کی ضد ہے۔ جب کہ "راہ لینا" کا مطلب محض "روانہ ہوجانا" ہے۔ جیسے کہا جائے کہ "کراچی میں اپنے کاموں سے فارغ ہوکر میں نے لاہور کی راہ لی"۔

یا جیسے خواجہ میر دردؔ نے قاصد کو یہ کہہ کر چلتا بنایا کہ

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے

انشاء اللہ خان انشاؔ کے شعر کی دُرستی تو ہم نے اُسی وقت کردی تھی جس وقت میاں صاحب نے سوال کیا تھا، مگر ایک بات رہ گئی تھی۔ وہ بات اب کہے دیتے ہیں کہ یہاں کہنے سے بہتوں کا بھلا ہوگا۔ بات یہ ہے کہ انشاؔ کے شعر کے دوسرے مصرعے میں استعمال ہونے والا لفظ "اٹھکھیلیاں" نہیں "اٹکھیلیاں" ہے۔ "اَٹ کھیلیاں" کیسے کرتے ہیں؟ آئیے! ہم کرکے دکھاتے ہیں۔

"اَٹ" بڑا دلچسپ لفظ ہے۔ ہر جگہ ایک نیا مفہوم دیتا ہے، نئے نئے معانی نکالتا ہے۔ اَٹ، کے معنی مَیل، چیکٹ، جمگھٹا اور جماؤ کے ہیں۔ مگر اَٹ جانا، کا مطلب ہے بھر جانا، پَٹ جانا، مسدود ہوجانا، کسی چیز کا جمع ہوجانا، جم جانا، سما جانا یا پورے ناپ کا ہونا۔ جیسے:

"لباس گرد و غبار سے اَٹ گیا"۔

یا "نالی کیچڑ سے اَٹ گئی"۔

یا"آپ کا کوٹ مجھے اَٹ گیا"۔

یا "اتنی چھوٹی قمیص مجھے نہیں اَٹے گی"۔

اَٹا اَٹ، کا مطلب ہے خوب بھرا ہوا۔ اوپر تک بھرا ہوا۔ اتنا بھرا ہوا ہونا کہ کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔

"اَٹ سَٹ کرنا" بے فائدہ بات اور لایعنی شغل کرنا، گڑبڑ کرنا یا بے کار کام کرنا ہے(شاید اسی ترکیب کو عوامی تحریف نے "انٹ شنٹ مارنا" کر دیا ہے)۔

اَٹ سٹ، کرنے کے مطالب میں سازش، جوڑ توڑ، دھوکا، مکر اور فریب کرنے کے علاوہ ایک مطلب آشنائی یا عورت مرد کی دوستی بھی ہے۔ ادلہ بدلہ، یا وَٹّہ سَٹّہ، کے معنوں میں بھی اَٹ سٹ، استعمال کر لیا جاتا ہے۔ ظفرؔ کہتے ہیں:

کسی سے دل اگر ہم سادہ دل بدلیں تو کیا بدلیں
ظفرؔ جاتی کہیں یہ چیز بے اَٹ سٹ نہیں بدلی

اس شعر کا دوسرا مصرع پہلے معنوں میں اَٹ سٹ، کرنے کی اچھی مثال ہے۔ شاعری کی اصطلاح میں شاید اِسی قسم کا اَٹ سٹ تعقیدِ لفظی، کہلاتا ہے۔ ظفرؔ کو تو ردیف قافیے کی مجبوری درپیش تھی۔ ابونثرؔ کہتے تو یوں کہتے:

"ظفر! یہ چیز بے اٹ سٹ کہیں بدلی نہیں جاتی"۔

اٹکل، کہتے ہیں جانچنے، بھانپنے، اندازہ لگانے یا شناخت کرنے کے عمل کو۔ اٹکل پچو، بے جانے بوجھے کوئی کام کرنے، تُکّا لگانے، بے قرینہ بات کرنے اور فرضی، من گھڑت یا قیاسی معلومات بیان کرنے کو کہتے ہیں۔

اب رہا "اٹکھیلیاں " تو"اَٹ کھیلیاں، دراصل اُچھل کود کرنے، کلیلیں بھرنے اور طرّاریاں دکھانے کا کھیل ہے۔ اٹکھیلیاں کرنے، کا مطلب ہوا کھیلنا، کودنا، ناز نخرے سے چلنا اور الھڑ پنے کی حرکتیں کرنا۔

شوخی بھری چال، خرامِ نازیا اتراہٹ بھری چال بھی اٹکھیلیوں میں شمار ہوتی ہے۔ خدا جانے کس کا شعر ہے، مگر اچھا ہے:

اے دل فریب دریا آتا ہے تُو کہاں سے؟
اٹکھیلیاں سی کرتا جاتا ہے تُو کہاں کو؟

دریا سے اچھی اٹکھیلیاں بھلا کون کر سکتا ہے؟ دریا آخر دریا ہے۔ لیجے صاحب! دریا کا ذکر آیا تو لبِ دریا کہی ہوئی ایک نظم کے دو بند بھی یاد آگئے۔ اشعار تو بند دربند یاد رہے لیکن شاعر کا نام بھول گیا۔ اشعار پڑھیے مگر اشعارپڑھنے سے پہلے میر انیسؔ کا موقف بھی پڑھ لیجے۔ کہتے ہیں:

پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو
خیالِ صنعتِ صانع ہے پاک بینوں کو

مذکورہ شاعر بھی شاید انیسؔ کی طرح پاک بین شاعر تھے۔ وہ ایک روز کی رُوداد یوں سنا تے ہیں:

ایک دن میں گیا تھا لبِ آبجو
وقفِ نظّارہ تھی چشمِ پُر آرزو

دیکھا کشتی میں بیٹھا ہے اِک ماہ رُو
بے خودی میں مَیں کہتا گیا رُو بہ رُو

اللہ ہُو، اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو
موجیں ساحل سے کرتی تھیں اَٹکھیلیاں

تیرتی تھیں کنارے پہ کچھ مچھلیاں
دل لبھاتا تھا دریا کا دِل کَش سماں

آبِ شبنم سے گُل کر رہے تھے وضو
اللہ ہُو، اللہ ہُو، اللہ ہُو اللہ ہُو