جو بیانیہ بھارت کی حکومت چین کے خلاف یورپ اور امریکہ کی آنکھوں میں اہمیت اور دنیا کی سب سے بڑی منڈی ہو کر بھی دنیا کو نہیں بیچ سکی کیا وہ اکیلا سششی تھرور بیچ پائے گا؟ جو کام بھارتی وزیراعظم مودی صاحب اور وزیرخارجہ جے شنکر صاحب نہیں کر پائے وہ اکیلا سششی کر پائے گا؟
بھارت پہلی دفعہ دنیا بھر میں سفارتی تنہائی کا سامنا کررہا ہے اور اسے یقین نہیں آرہا کہ اس دفعہ دنیا پاکستان کے موقف کو اہم مان چکی ہے اور بھارت اکیلا نظر آتا ہے۔ کیا بھارت توقع رکھتا ہے کہ واپسی پر تھرور صاحب کے ہاتھ میں پروانہ ہوگا جس میں ان کے موقف کو درست مانا جائے گا۔
سششی تھرور کو ایک ہی صورت میں کامیابی مل سکتی ہے اگر وہ تمام ثبوت اپنے ساتھ لے کر جائیں جو پاکستان سمیت پوری دنیا ان سے مانگ رہی ہے۔ اس وقت بھارت کا یہ کہنا کہ ان کی زبان پر اعتبار کیا جائے سے کام نہیں چلے گا۔ جن ملکوں میں انہوں نے جانا ہے وہ سب ممالک دلی میں پہلے ہی بھارتی فارن آفس بریفنگ میں ثبوت مانگ چکے ہیں جس پر جے شنکرنے غصہ کیا اور بعد میں کہا یورپ ہمیں بھاشن نہ دے۔ بغیر ثبوتوں کے بات نہیں بنے گی اور ثبوت ان کے پاس نہیں ہیں۔
ہماری کس نے ماننی تو نہیں ہے ورنہ بہتر ہے دونوں ممالک اپنے اپنے وفد دلی یا اسلام آباد بھیج کر ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر شکوے شکایت دور کر لیں۔ یورپین کے آگے اپنا پیٹ ننگا کرنے سے بہتر ہے کہ دونوں کسی معاہدے پر تیار ہو جائیں کہ ایک دوسرے کے ممالک میں پراکسی جنگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے جس میں معصوم مارے جاتے ہیں۔
اگر یہ دونوں بدنصیب ممالک امریکہ اور یورپ یا مڈل ایسٹ کے کہنے پر سیز فائر کرسکتے ہیں تو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر بھی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ لیکن وہی احساس کمتری کہ ہمارا فیصلہ اپنی برادری نہیں بلکہ گائوں کا چوہدری کرے گا۔ اس طرح گورا ہمارا فیصلہ کرے گا کہ کون ٹھیک اور کون غلط ہے اور وہی فیصلہ مانیں گے۔
دونوں ممالک یورپ اور امریکہ سے اسلحہ لے کر جنگ لڑنے کے بعد یورپ کے پاس ہی اپنے سچ جھوٹ کا فیصلہ کرانے پہنچ جاتے ہیں۔ بہتر ہے اسلام آباد یا دلی بیٹھ کر بات چیت کر لیں۔ اب بڑے ہو جائیں۔ دونوں ملکوں کی عمر 78 برس ہوچکی ہے۔ عمر کے اس حصے میں تو انسان کو کچھ میچور اور سنجیدہ اور سمجھدار ہو جانا چاہیے لیکن سنا ہے اس عمر میں لوگ سٹھیا بھی جاتے ہیں۔