بڑے عرصے یہ فلم دیکھنا چاہ رہا تھا۔ اس موجودہ دور میں جس فلم رائٹرز، ڈائریکٹر نے مجھے اپنی کہانیوں سے متاثر کیا ہے وہ Taylor Sheridan ہے۔ میں کائو بوائے/ویسٹرن فلموں کا بہت بڑا شوقین ہوں اور میرا یہ شوق ٹیلر کے کمال سیزن اور فلمیں پورا کرتی ہیں۔ Sicario فلم ہو یا 1883/1923/Landman وہ ہر جگہ نظر آتا ہے۔
خیر آج یہ فلم دیکھتے ہوئے ایک جگہ فلم کا مین کردار نوجوان اپنی ناراض بیوی سے ملنے جاتا ہےاور اسے بتاتا ہے اماں مر گئی۔ وہ پوچھتی ہے۔ کب؟ وہ بتاتا ہے دو ہفتے پہلے۔ وہ سپاٹ چہرے کے ساتھ کمنٹ کرتی ہے چلیں جان چھوٹی۔
اس کا اپنا ٹین ایج بیٹا آتا ہے باپ کو دیکھ کر نفرت سے باہر نکل جاتا ہے اور اس کے سلام کا جواب تک نہیں دیتا۔
میں ایک لحمے کے لیے رک گیا۔ عورت مغرب کی ہو یا مشرق کی، وہ ساس بہو کے تعلق میں کبھی کمفرٹ ایبل نہیں رہتی۔ دونوں ایک مرد کی ملکیت پر لڑتی ہیں۔ ایک عورت اپنے بچے پر ملکیت رکھتی ہے جس نے اسے جنم دیا جب کہ دوسری عورت وہ ہے جو اپنی ساس کے بچے کے بچے پیدا کرتی ہیں اور ان کی نسل آگے بڑھاتی ہے۔ دونوں کا کام اپنی اپنی جگہ بہت اہم لیکن پھر لڑائی کیوں ہوتی ہے۔
ماں سمجھتی ہے میں نے اسے پیدا کیا پالا پوسا اور بڑا کیا، پڑھایا لکھایا اور ایک دن جب وہ کمانے لگا تو ایک اجنبی لڑکی آتی ہے اسے اپنا اسیر کر لیتی ہے اور اسے اپنے بیٹے سے دور کر دیتی ہے۔ بیٹا پہلے اس کے پاس سیدھا آتا تھا اب بیوی کے پاس جاتا ہے۔ اس کی پہلے جیسی محبت نہیں رہی۔ یوں اس کے اندر ایک فطری نفرت ابھرتی ہے۔
بیوی سوچتی ہے میں نے اس عورت کے بچے کو اپنایا۔ دن رات اس کے ساتھ سوئی۔ اس کا خیال رکھا۔ اس کے بچے پیدا کیے۔ اپنی ساس کی نسل آگے بڑھائی تو اسے میرا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ اپنی زندگی گزار چکی تو اب میری زندگی کیوں حرام کررہی ہے۔
ایک مرد بیٹے اور خاوند کے رول میں پھنس جاتا ہے۔ ساری عمر بیلنس کرنے کے چکر میں مارا جاتا ہے۔ ماں کو چھوڑتا ہے تو زمانہ نہیں رہنے دیتا۔ نہیں چھوڑتا تو بیوی نہیں رہتی۔ ماں کو دیکھ کر بچے بھی باپ کو ظالم سمجھتے ہیں جب تک ایک دن وہ خود اپنے باپ کے رول میں نہیں آتے اور انہیں پہلی دفعہ اپنا باپ مظلوم لگتا ہے۔
لیکن برسوں بعد وہ مرحلہ آنے تک وہ بچے اپنے باپ سے نفرت کرتے رہتے ہیں اور جب وہ بیوی اور اپنے بچوں کو بتاتا ہے کہ اس کی ماں مر گئی تو بیوی کہتی ہے اچھا ہوا۔
فلم دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ عورت مغرب کی ہو یا مشرق کی وہ اپنے مرد شئیر نہیں کرسکتیں چاہے ایک ماں ہو اور دوسری بیوی۔ دونوں کو بٹا ہوا مرد نہیں چاہئے۔ نوجوان بیوی بھی ایک دن ساس بن کر وہی سوچتی اور ایکٹ کرتی ہے جیسے اس کی ساس کرتی تھی۔
یہ سائیکل کبھی نہیں رکتا۔ یہ تینوں کردار اتنے ہی پرانے جتنا انسان خود ہے۔ یہ دردناک کہانی خود کو دہراتی رہتی ہے اور کبھی پرانی نہیں ہوتی۔