Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. 2 Kinare

2 Kinare

تیس برس پہلے سویڈن جانے کا اتفاق ہوا۔ خاصے طویل عرصے میں اس معاشرے کوسمجھنے کا موقع ملا۔ حد درجہ خوبصورت لوگ اور کمال ملک۔ اسٹاک ہوم جیسا جاذب النظر شہر بہت کم دیکھنے کو ملا ہے۔ دنیا کے ان گنت ملک دیکھ چکا ہوں۔ مگر جو انفرادیت اور کمال، نورڈک ممالک کو حاصل ہے۔ اس کی مثال تلاش کرنا ناممکن ہے۔

جب پہلی بار اسٹاک ہوم جانے کا اتفاق ہوا تو ایک سویڈش خاندان کے ہمراہ اس ملک کو دیکھنا ایک نایاب تجربہ تھا۔ عرض کرتا چلوں۔ سویڈن، ڈنمارک اور ناروے، تمام دنیا سے ہر لحاظ سے مختلف ملک ہیں۔

حد درجہ ٹھنڈا موسم اور برف باری نے ان اقوام کے مزاج پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ خاموش طبع لوگ ہیں اور ان کے بولنے میں تندی نہیں۔ سویڈن کے لوگ ہر طور پر مختلف ہیں۔ تمام پاکستانی جو وہاں رہتے ہیں۔ انھیں یہ فرق صاف طور پر معلوم ہے۔ ایک بات لکھتے لکھتے یاد آئی ہے۔

جہاز میں ایرانی خواتین بھی موجود تھیں۔ جنھوں نے مکمل سیاہ رنگ کا عبایہ سا اوڑھ رکھا تھا۔ متعدد نے تو نقاب بھی پہن رکھا تھا۔ جیسے ہی جہاز میں اعلان کیا گیا کہ تیس چالیس منٹ میں اسٹاک ہوم لینڈنگ ہو جائے گی۔ ایک ایک کرکے، تمام ایرانی خواتین واش روم گئیں۔ واپس آئیں تو حد درجہ مغربی لباس پہن رکھا تھا۔

ایسے معلوم ہوتا تھا کہ یہ وہ عورتیں ہی نہیں۔ جنھوں نے ایک گھنٹہ پہلے مکمل مشرقی لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ لباس ہر چیز تبدیل کر دیتا ہے۔ اگر میں نے جہاز میں ان کو پہلے، مخصوص حلیہ میں نہ دیکھا ہوتا تو یقین ہی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ وہی خواتین ہیں۔ خیر یہ ایک معمولی سی بات ہے۔

پاکستانیوں کی دوسری نسل جو یورپ میں پیدا ہوئی اور وہیں پلی بڑھی، کسی بھی صورت میں مغربی شعور سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ اور یہ ایک حد درجہ مہیب سماجی کشمکش اور گھریلو تناؤ کی بنیاد بنتی ہے۔ بات اسٹاک ہوم کی ہو رہی تھی۔ وہاں کے سماجی، گھریلو، اقتصادی اور سیاسی نظام کو ہمارے لیے سمجھنا از حد ضروری ہے۔ مگر یہ ضرورت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو وہاں آتے جاتے رہتے ہیں یا مستقل قیام پذیر ہیں۔

تین دہائیاں پہلے اسٹاک ہوم میں مہاجرین کی تعداد کافی کم تھی۔ چند سو ترک، وہاں کسی غیر قانونی طریقے سے پہنچ گئے تھے۔

اور شہر کے ایک حصے میں کیمپوں میں اس وقت تک رہ رہے تھے۔ جب تک، ان کی شہریت کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔ وہ درمیانی درجے کے خیموں میں ہی رکھے گئے تھے۔ پہلی بار ان کو دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہاں رہتے ہوئے انھیں چار سال ہو چکے تھے۔ 1993کا وقت تھا۔ اب تو خیر نورڈک ممالک میں ان گنت تارکین وطن رہتے ہیں۔

شاید آپ کو برا لگے۔ مقامی لوگوں کے مطابق، مہاجرین نے سویڈن کے سماجی نظام پرحد درجہ دباؤ ڈال دیا ہے۔ ویسے، ان لوگوں کی دلیل بے بنیاد نہیں۔ مہاجرین بالخصوص مسلمان ممالک سے گئے ہوئے لوگ، کسی صورت میں اس معاشرے کا حصہ بننے کو تیار نہیں، بلکہ وہ اس کی ضد پر جیتے ہیں۔ سویڈش لوگوں سے انھیں عجیب سی الجھن ہوتی ہے۔

تضاد یہ ہے کہ وہ رہتے بھی وہیں ہیں۔ ان کے نظام سے بیش بہا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور ان سے نفرت بھی کرتے ہیں۔ مگر کوئی بھی اپنے آبائی ملک جانے کے لیے تیار نہیں۔ آج بھی یہی رویہ ہے۔ پورے یورپ یا امریکا تک ہم لوگوں کی اکثریت حد درجہ ذہنی انتشار کا شکار ہے۔ پہلے دن شام کو ایک عجیب سا واقعہ ہوا۔ جو آج تک یاد ہے۔

ایک سویڈش ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھانے کا اتفاق ہوا۔ یہ اسٹاک ہوم کے بہترین طعام گاہوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کا باورچی خانہ، ریسٹورنٹ کے درمیان میں تھا۔ اور شیشے کا بنا ہوا تھا۔ کھانا بنانے والے آپ کو بڑے صاف نظر آ رہے تھے۔ میرے ہمراہ سویڈش فیملی تھی۔ احساس ہوا کہ شیشے کے کمرے میں کوئی مجھے بغور دیکھتا ہے۔

جب میں نظر دوڑاتا ہوں تو وہ شخص غائب ہو جاتا ہے۔ ایسے لگا کہ مجھے وہم ہو رہا ہے۔ بہر حال کھانا کھانے کے بعد جب بل دے چکا تو ریسٹورنٹ کے عملے کا ایک شخص بڑی شائستگی سے میرے پاس آیا۔ پوچھنے لگا آپ پاکستان سے آئے ہیں۔ جی ہاں، میرے جواب پر اس نے حد درجہ منفرد بات کی۔ میں ہی وہ شخص تھا جو آپ کو شیشے کے کمرے سے چھپ چھپ کر دیکھ رہا تھا۔ وجہ یہ کہ یہ ایک مہنگا ہوٹل ہے۔

چند ماہ پہلے یہاں دو پاکستانی کھانے کے لیے آئے تو انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں کھانا سستا نہیں ہے۔ ان کے پاس بل دینے کے پورے پیسے نہیں تھے۔ آخر وہ پوچھنے لگے، کہ اس جگہ کوئی پاکستانی کام کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انتظامیہ انکار نہیں کر سکتی تھی۔ ان لوگوں نے آدھا بل میرے سے دلوایا اور پھر شکریہ ادا کیے بغیر واپس چلے گئے۔

اس دن سے فیصلہ کیا کہ اس ہوٹل میں اگر کوئی ہم وطن آتا ہے تو اسے اس وقت تک نہیں ملوں گا جب تک وہ اپنا حساب نہیں چکا دیتے۔ یقین فرمائیے اس واقعہ کو سننے سے میں حد درجہ شرمندہ ہوا۔ سویڈش لوگ پوچھنے لگے کہ کیا ماجرہ ہے۔ جب میں نے اصل بات بتائی تو وہ مکمل خاموش ہو گئے۔

اسٹاک ہوم سے ملمے جاتے ہوئے راستے میں ایک زیر تعمیر بہت بڑی مسجد نظر آئی۔ گاڑی روک دی۔ وہاں گورے مزدور بڑی تندہی سے حد درجہ خوبصورت مسجد بنانے میں مصروف تھے۔ حیرت ہوئی کہ یہاں ہماری عبادت گاہ کا کیا جواز ہے۔

پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اس علاقے میں دنیا بھر سے کافی مسلمان آچکے ہیں۔ ان کی سہولت کے لیے مقامی حکومت بہت بڑی مسجد سرکاری خرچہ پر تعمیر کروا رہی ہے۔ یاد رہے کہ سویڈن ایک لا دین ملک ہے۔ وہاں ہر انسان کو اپنا مذہب رکھنے کی اجازت ہے۔ مگر ریاست کا کوئی بھی دین نہیں ہے۔ کچھ عرصے پہلے سویڈن گیا۔ تو ہر فرقہ نے اپنی اپنی مساجد بنا رکھی تھیں۔

جہاں جہاں مسلمان آباد تھے۔ وہاں وہی بے ترتیبی، لاپرواہی، لا قانونیت اور صفائی ستھرائی کے فقدان کا بول بالا تھا۔ جو ہمارے علاقوں کا خاصہ ہے۔ یہاں میں ایک گزارش ضرور کرونگا۔ اگر کوئی بھی لوگ، سویڈن یا مغرب میں بہترین طور پر گھل مل جاتے ہیں تو وہ ہمارے ہمسایہ ملک کے ہیں۔ ایک تو ان میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہے۔

اس کے متضاد ہمارے پاکستانیوں کی اکثریت ایک دوسرے سے منفی مقابلے میں مصروف رہتی ہے۔ شاید میں غلط سوچ رہا ہوں۔ پر میرا خیال ہے کہ ٹھیک سوچ رہا ہوں۔

اسٹاک ہوم سے ملمے جاتے ہوئے، ہر طرف جنگل، ہریالی، جھیلیں اور پانی کے ذخائر موجود تھے۔ قدرت کے حسن کو انسان نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے جس طرح سویڈن میں محفوظ کیا ہے۔ اتنی ریاضت بہت کم ممالک میں دیکھنے کو ملی ہے۔ ملمے پہنچا، تو حد درجہ بہترین شہر پایا۔ اب تو وہاں بہت تارکین وطن پہنچ چکے ہیں۔ مگر تیس برس پہلے یہ ایک بھرپور سفید فام شہر تھا۔ دن میں رہائشی علاقے بالکل سنسان ہو جاتے تھے۔

مکمل خاموشی۔ ایسے لگتا تھا کہ یہاں کوئی بھی نہیں رہتا۔ مگر شام کو گھروں میں روشنی ہی روشنی نظر آتی تھی۔ شور شرابے کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مگر کسی بھی گھر سے کسی شور کی آواز کم از کم باہر سنائی نہیں دیتی تھی۔ دراصل سویڈش لوگ کسی کی ذاتی زندگی میں تانک جھانک نہیں کرتے۔ انھیں اپنی زندگی سے غرض ہے۔ ہمسائیگی کا وہ رویہ نہیں ہے جو ہمارے ہاں تکلیف دہ حد تک موجود ہے۔

اب تک لا تعداد مرتبہ مغربی ممالک میں جا چکا ہوں۔ ان تمام ممالک میں ریاست اور حکومت حد درجہ مضبوط اور طاقتور ہے۔ ان کی تمام کوشش صرف ایک جانب مختص ہے کہ اپنے شہریوں کی زندگی کو آسان سے آسان تر کیسے بنایا جائے۔ حکومت، عوام کے لیے واقعی محنت بلکہ ریاضت کرتی نظر آتی ہے۔

ساتھ ساتھ ریاست کسی بھی شہری کو دوسرے کا حق کھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ وہاں، واقعی ریاست، ایک ماں کے روپ میں نظر آتی ہے۔ ویسے ریاست ہمارے ملک میں بھی ماں ہی ہے۔ مگر عملی طور پر سوتیلی ماں سے بھی بدتر ہے۔

سویڈن کی بابت عرض کر رہا تھا۔ سیکڑوں برس پہلے Vikings یہیں سے نکلے تھے۔ جنھوں نے دنیا کو برباد کر ڈالا تھا۔ مگر جنگ کی تباہ کاریوں نے ان جیسے ممالک کو امن کی حقیقت سے روشناس کروایا۔ شخصی آزادی، رواداری، مذہی آزادی، معاشی ترقی، فکری آسودگی کو سویڈن اور ان جیسے ممالک نے اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہوئے بتدریج سیکھا اور اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہیں۔

ہمارا معاشرہ ابھی ذہنی، فکری اور سماجی ارتقاء کے پیچیدہ عمل سے گزر رہا ہے اور یہ حد درجہ مشکل اور تکلیف دہ عمل ہے۔

اصل مسئلہ ہے کہ ابھی تک ہم مغرب کی ساخت اور بات کو نہیں سمجھ پائے اور بالکل، اسی طرح مغرب ہمارے ذہن کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ فی الحال یہ دریا کے دو کنارے ہیں جن کے درمیان پانی تو آرام سے چل رہا ہے۔ مگر یہ ایک دوسرے کے قریب آنے سے قاصر ہیں۔