Friday, 06 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Maut Ka Shehzada

Maut Ka Shehzada

1398 برصغیرکی مکمل بربادی کا سال تھا۔ ایسا المناک سال جس میں لاشیں گننے والا بھی کوئی نہیں بچ پایا تھا۔ دہلی میں تغلق خاندان کی حکومت اندرونی خلفشار کا شکار تھی۔ ناصر الدین تغلق برصغیر کا حاکم تھا۔ وسطی ایشیاء اس وقت تیمور لنگ کی گرفت میں تھا۔ انسانی تاریخ کا وہ کردار جس کی سفاکی کی مثال دینا مشکل ہو جاتی ہے۔

منگولوں کے لشکر انسانی کھوپڑیوں کے مینار بناتے تھے اور بعینہ یہی شوق تیمور لنگ کا بھی تھا۔ وہ جہاں بھی حملہ کرتا تھا، بلا تخصیص مذہب، شہریوں کو قتل کرتا جاتاتھا۔ ایران اور اس کے ساتھ کے تمام علاقے تیمور نے روند ڈالے تھے۔ تیس ستمبر 1398 کو یہ قیامت برصغیر پر ٹوٹی تھی۔

دریائے سندھ عبور کرنے کے بعد ملتان تک کسی نے اس کا مقابلہ کرنے کی جرأت نہیں کی۔ بھٹنار واحد علاقہ تھا جہاں ہندو راجپوت اور مسلمان، لشکر بنا کر اس کے سامنے آئے تھے۔ اس کی سزا یہ دی گئی کہ بھٹنار شہر کے تمام مرد قتل کر دیے گئے۔ تیمور کی فوج نے گھروں میں گھس کر شہریوں کی ایک ایک پائی لوٹ لی۔ ان تمام واقعات کو تھوڑی دیر کے لیے بھول جایئے۔ دہلی کے نزدیک سلطان ناصر الدین اور امیر تیمور کی فوجوں کا مقابلہ ہوا۔ ناصر الدین کے لشکر میں ہزاروں ہاتھی تھے جن کے دانتوں پر زہر لگا دیا گیا تھا۔ ان کو لوہے کی زنجیروں سے جنگی لحاظ سے آراستہ بھی کیا گیا تھا۔ امیر تیمور کے فوجی، ہاتھیوں سے ڈرتے تھے۔ اس کا عسکری علاج یہ کیا گیا کہ تیمور نے دس ہزار اونٹ اکٹھے کیے۔ ان پر خشک لکڑیاں لاد کر انھیں آگ لگا دی گئی۔

جب جلتے ہوئے اونٹوں کو ہاتھیوں کے لشکر کی طرف ہانکا گیا تو ہاتھی گھبرا گئے۔ انھوں نے اپنے ہی لشکر کو کچلنا شروع کر دیا۔ انگارہ بنے ہوئے اونٹ ہاتھیوں کو فنا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بڑے آرام سے امیر تیمور جنگ جیت گیا۔ اور اب دہلی پہنچ گیا۔ مگر ٹھہر جایئے۔ دہلی پہنچنے سے بہت پہلے، بلکہ تغلق خاندان کی فوج سے لڑائی سے بھی پہلے۔ امیر تیمور نے ایک لاکھ کے قریب مقامی انسان ذبح کروائے۔ یہ تمام عام شہری اور جنگی قیدی تھے۔ اس میں مسلمان اور ہندو بلکہ تمام مذاہب کے لوگ شامل تھے۔ خود اندازہ لگالیجیے کہ حتمی جنگ سے پہلے ہندوستان کے عام لوگوں کے لیے کیسی قیامت برپا ہوئی ہو گی۔

یہ سب کچھ تو ایک طرف۔ مگر جو ظلم اس سفاک انسان نے دہلی پر ڈھایا۔ وہ انسانی فہم سے بھی بالاتر تھا۔ جب دہلی میں فاتح کے طور پر داخل ہوا، تو حکم دیا کہ جو شہری تاوان ادا کرے گا، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ چنانچہ تین چار دن ایسے ہی ہوتا رہا۔ تیمور صرف اندازہ لگا رہا تھا کہ اس شہر کے مالی حالات کیا ہیں۔

جب یقین ہو گیا کہ یہ شہر امیر ہے تو قتل عام اور لوٹ مار کا حکم دیا۔ پورے تین دن اور تین راتیں، اس کا لشکر دہلی کے ہر گھر کو لوٹتا رہا۔ گھر پر حملہ ہوتا تھا۔ انھیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہر قیمتی چیز حاضر کر دو۔ جب زیورات اور دیگر سامان سامنے آ جاتا تھا۔ تو پھر اپنے وعدے کو توڑتے ہوئے تمام مردوں کو قتل کر دیا جاتا تھا۔ بوڑھی خواتین کے پستان کاٹ کر انھیں درد ناک موت کے لیے چھوڑ دیا جاتا تھا۔ جوان لڑکیوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جاتا تھا۔ تاریخ میں درج ہے کہ دہلی اور اس کے اطراف میں امیر تیمور نے نوے ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ خوبصورت ترین عورتیں اس کے حرم میں شامل کردی جاتی تھیں۔

یہ ظالم آدمی، دہلی میں صرف پندرہ دن ٹھہرا۔ مگر دہلی ایسا اجڑا، کہ اگلے ایک سو سال تک دوبارہ خوشحال نہ ہو پایا۔ تاریخ دان بدایونی لکھتا ہے کہ اجڑنے کے دو ماہ بعد تک، دہلی میں اتنا ڈر اور خوف پھیل گیا تھا کہ پرندے تک غائب ہو چکے تھے۔

لاشوں کے تعفن سے فضا میں حد درجہ بدبو ہی بدبو تھی۔ وبا بھی پھوٹ پڑی تھی اور دہلی اگلی ایک صدی کے لیے صرف قبرستان بن چکا تھا۔ جوان لڑکے اور لڑکیوں کو غلام بنا کر پیدل، دہلی سے امیر تیمور کے دارالحکومت کی طرف لے جایا گیا تھا۔ پیروں میں بیڑیاں پہنے ان انسانوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ کثیر تعداد راستے ہی میں تکالیف کی وجہ سے مر گئی تھی۔ باقی لوگوں کو منڈیوں میں فروخت کر دیا گیا تھا۔ دہلی سے لوٹ مار کے سامان کو اٹھانے کے لیے دس ہزار خچر، آٹھ ہزار اونٹ اور ان گنت مال برداری کے جانور استعمال کیے گئے تھے۔ خود اندازہ لگا لیجیے کہ برصغیر اور خصوصا دہلی کو کس بے دردی سے لوٹا گیا تھا۔ تیمور لنگ کو اس کے مظالم کی بدولت"موت کا شہزادہ" کہا جاتاتھا۔

طالب علم کی حیثیت سے ان تمام ظالم بادشاہوں کو شدید ناپسند کرتا ہوں، جنھوں نے انسانوں پر ظلم ڈھائے۔ قتل عام کیا اور اپنے جبر کے سہارے لوگوں کو لوٹتے رہے۔ تیمور لنگ انھیں ناپسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہے۔ مسلمان ہونے کے باوجود، یہ ظالم شخص اسلام کے آفاقی پیغام، رحم، عدل اور انصاف کو کبھی خاطر میں نہ لایا۔ لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے کے بجائے وہ صرف علاقے فتح کرتا رہا۔ بہر حال آج خاکسار کو یہ سب کچھ لکھنا پڑا۔ مقصد آپ کو آٹھ نو صدیاں پہلے کے ڈاکو اور قاتلوں کی تاریخ بتانا نہیں۔ مقصد بالکل متضاد ہے۔

ہمارے وزیراعظم حال ہی میں ازبکستان کاانتہائی کامیاب دورہ کر کے واپس تشریف لائے ہیں۔ وزیراعظم دورہ کے آخری حصہ میں امام بخاریؒ کے مزار پر بھی تشریف لے گئے۔ جو کہ تاریخ اسلام کے ایک جگمگاتے ہوئے ستارے تھے اور ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہی امیر تیمور کے مزار پر بھی گئے ہیں۔

یہ ان کی ذاتی صوابدید ہے کہ بیرون ملک کس جگہ جاتے ہیں یا کس جگہ پر نہیں جاتے۔ یہ از حد اہم ہے کہ ہمارے سربراہ مملکت کو تاریخی طور پر فہم ہو کہ برصغیر کے حوالے سے کون سی اہم جگہ شجر ممنوعہ ہے۔ ہندوستان کی مقامی تاریخ کے تناظرمیں امیر تیمور کسی طور پر ایک پسندیدہ کردار کے طور پر سامنے نہیں آتا۔ ہمارے مقامی سفیر اور دفتر خارجہ کے افسروں کو یہ حقیقت، محترم عمران خان کے سامنے سرکاری دورے سے پہلے یا اس کے دوران رکھنی چاہیے تھی۔ اگر اس ادراک کے بعد بھی وزیراعظم وہاں جانے کی ضد کرتے، تو یہ ان کا سرکاری اختیار ہے مگر طالب علم کو ایسے لگتا ہے کہ وزیراعظم کو تیمور لنگ کے بارے میں غیر متعصب معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ازبکستان جانے سے پہلے، وزیراعظم نے تاریخ پر نظر نہ ڈالی ہو۔ علم نہیں ہے کہ خان صاحب کو پڑھنے کا کتنا شوق ہے۔ کہتے تو وہ یہی ہیں کہ بہت کتابیں پڑھتے ہیں۔ تو پھر تیمور لنگ کے مظالم کے متعلق انھیں علم ہونا چاہیے تھا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ دنیا کا کوئی بھی صدر اور وزیراعظم جرمنی جائے اور وہاں ساٹھ لاکھ یہودیوں کو قتل کرنے والے کسی نازی لیڈر کی سمادھی پر چلا جائے۔ لازم ہے، اس سے کوئی معقول تاثر نہیں ابھرے گا۔ علم نہیں ہے کہ عمران خان کے اردگردکتنے صاحب علم افراد موجود ہیں۔

خان صاحب کا تاریخی فہم کس مطالعہ سے کشید کیا ہوا ہے۔ انھیں تاریخ کا دقیق علم ہے بھی کہ نہیں! کم از کم خاکسار اس معاملے میں کچھ عرض کرنے سے قاصر ہے۔ مگر "موت کے شہزادے" کے مزار پر نہ جانا، جانے سے بہت بہتر تھا۔ بہر حال عمران خان ایک" دیو مالائی "وزیراعظم ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ امیر تمیور یا اس کی سوچ کو پسند کرتے ہوں؟ کیا کہا جا سکتا ہے۔ خاموشی ہی بہتر ہے!