پاکستان کے خلاف چار دنوں تک جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود بھارت ایک بھی ایسا ہدف حاصل نہیں کرپایا جو اس کی "فتح" کا یقین دلائے۔ بہاولپور، مرید کے اور مظفر آباد میں چند مساجد ومدارس کو "دہشت گردوں کی تربیت گاہیں" ٹھہراکر دورمار میزائلوں سے زمین بوس کردینا "دہشت گردی" ختم نہیں کرسکتا۔ "دہشت گردی" کی تمنا بنیادی طورپر انسانی دل ودماغ میں مچلتی ہے۔ وہ دیگر جذبات پر حاوی ہوجائے تو انٹرنیٹ کے موجودہ دور میں تخریب کاری کے منصوبے بنانے کے لئے کسی "اکیڈمی" میں جانے کی ضرورت نہیں۔
"القاعدہ" کے خاتمے کے بعد "داعش" کا عروج فقط انٹرنیٹ پر قائم ہوئے گروپوں کی بدولت ہوا۔ اس میں شمولیت کے لئے یورپ اور امریکہ سے بھی کئی نوجوان اور بہت سی خواتین عام زندگی میں قانون پسند اور متحمل مزاج نظر آنے کے باوجود کسی نہ کسی طرح شام وعراق پہنچ کر "خلافت اسلامیہ" کے جان ہتھیلی پر رکھے کارندے بن گئے۔ دنیا کی طاقتورانٹیلی جنس ایجنسیاں ان کا سراغ لگانے میں عموماََ ناکام رہتی ہیں اور ان کی پھیلائی دہشت حیران کردیتی ہے۔
نارمل زندگی گزارنے والا فرد "دہشت گرد" کیوں بن جاتا ہے؟ اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے گزشتہ 5دہائیوں سے مسلسل تحقیق ہورہی ہے۔ کلیدی سبب تمام محققین کی دانست میں خود کو بے بس والاچار محسوس کرنے کا کرب ہے جو غیر منصفانہ نظام کے خلاف بغاوت کو اُکساتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے انتہا پسندوں کا اختیار کردہ تعصب بھی عمل کاردعمل پیدا کرتا ہے جو نیوٹن کی نظر میں مساوی قوت کے حامل ہوتے ہیں۔ ناانصافی کے خلاف جائز وناجائز وجوہات کی بنا پر ابھرے جذبات پر قابو پانا فوج کے بس سے باہر ہے۔
فوج دہشت گردی کو شکست دے سکتی تو دنیا کی طاقتور ترین فوج اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس امریکہ کو 21برس تک افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ذلت آمیز انداز میں وطن لوٹنا نہ پڑتا۔ میں یہ کالم مگر دہشت گردی کے موضوع پر تحقیقی مضمون کی صورت لکھنا نہیں چاہتا۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوئے صحافی کو ان دنوں بھارت کا وزیر اعظم روزانہ کی بنیاد پر اشتعال دلائے چلاجارہا ہے۔
مودی نے سیاست کا آغاز آر ایس ایس کے پرچارک کے طورپر کیا تھا۔ "تبلیغی مشن" سے تھک گیا تو اپنے خیالات کو عملی شکل دینے کے لئے سیاست میں آیا۔ گجرات کی وزارت اعلیٰ سے شروع ہوکر اب آبادی کے اعتبار سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتے ملک کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوا ہے۔ عوام کے ووٹوں سے تیسری بار منتخب ہوجانے کے بعد سیاستدان فراخ دل ہوجاتا ہے۔ دنیا اس کے تجربات سے کچھ سیکھنے کو بے چین رہتی ہے۔ مودی مگر اس تناظر میں حیران کن استثناء ثابت ہورہا ہے۔ پاکستان کے خلاف فقط چار دن تک جنگ لڑنے کے بعد وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہونے کے بعد کھوکھلی تقاریرسے اپنا اور اپنے کٹرحامیوں کے جی بہلارہا ہے۔
مودی سرکار ابھی تک اس سوال کا واضح جواب نہیں دے پائی کہ 6اور 7مئی کی رات جو جنگ اس نے پاکستان پر مسلط کی اس کے نتیجے میں چند مساجد ومدارس کی تباہی کے سوا کیا حاصل کیا۔ بھارت کا یہ دعویٰ ہے کہ اس نے ہمارے کئی جنگی اڈوں کو دور مار میزائلوں سے تباہ وبرباد کردیا ہے۔ ہماری ایئرفورس کے اہم تین مراکز بھی اس کی زد میں رہے۔ اس ضمن میں اپنی "کامرانی" دنیا کو دکھانے کے لئے مگر اس کے پاس آج کے ڈیجیٹل دور میں کچھ بھی موجود نہیں۔
مودی کے برعکس دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ایک ملک بھی ہے۔ نام ہے اس کا امریکہ۔ اس کے خلائوں میں بھیجے سیارے زمین کے ہر خطے پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ 6مئی کی رات سے دس مئی کی سہ پہر تک جاری رہی پاک-بھارت جنگ کے دوران بھی اس کے سیارے جنوبی ایشیاء پر معلومات کے حصول کی خاطر منڈلاتے رہے ہوں گے۔ یہ حقیقت تسلیم کرلینے کے بعد امریکی صدر کا یہ دعویٰ درست سنائی دیتا ہے کہ بھارتی جارحیت جنوبی ایشیاء کو ایٹمی جنگ کی جانب دھکیل رہی تھی۔ اسے ٹالنے کے لئے امریکی صدر اور اس کے قریب ترین معاونین نو مئی کو رات بھر جاگتے رہے اور بالآخر دونوں ملکوں سے مسلسل رابطے کے بعد انہیں جنگ بندی کو رضا مند کیا۔
مودی سرکار مگر نہایت ڈھٹائی سے ٹرمپ کے اس دعوے کوجھٹلارہی ہے۔ بضد ہے کہ جنگ کا آغاز ہوتے ہی اس نے پاکستان کو اتنا سخت نقصان پہنچایا کہ وہ "سفید جھنڈا" لہرانے کو مجبور ہوگیا۔ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کو "گائوماتا" سے کٹا حصہ شمار کرنے والی مودی سرکار اگر اس ملک کو کامل شکست دینے کے قریب پہنچ چکی تھی تو جنگ بندی کو رضا مند کیوں ہوئی۔ یہ سوال میں بطور پاکستانی نہیں اٹھارہا۔
بھارت میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بھی یہ سوال اٹھارہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت میں بچے کھچے چند "آزاد" صحافی اور تبصرہ نگار اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ مذکورہ سوال کا سادہ لفظوں میں جواب فراہم کرنے کے بجائے مودی نے بھارت کے پاکستان کی سرحد کے قریب واقع شہروں میں جاکر "فتح کے شادیانے" بجانے شروع کردئے ہیں۔ اس کی تقریر کا ایک ایک لفظ ادا کرتے ہوئے نمایاں ہوئی بدن بولی واضح طورپر یہ پیغام دیتی ہے کہ مودی اپنے کٹرحامیوں کو بھی یقین دلانے میں ناکام ہورہا ہے کہ اس کی چھیڑی جنگ کے نتیجے میں پاکستان چار دنوں ہی میں اگر جنگ نہیں تو کم از کم جی ہارگیا تھا۔ اس کا سودابک نہیں رہا۔
عالمی میڈیا میں دریں اثناء بھارت کے بہت چائو سے خریدے رافیل طیاروں کی تباہی کے تذکرے ہورہے ہیں۔ چین کی دفاعی صلاحیت یورپ سے کہیں زیادہ مؤثر محسوس ہورہی ہے۔ دنیا کو یہ پیغام دینے کے لئے کہ پاکستان اپنے دفاع میں بھرپور انداز میں کامیاب ہوا ہے حکومت نے آرمی چیف کو فیلڈ مارشل کا اعزاز بخشا۔ بھارت کے آرمی چیف کو ایسی ستائش نصیب نہیں ہوئی۔ بھارتی عوام کو اپنی "فتح" کی بابت گھڑی داستان سے قائل کرنے میں ناکامی کے بعد مودی بوکھلا گیا ہے۔ پیر کے روز اپنے آبائی شہر گجرات میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس نے جو تقریر کی وہ گلی کے غنڈوں کے رویے کا مظہر تھی۔
مودی اگر پاکستان کو "شکست" دے چکا ہوتا تو پاکستان کے عوام اور "خصوصاََ نوجوانوں" کو اس امر پر اُکسانے میں اپنے پھیپھڑوں پر بوجھ نہ ڈالتا کہ وہ "دہشت گردی کی سرپرستی" کرنے والی پاک فوج کے خلاف "اٹھ کھڑے ہوں"۔ کسی ملک کے عوام کو اپنی ریاست کے خلاف بغاوت کی ترغیب دینے کے لئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ جی موہ لینے والے دلائل پیش کئے جاتے ہیں۔ مودی نے ابلاغ کی سائنس میں لیکن ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے۔
پاکستانی نوجوانوں کو متنبہ کیا کہ اگر وہ اپنی ریاست وحکومت سے نجات حاصل نہیں کرسکتے تو اس کی گولی کھانے کے لئے تیار ہوجائیں۔ ہمارے سروں پر گویا بندوق تان کر "بغاوت" کو اُکسایا گیا ہے۔ تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کو ایک بھی ایسا واقعہ یاد نہیں جب کسی قوم نے دوسرے ملک کے حکم پر اپنی حکومت وریاست کے خلاف "بغاوت" کی ہو۔