عالمی سیاست کا ادنیٰ شاہد ہوتے ہوئے میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا کہ یہ "مذاق" کب تک چلے گا۔ "مذاق" کا لفظ کچھ سوچ کر لکھا ہے۔ دو ملکوں میں "ایٹمی جنگ" کے امکان معمول کی بات نہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت ہی نہیں جنوبی اور وسطی ایشیاء کے وسیع تر علاقے بھی متاثر ہوسکتے تھے۔ قحط سالی سے بچت تو شاید کسی بھی ملک کے لئے ممکن ہی نہ رہتی۔
مذکورہ بالا تناظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے یاد کریں کہ دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتا ایک ملک ہے۔ نام ہے اس کا امریکہ۔ اس کے پاس دنیا کے ہر ملک پر نگاہ رکھنے کا جدید ترین نظام موجود ہے۔ جنگی اعتبار سے کسی بھی ملک کی فوج کی نقل وحرکت اس کے خلائوں میں اڑائے جاسوسی نظام کی نگاہ میں رہتی ہے۔ ان دنوں اس ملک کے صدر کا نام ہے ڈونلڈٹرمپ۔ انتہائی متنازعہ شخصیت کا حامل ہونے کے باوجود وہ دوسری بار امریکہ کا صدر منتخب ہوا ہے۔ اس کے اقتدار کو ابھی چھ ماہ بھی نہیں گزرے ہیں۔ آنے والے تین برسوں تک دنیا کو اسی سے گزارہ کرنا ہوگا۔
اپنے سابقہ دور اقتدار میں ٹرمپ نے بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ گہرے تعلقات استوار کئے۔ ہمیں جھانسہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے "ثالث" کا کردار ادا کرنا چاہ رہا ہے۔ یہ "اطلاع" دینے کے باوجود اس نے مذکورہ ثالثی کے لئے ایک قدم بھی نہ بڑھایا۔ بھارت نے اس کے دور اقتدار میں بلکہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی (خودمختار) حیثیت ختم کرتے ہوئے کئی مہینوں تک اسے دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کئے رکھا۔ مودی کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے خلاف اٹھائے جارحانہ اقدامات کے خلاف ٹرمپ نے ایک لفظ بھی ادا نہیں کیا۔ ہم بھی اس سے ہمدردی کے دو لفظوں کا تقاضہ کئے بغیر ٹرمپ کے افغانستان کے لئے خصوصی سفیر تعینات کئے زلمے خلیل زاد کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مدد کرتے رہے۔
امریکہ کو افغان دلدل سے نکالنے میں مدد فراہم کرنے کے باوجود ہم نے اس کے عوض اقتصادی تعاون کے تناظر میں دنیا کی واحد سپرطاقت سے کچھ حاصل نہیں کیا۔ ہمیں افغانستان کے حوالے سے کچھ فرائض سونپ کرٹرمپ مودی کے بھارت کو چین کے برابر کی قوت بنانے میں ہر نوع کا تعاون مہیا کرنے کو بے چین رہا۔ ٹرمپ اور مودی نے ایک دوسرے کی سیاسی مدد کے لئے امریکہ اور بھارت میں ہوئے عوامی اجتماعات سے خطاب بھی کیا۔
ٹرمپ کے سابقہ دور اقتدار میں امریکہ اور بھارت کے مابین جو خصوصی تعلقات قائم ہوئے تھے وہ 2024ء میں امریکی صدارتی انتخاب ہوجانے کے بعد مزید گہرائی کی جانب بڑھتے نظر آرہے تھے۔ امریکی صدر نے کٹربھارت نواز شخصیات کی ایک معقول تعداد کو اہم ترین عہدوں پر تعینات کرنے کے بعد اس خیال کو مزید تقویت پہنچائی کہ ٹرمپ کے دوسرے دورِ اقتدار کے دوران بھارت-امریکہ تعلقات باہمی دوستی کی انتہاؤں کو چھونے لگیں گے۔
اپریل کی 22 تاریخ کو مگر مقبوضہ کشمیر کی پہلگام وادی میں ایک ہولناک واقعہ ہوگیا۔ 26 سیاح بے دردی سے موت کے گھاٹ اتاردئے گئے۔ پاکستان کی جانب سے مذکورہ دہشت گردی کی شدید ترین مذمت کے باوجود بھارت نے اس واقعہ کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرانے کے بعد ہم سے بدلہ لینے کی تیاری شروع کردی۔ بالآخر 6 اور 7 مئی کی درمیانی رات ہمارے 3 شہروں کو میزائلوں کی زد میں لے کر چند مساجد ومدارس کو "دہشت گردی کی تربیت گاہیں" ٹھہراتے ہوئے زمین بوس کردیا گیا۔
ہماری فضاؤں میں ہوئی میزائل جارحیت کے بعد پاکستان کی جانب سے جوابی وار کئے بغیر ہم اپنی آزادی وخودمختاری یقینی نہیں بناسکتے تھے۔ جوابی حملے ہوئے تو امریکہ متحرک ہوگیا۔ اس کے نائب صدر اور وزیر خارجہ اپنے صدر کے حکم پر پاکستان اور بھارت کے عسکری حکام سے ٹیلی فون رابطوں میں مصروف ہوگئے۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین جاری جھڑپوں کے دوران وہ 9مئی کی رات سونہیں پایا۔ اسے خدشہ لارہا کہ دونوں ملک تیزی سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
بالآخر پاکستانی وقت کے مطابق 10مئی کی سہ پہر پاکستان اور بھارت کے بجائے اس نے ٹویٹ پر لکھے ایک پیغام کے ذریعے دنیا کو آگاہ کیا کہ دونوں ملک جنگ بندی کو رضا مند ہوگئے ہیں۔ بھارت جنگ بندی کو راضی تو ہوا مگر مسلسل یہ دعویٰ کررہا ہے کہ پاک-بھارت جنگ بندی یقینی بنانے میں "کسی تیسری قوت" نے کوئی کردار ادا نہیں کیا ہے۔ آخری مرتبہ یہ دعویٰ بھارتی وزارت خارجہ کے سیکرٹری وکرم مسری نے پیر کے روز اپنی پارلیمان کے وفود کو بریفنگ دیتے ہوئے دہرایا ہے۔
ٹرمپ بھی لیکن اپنے دعویٰ پر ڈٹا ہوا ہے۔ بدھ کے روز اس سے ملنے جنوبی افریقہ کا صدر واشنگٹن آیا۔ اس تناظر میں مزید بڑھنے سے قبل آپ کو یاد رکھنا ہوگا کہ گزشتہ چند دنوں سے امریکہ کے نسل پرست تواتر سے یہ کہانی پھیلارہے ہیں کہ جنوبی افریقہ میں "گوروں کا اجتماعی قتل عام" ہونے کے واقعات ہورہے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی حکومت کو مبینہ واقعات کی سرپرستی کا ذمہ دار بھی ٹھہرایا جارہا ہے۔
جنوبی افریقہ میں "گوروں کے قتل عام" کی کہانی پھیلانے میں ٹرمپ کے قریبی دوست اور مشیر ایلان مسک کا خریدا سوشل میڈیا پلیٹ فارم Xاہم کردار ادا کررہا ہے۔ مسک جنوبی افریقہ کے نسل پرست سفید فام گھرانے میں پیدا ہوا تھا۔ جنوبی افریقہ گوروں کی نسل پرست حکومت کے تسلط سے آزاد ہوا تو اس ملک سے کینیڈا آگیا۔ اس کا ننھیال کینیڈا میں آباد تھا۔ ان سے رشتوں کی بدولت اس نے کینیڈاکی شہریت حاصل کی۔ کینیڈا ہی کے پاسپورٹ پر امریکہ آیا اور اب امریکی شہری بن چکا ہے۔
جنوبی افریقہ کے بارے میں پھیلائی کہانیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ جیسے عالمی امور کے ادنیٰ شاہد یہ طے کئے ہوئے تھے کہ امریکہ اور جنوبی افریقہ کے صدور کے مابین ہوئی ملاقات بنیادی طورپر "گوروں کے قتل عام" کی داستانوں پر توجہ دینے تک محدود رہے گی۔ دونوں رہ نماؤں کی ملاقات کا آغاز ہوتے ہی مگر ٹرمپ کو کیمروں کے روبرو یاد آگیا کہ اس نے "حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے مابین"ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی جانب بڑھتی جنگ رکوائی ہے۔
دنیا کو مگر اس کا احساس نہیں ہورہا۔ مودی کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس نے یقیناََ اپنا یار کہا مگر ساتھ ہی پاکستان کے "لیڈر(نام لئے بغیر)کو بھی" عظیم کہا۔ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت بڑھانے کی خواہش کا اظہار بھی کیا۔ ایٹمی جنگ رکوانے کا دعویٰ ہی نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کا ایک ساتھ ذکر بھارتی قیادت کے لئے انتہائی سبکی کا باعث ہوگا اور وہ اسے برداشت نہیں کر پائے گی۔