Saturday, 14 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Jang Bandi, Trump Ka Dawa Manna Bharat Ki Majboori

    Jang Bandi, Trump Ka Dawa Manna Bharat Ki Majboori

    گزرے ہفتے جمعہ کی صبح کو جو کالم چھپا تو اس میں دعویٰ کیا تھا کہ یہ "مذاق" زیادہ دنوں تک برقرار نہیں رکھا جاسکتا جس کے ذریعے دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کا صدر عالمی میڈیا اور رہ نمائوں کے سامنے فخریہ انداز میں دہراتا رہے کہ اس نے پاکستان اور بھارت کے مابین "ایٹمی جنگ" رکوائی ہے۔ بھارت کا وزیر اعظم امریکی صدر کے مذکورہ دعویٰ کے بارے میں ابھی تک ناراض ہوئی ساس کی طرح خاموش ہے۔ وزیر خارجہ بھی پنجابی محاورے والا "دڑ وٹے" ہوئے ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کا سیکرٹری -وکرم مسری- البتہ صحافیوں اور بھارتی پارلیمان کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کا نام لئے بغیر مصر رہتا ہے کہ "کسی تیسرے" نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بند نہیں کروائی۔ دونوں ملک خود ہی چار روزہ جنگ کے بعد اس کے لئے آمادہ ہوگئے۔

    جنگ بندی ہوجائے تو اس کے بعد متحارب ممالک دائمی امن کے حصول کے لئے مذاکرات کا آغاز کرتے ہیں۔ 1965کی پاک-بھارت جنگ کے بعد یہ مذاکرات "تیسرے ملک" کی مداخلت پر تاشقند میں ہوئے تھے۔ تاشقند ان دنوں خود مختار ازبکستان کا ایک شہر نہیں بلکہ کمیونسٹ بلاک پر مشتمل سوویت ایمپائر کا حصہ تھا۔ 1971کی جنگ کے بعد البتہ جنوبی ایشیاء کے ازلی دشمنوں نے باہمی روابط کی بدولت شملہ میں طویل مذاکرات کے بعد اس شہر سے منسوب معاہدے کا اعلان کیا تھا۔ جو معاہدہ ہوا اس کے تحت پاکستان اور بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ اپنے اختلافات کسی بین الاقوامی فورم کے روبرو نہیں لے جائیں گے۔ "تیسری قوت" کو ان سے الگ رکھا جائے گا۔

    رواں صدی کے آغاز سے دو برس قبل ہی معاملات مگر بگڑنا شروع ہوگئے۔ بھارت نے مئی 1998میں ایٹمی دھماکے کئے تو پاکستان پر امریکہ نے دبائو ڈالنا شروع کردیا کہ وہ جوابی دھماکے نہ کرے۔ اس تناظر میں ان دنوں کا امریکی صدر پاکستان کے وزیر اعظم سے مسلسل رابطے میں رہا۔ نواز شریف نے مگر اس کی درخواست نظرانداز کرتے ہوئے جوابی دھماکوں کا حکم صادر کردیا۔ امریکہ نے برہم ہوکر بھارت اور پاکستان کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردیں۔ امریکہ کی اپنائی لاتعلقی مگر گارگل جنگ کے دوران بالآخر بھارت کے کام آئی۔ کارگل کی پہاڑیوں میں گھیرے میں آئی بھارتی افواج کے لئے واپسی کا راستہ نکالنے کے لئے 4جولائی 1999کے روز امریکی یوم آزادی کی تعطیل کے باوجود صدر کلنٹن نے نواز شریف سے ایک خصوصی اور طویل ملاقات کی۔ اس کے نتیجے میں کارگل سے ابھرابحران ٹل گیا۔

    2019میں ایک بھارتی طیارے کے پاکستان کے زیرنگین علاقوں میں گرجانے کے بعد پاک-بھارت جنگ کی جانب بڑھتے معاملات کو ان دنوں کے امریکی صدر نے ازخود ویت نام میں یہ اعلان کرتے ہوئے ٹالا تھا کہ پاکستان مذکورہ طیارے کے پائلٹ کی رہائی کے لئے تیار ہوگیا ہے۔ "تیسری قوت"کی مداخلت نے لہٰذا 2019میں بھی پاک-بھارت جنگ رکوائی تھی۔ 2025میں ایک بار پھر ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک کے مابین ایک اور جنگ ر کوانے کا دعوے دار ہے۔ بھارت مگر اس کے دعویٰ کو جھٹلارہا ہے۔ اسی باعث میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا کہ یہ "مذاق" زیادہ دنوں تک برقرار کھا نہیں جاسکتا۔

    بھارتی پارلیمان میں موجود جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک وفد ہفتے کی رات واشنگٹن پہنچ گیا ہے۔ ششی تھرور اس وفد کی قیادت کررہے ہیں۔ موصوف نے 22سال کی عمر میں امریکہ کے مشہور زمانہ فلیچر سکول آف لاء اینڈڈپلومیسی سے ڈاکٹریٹ کے حصول کے بعد اقوام متحدہ کی نوکری میں کئی برس گزارے ہیں۔ کیرالہ سے لوک سبھا کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ تعلق ان کا سونیا گاندھی کی کانگریس سے ہے۔ راہول گاندھی مگر اس کی "خودپسندی" کو پسند نہیں کرتا۔

    راہول کی اجازت کے بغیر ششی، نریندرمودی کی دعوت پر بھارتی پارلیمانی وفد کا قائدبن کر واشنگٹن چلاگیا ہے۔ بیرون وطن پرواز سے قبل ششی نے "پروفیسرانہ انگریزی" میں یہ بیان دیا کہ اس کے وفد کے دورے کا مقصد دنیا کو یہ بتانا ہے کہ بھارت 6اور7مئی کی درمیانی رات پاکستان کے خلاف "دہشت گردوں کی سرپرستی" کرنے کی وجہ سے جارحیت کو"مجبور" ہوا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جھگڑے کی بنیادی وجہ "دہشت گردی" ہے۔ یہ بات عالمی دنیا کو سمجھانے وہ اپنے وفدسمیت چار ممالک کے دورے پر روانہ ہورہا ہے۔

    ایک مکار سفارت کار ہوتے ہوئے ششی تھرور نے ان ممالک کا نام لیتے ہوئے جہاں اس کا وفد جارہا ہے سب سے آخر میں امریکہ کا نام لیا جبکہ اس کے وفد کا پہلا پڑائو واشنگٹن ہے۔ اتفاق سے گزشتہ چند دنوں میں خود کو میسر مگر انتہائی بدترتیب ریکارڈ کی چھان پھٹک کے بعد واشنگٹن میں چند ایسے "ذرائع" ڈھونڈنے میں کامیاب ہوا ہوں جو ان دنوں امریکہ کی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی پالیسی مرتب کرنے والے اہم اداروں میں تعینات ہیں او رپاک-بھارت تعلقات پر نگاہ رکھنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

    ان سے رابطے کے بعد میں نہایت اعتماد سے یہ دعویٰ کرسکتا ہوں کہ ششی تھرور واشنگٹن میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران یہ حقیقت تسلیم کرنے کو مجبور ہوجائے گا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے اہم ترین عہدے داروں -وزیر خارجہ مارکوروبیو جو اتفاقاََ ان دنوں صدر ٹرمپ کا مشیر برائے قومی سلامتی بھی ہے اور نائب صدر جے ڈی وینس نے اپنے بھارت اور پاکستان میں تعینات ہم منصبوں کے ساتھ مسلسل رابطوں کے بعد ممکنہ طورپر "ایٹمی جنگ" کی جانب بڑھتی پاک-بھارت جھڑپ رکوائی ہے۔ یہ بات تسلیم کئے بنا ششی تھرور اپنی جانب سے تیار کیا کیس آگے نہیں بڑھاپائے گا۔ تفصیلات میسر ہوئے بغیر لیکن اس ضمن میں مزید کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔

    7مئی کے روز سے پاک-بھارت چپقلش پر لکھتے ہوئے ویسے بھی تھک چکا ہوں۔ پاک-بھارت جنگ کے متوازی (اور میری دانست میں اس کی وجہ سے) ہمارے دیرینہ دوست چین کی پہل سے کابل میں افغانستان، پاکستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات ہوئے ہیں۔ اس کے نتیجے میں چین کی وزارت خارجہ کی جانب سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس میں واضح انداز میں یہ لکھا گیا ہے کہ پاکستان اور چین کے مابین سی پیک کے تحت طے ہوئے منصوبوں کو اب افغانستان تک بھی بڑھایا جائے گا۔ افغانستان بھی گویا اب چینی صدر کے سوچے "ون بیلٹ-ون روڈ" کے عظیم تر منصوبے کا حصہ بن گیا ہے۔

    سوال اٹھتا ہے کہ اگر چین سی پیک کے حوالے سے افغانستان کا سانجھے دار بن گیا تو بھارت کو وسطی ایشیاء کے ممالک تک رسائی میں کیا دِقت پیش آسکتی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے کے لئے وزارت خارجہ سے "آف دی ریکارڈ" بریفنگ درکار ہے اور ہماری وزارت خارجہ نے مجھے ہی نہیں "دو ٹکے کے " سب صحافیوں کو منشی تصور کرتے ہوئے بریفنگ دینا ترک کررکھا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کے بابو صحافیوں کا فریضہ فقط یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ ان کی ہفتہ وار بریفنگ میں ہجوم کے سامنے ادا ہوئے کلمات پر اکتفا کریں اور وزارت خارجہ سے جاری ہوئیں پریس ریلیزوں سے "علم" کشید کریں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.