جنگ جیت کربھی اقتصادی اعتبار سے اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ سالانہ بجٹ کی طرف بڑھتے ہوئے پاکستان ان دنوں مذکورہ بالا حقیقت کا سامنا کررہا ہے۔ سچ کو ملفوف انداز میں بیان کرنے کا عادی ہوا ذہن مگر اس کا ذکر کرنے سے گھبرارہا ہے۔ خدشہ لاحق ہے کہ اس جنگ کی بدولت رونما ہوئے اقتصادی سوالات کا ذکر کرتے ہوئے جو 6 مئی کی رات سے 10مئی کی سہ پہر تک جاری رہی میں پاکستان کی فتح کا جشن مناتے موسم میں مایوسی پھیلاتا محسوس ہوں گا۔
میرا تجزیہ حب الوطنی کے چند خودساختہ محافظین کو مجھے "غدار" ٹھہرانے کو بھی اُکسا سکتا ہے۔ صحافیوں کا بھیس دھارے "غداروں" کی نشاندہی کے لئے اگرچہ حکومت پاکستان پیکا نام کا ایکٹ متعارف کرواچکی ہے۔ وزیر اطلاعات جناب عطا تارڑ صاحب کو جب بھی موقع ملے سخت گیر استاد کی طرح صحافیوں کی محفل میں بھڑک کر یاد دلاتے ہیں کہ مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافیوں کو پیکا ایکٹ سے گھبرانا نہیں چاہیے۔
حال ہی میں وزیر اعظم جناب شہباز شریف صاحب نے وطن عزیز کے نامور صحافیوں کو حالیہ پاک-بھارت جنگ کی اہم تفصیلات سے آگاہ کرنے کے لئے مدعو کیا تھا۔ میں دو ٹکے کا صحافی ایسی بریفنگ کے لئے نااہل اور بے اثرہونے کے سبب مدعو کیا نہیں جاتا۔ ذمہ دار ذرائع نے تاہم مجھ دو ٹکے کے رپورٹر تک یہ اطلاع پہنچائی کہ وزیر اعظم صاحب نے پرخلوص کھلے دل سے پاک-بھارت جنگ کے دوران صحافیوں کی حب الوطنی کے علاوہ ان کے بیانیہ ساز ہنر کو بھی سراہا۔
وزیر اعظم کی ستائش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے ایک مشہور، مقبول اور ذہن ساز اینکرنے تھوڑی ہمت سے کام لے کر وزیر اعظم کی خدمت میں عرض گزارنے کی کوشش کی کہ 6 مئی سے 10مئی کے دوران چھڑی جنگ کے دوران پاکستانی صحافیوں کی وطن کیساتھ محبت کو آزمالینے کے بعد حکومت کو پیکا ایکٹ ختم کرنے کی بابت سوچنا چاہیے۔ اس سے قبل کہ وزیر اعظم صاحب جواب دیتے تارڑ صاحب نے یہ کہتے ہوئے گل مکا دی کہ پیکا ایکٹ محض ان افراد کے لئے تشکیل دیا گیا ہے جو سوشل میڈیا پر واہی تباہی بکتے ہیں۔ پیمرا کے لائسنس اور ڈی سی کے جاری کئے ڈیکلریشن کے تحت چلائے ٹی وی چینلوں اور اخباروں کے لئے کام کرنے والوں کو اس قانون سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔
تارڑ صاحب سے منسوب فقرہ سن کر میں مطمئن ہوگیا۔ "نوائے وقت" کے لئے یہ کالم لکھتا ہوں۔ دو قومی نظریہ کے دفاع کے لئے یہ اخبار صف اوّل میں شمار ہوتا ہے۔ "نوکر" ہونے کے باوجود لہٰذا "نخرہ" کرنے سے نہیں گھبرایا۔ التجا کررہا ہوں کہ بھارت کے ساتھ حالیہ جنگ جیتنے کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوجائیں۔
اولاََ حکومت آئندہ مالی سال کا بجٹ جون کی دوسری تاریخ کو پیش کرنا چاہ رہی تھی۔ معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے بعد شہباز حکومت نے تاہم اقتدار سنبھالتے ہی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کررکھا ہے۔ جو معاہدہ ہوا اس کی بدولت پاکستان کو دنیا کے حتمی ساہوکار یعنی آئی ایم ایف سے قسطوں میں 7ارب ڈالر ملیں گے۔ آخری قسط پاک-بھارت جنگ کے دوران 9مئی کو منظور ہوئی۔ بھارت اس کی منظوری سے انتہائی ناخوش ہے۔ گودی میڈیا کے ذریعے الزام لگائے چلے جارہا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان کو "دہشت گردی" پھیلانے کے لئے یہ قسط ادا کی ہے۔
یہ الزام لگاتے ہوئے کسی بھارتی نے ہمیں یہ بتانے کی زحمت نہ اٹھائی کہ آئی ایم ایف کی اداکردہ رقم کیسے خرچ ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کی ترجمان کو ایک پریس کانفرنس کے دوران آئی ایم ایف سے ادا ہوئی رقوم کے استعمال کی بابت ایک لیکچر نما جواب دینا پڑا۔ آئی ایم ایف کسی بھی ملک کے ذخائر زرمبالہ کو مستحکم رکھنے اور دکھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے تاکہ ہم جیسے ملکوں کو جو ابھی خود کفیل نہیں ہوئے اپنی "ساکھ" کی بنیاد پر خود کفالت کی خاطر تشکیل دئیے منصوبوں کے لئے دیگر ملکوں اور اداروں سے قرض لینے میں آسانی ہو۔ آئی ایم ایف کی ادا کردہ رقوم کی ایک پائی بھی مثال کے طورپر اس بلندوبالا مسجد ومدرسے کی تعمیر میں خرچ نہیں ہوئی جسے بھارت نے 6اور 7مئی کی درمیانی رات میزائل بھیج کر زمین بوس کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس مسجد سے منسلک عملے کے چند افراد سے زیادہ ان کے اہل خانہ ہی جن کی زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی شہید ہوئے تھے۔
بہرحال ابتدا ہی میں اٹھائے موضوع کی جانب لوٹتے ہیں۔ 2جون کو حکومت بجٹ پیش نہیں کر پائے گی کیونکہ آئی ایم ایف سے آیا وفد اس کے کلیدی نکات سے مطمئن نہیں۔ یہ بات حقیقت ہے کہ ایف بی آر ٹیکسوں کے وہ اہداف حاصل نہیں کرپایا جن کا وعدہ آئی ایم ایف سے ہوا تھا۔ پاک-بھارت تعلقات جنگی حالات میں داخل نہ ہوئے ہوتے تب بھی یہ حقیقت ہمارے لئے فکرمندی کا باعث تھی۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہ کرسکنے کے سبب ایف بی آر کی احمقانہ نااہلی کا بوجھ سب سے زیادہ میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار اٹھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں کا تنخواہ دار طبقہ دنیا کے ان ممالک میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے جہاں خالصتاََ ذہنی صلاحیتوں کی بدولت سیٹھوں سے اپنے ذہنی جثے کے مطابق تنخواہ حاصل کرنا جرم شمار ہوتا ہے جس سے حکومت اپنا حصہ جگاٹیکس کی صورت وصول کرتی ہے۔
نیک اور نرم دل شہباز شریف بارہا اعتراف کرچکے ہیں کہ تنخواہ دار طبقے کے ساتھ وطن عزیز میں زیادتی ہورہی ہے۔ ان کے بارہا دہرائے اعتراف کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھے قوی امید تھی کہ آئندہ بجٹ تنخواہ داروں کے لئے بھاری بھر کم نہ سہی تھوڑی آسانیاں پیدا کرے گا۔ جائیداد کی خرید وفروخت میرا دھندا نہیں مگر گزشتہ بے شمار دہائیوں سے یہ شعبہ پاکستانی معیشت میں رونق لگائے ہوئے تھا۔ غالباََ جائز بنیادوں پر ماہرین معیشت مجھ جیسے اَن پڑھ کو یہ سمجھاتے ہیں کہ زمین کے ٹکڑوں کی فائلوں کی ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ منتقلی پائیدار معاشی رونق نہیں لگاتی۔
بسا اوقات پراپرٹی کی خریدوفروخت حکومت سے حقیقی آمدنی چھپانے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے۔ الزام یہ بھی تھا کہ چند "دہشت گرد" تنظیموں نے جائیداد کے دھندے کو اپنے عزائم کے حصول کے لئے بھی استعمال کیا۔ اسی باعث عمران حکومت کی دل وجان سے ویری ہونے کی دعوے دار جماعتوں مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلوانے کے لئے بارہ سے زیادہ قوانین پر غلاموں کی طرح انگوٹھے لگائے تھے اور انہیں ریکارڈ عجلت میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظورکیا تھا۔
یہ سب کرنے کے باوجود گزشتہ سال کا بجٹ پیش ہوا تو اس کے نتیجے میں پراپرٹی کا دھندا تقریباََ ٹھپ ہوگیا۔ بے تحاشہ ضرورت مند جنہوں نے زندگی بھر کی بچت سے پانچ سے دس مرلے کے پلاٹ لئے تھے ان دنوں اشد ضروریات پوری کرنے کے لئے بھی ان پلاٹوں کو اس قیمت پر بھی بیچ نہیں پارہے جس پر انہیں خریدا گیا تھا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت کے نہایت قریب تصور ہوتے کاروباری دنیا کے چند کامیاب ترین کھلاڑی جائیداد کے دھندے میں تھوڑی رونق بحال کرنے کی قابل عمل تجاویز سوچ چکے ہیں۔ حکومت آئندہ سال کے بجٹ میں جو عیدالاضحی کے بعد 10جون کو پیش ہوگا ان تجاویز میں سے چند پر عمل کرنے کو رضا مند تھی۔
آئی ایم ایف میری اطلاع کے مطابق مگر ابھی تک نہ تو اس امر پر رضا مند ہوا ہے کہ تنخواہ داروں کو تھوڑی راحت فراہم کی جائے۔ نہ ہی وہ جائیداد کی خرید وفروخت والے دھندے میں نئی روح ڈالنے کو آمادہ ہے۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ عالمی معیشت کا حتمی نگہبان ادارہ (میری دانست میں جائز بنیادوں پر) اصرار کئے جارہا ہے کہ ٹیکس کی صورت ہم اپنے ایف بی آر کی بدولت وہ رقوم جمع کرنے میں ناکام رہے ہیں جن کا وعدہ آئی ایم ایف کے ساتھ گزشتہ بجٹ تیار کرتے ہوئے ہوا تھا۔
وعدے کے مطابق رقوم جمع کرنے میں ناکام رہنے کے باوجود مگر ہم واضح بنیادوں پر مجبور ہیں کہ بھارت کے ساتھ حال ہی میں ہوئی جنگ جیتنے کے بعد بھی اپنے دفاعی بجٹ میں کم ازکم 18فی صد اضافے سے ممکنہ طورپر ایک اور رائونڈ کے لئے تیار ہوں۔ ہماری بقاء ٹھوس رقوم کا تقاضہ بھی کرتی ہے۔ ہماری حکومت مگرابھی تک ان شعبوں اور افراد کی قابل تشفی انداز میں نشاندہی تک نہیں کر پائی ہے جن کے لئے مزید ٹیکس ادا کرنا کامل امن کے حالات میں بھی پاکستان کو خوش حال بنانے کے لئے لازمی ہے۔