Tuesday, 03 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Aazri Ehsaan Faramosh Nahi

    Aazri Ehsaan Faramosh Nahi

    آذربائیجان کی ترقی، خوش حالی اور کامرانیوں کی خبریں پڑھتاہوں تو بہت کچھ یاد آجاتا ہے۔ ہمارے قصے کہانیوں میں کوہ قاف کہلاتے پراسرار پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ ملک ہر اعتبار سے بہت خوب صورت ہے۔ وہاں جانے کا اتفاق پہلی بار 1994ء کے موسم سرما میں ہوا۔ ان دنوں فوجی اعتبار سے اس ملک سے طاقتور آرمینیا نے آذربائیجان کے سرحدی علاقے ناگورنوقرہ باغ پر حملہ کرکے نسلوں سے آباد آذری آبادی کو وہاں سے نکال دیا تھا۔ بے گھر ہوئے مہاجرین کے لئے جوبستیاں آباد کرنے کی کوشش ہوئی وہ ہر نوع کی بنیادی سہولتوں سے محروم تھیں۔

    آذربائیجان ان دنوں چند ہی سال قبل کمیونسٹ روس کے تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ سرمایہ دارانہ منڈی میں اس جنس کی ڈالروں میں قیمت وصول کرنے کے قابل نہیں تھا۔ پاکستان نے نسبتاََ غریب ملک ہونے کے باوجود آرمینیا سے بے دخل ہوئے مہاجرین کے لئے خیمے، بستر اور گرم کپڑے بھجوانے کا فیصلہ کیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں۔ سردار آصف احمد علی ان کے وزیر خارجہ تھے۔ ان دونوں کا اصرار تھا کہ پاکستان اور آذربائیجان آنے والے دنوں میں ایک دوسرے کے انتہائی قریبی دوست ہوسکتے ہیں۔ ممکنہ دوستی کو یقینی بنانے کے لئے مشکل کی گھڑی میں آذربائیجان کا ساتھ دینا ضروری ہے۔

    فوجی سازوسامان لادنے والے فوجی طیارے آذربائیجان کی مہاجر بستیوں میں بنیادی ضرورت کی اشیاء پہنچانے کے لئے مختص ہوئے۔ سردار آصف احمد علی پہلی کھیپ پہنچانے کے ذمہ دار بنائے گئے۔ محترمہ نے بطور وزیر اعظم ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے ہمراہ چند پاکستانی صحافی بھی لے جاسکتے ہیں اور انہیں وہاں کے دورے کے دوران قائل کرنے کی کوشش کریں کہ آذربائیجان کے ساتھ برادرانہ تعلقات کا قیام پاکستان کے دوررس مفادات کے تناظر میں کتنا اہم ہے۔

    سردار صاحب بنیادی طورپر سیاست دان نہیں پروفیسرانہ شخصیت کے حامل تھے۔ لمبے بالوں اور سفید داڑھی کی وجہ سے صوفیانہ شاعر نظر آتے۔ مصوری کا بھی شوق تھا۔ میرے ساتھ اکثر ان کے فلسفیانہ مکالمے ہوتے۔ ایسے ہی رشتے ان کے ہماری مرحوم دوست اور بہترین انگریزی لکھنے والی انجم نیاز کے ساتھ بھی تھے۔ خاموش طبع مگر ثقافتی امور کے دلدادہ محمد یٰسین مرحوم بھی سردار صاحب کے چاہنے والوں میں شامل تھے۔ سردار صاحب نے ہم تینوں کو کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔ وزیر اعظم کی خواہش ہم تک پہنچائی۔

    دیانتداری کی بات ہے کہ مجھ جاہل کو اس دعوت سے قبل ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ آذربائیجان تاریخی اعتبار سے کتنا اہم ملک ہے۔ سردار صاحب کی بدولت ہی پہلی بار یہ علم ہوا کہ ایران کے صفوی حکمران اس ملک سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی آج کے زمانے میں کمانڈو یا ہراول دستے کہلاتے فوج کے افراد "قزل باش" کہلاتے تھے۔ لاہور سے تعلق کی وجہ سے میں اس نام سے بخوبی واقف تھا۔ اس کی تاریخ سے اگرچہ قطعاََ لاعلم۔ سردار صاحب نے آذربائیجان کا تاریخی وثقافتی پس منظر سادہ زبان میں دئے ایک لیکچر کی صورت بیان کیا تو ہم تینوں ان کے ہمراہ جانے کو تیار ہوگئے۔

    ہماری روانگی کے روز موسم مگر بہت بے رحم تھا۔ کئی گھنٹے انتظار کے بعد اڑان کی اجازت ملی تب بھی ہم باکو ایئرپورٹ پر لینڈ نہ کرسکے۔ موسم بہتر ہونے تک رات آذربائیجان کے ہمسائے میں واقع ترکمانستان کے شہر اشک آباد میں گزارنا پڑی۔ اشک آباد کو اس کی ایک شام کے ذکر سے فیض احمد فیض نے اردو ادب کا حصہ بنادیا ہے۔ باکو اُترنے میں دوسری صبح بھی کافی دِقت کا سامنا کرنا پڑا۔ بعدازاں یہ علم ہوا کہ "باکو" درحقیقت "بادِ کوہ" کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ "پہاڑوں سے آئی تیز ہوا کی زد میں قائم ہوا شہر" اس کا لغوی معنی ہوسکتا ہے۔

    باکو اُترتے ہی آذربائیجان کے وزیر خارجہ نے اپنی حکومت کے اعلیٰ سطحی افراد کے ساتھ ہمارا گرم جوش استقبال کیا۔ وہاں کے ہوٹل اس برس تک کمیونسٹ نظام کی وجہ سے سرکاری ملکیت میں تھے۔ وہاں کے سب سے "مہنگا" تصور ہوئے ہوٹل میں ہمارے کمرے بک تھے۔ میں اپنے لئے مختص کمرے میں داخل ہوا تو بہت مایوسی ہوئی۔ وہاں بستر کے بجائے لکڑی سے بنایا ایک تختہ تھا جسے دیکھ کر پاکستان ریلوے کے دوسرے درجے کے ڈبوں میں سونے کے لئے بنائی نشستیں یاد آگئیں۔ باتھ روم میں ناگوار خوشبو سانس لینے میں دشواری پیدا کرتی۔ اس کے باوجود کمرے سے باہر نکلتے ہی ہوٹل کے عملے یا سڑک پر گھومتے ہوئے عام افراد ہمیں دیکھتے ہی پرخلوص مسکراہٹ سے خوش آمدیدی کلمات کے ساتھ خیرمقدم کرتے۔ پاکستان ان کی دانست میں آذربائیجان کا "عزیز از جان"دوست تھا جو آرمینیا کی جارحیت کے خلاف آذری مزاحمت کا ڈٹ کرساتھ دے رہا تھا۔

    سردار صاحب کے ساتھ ہوئے سفر کے دو سال بعد میں دوبارہ آذربائیجان صدر پاکستان فاروق لغاری کے ہمراہ گئے صحافتی وفد کے ساتھ گیا تھا۔ اس بار بھی اسی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا جہاں سردار صاحب کے ساتھ ہوئے سفر کے دوران قیام پذیر ہوا تھا۔ اپنے لئے مختص کمرے میں داخل ہوتے ہی مگر احساس ہوا کہ میں پیرس یا نیویارک کے کسی پنج ستاری ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوگیا ہوں۔

    فوراََ دریافت کرلیا کہ آذربائیجان نہایت تیزی سے اپنے تیل کی عالمی منڈی سے اچھی قیمت وصول کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ ہوٹل کے علاوہ سڑکوں پر کھانے پینے کی ایسی اشیاء کی دوکانیں بھی کھلنا شروع ہوگئیں تھیں جو لندن، پیرس اور نیویارک کی سڑکوں پر چلتے ہوئے نظر آتی ہیں۔ آذری مگر اپنے کھانے پر خود کو بہت نازاں محسوس کرتے ہیں۔ سلاد کے بے تحاشہ استعمال کے علاوہ انہیں پلاؤ سے بھی بہت رغبت ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ہاں مچھلی کی ایک ایسی نایاب قسم بھی ہے جس میں کانٹوں کے بجائے ایک ہی سخت ہڈی ہوتی ہے۔ اسے انسانی صحت کے لئے بھی بہت مفید گردانا جاتا ہے۔

    صدر لغاری کے ہمراہ ہوئے سفر کے دوران اندازہ ہوا کہ وہاں کی قیادت اپنے وسائل کو دنیا کا جدید ترین ملک بنانے کے لئے استعمال کرنے کو بے چین ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ ترقی کی جانب ہوئے اس سفر میں پاکستان بھی ان کے ساتھ ہو۔ دیانتداری سے یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان اور آذربائیجان کے باہمی تعلقات میں قربت کے جو امکانات تھے ہم اُن کی شاید 25فی صد سے زیادہ حدپار نہیں کرپائے۔ امکانات کی کامل عدم حصولی کی وجوہات بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں۔

    آج کے کالم کا واحد مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ سوویت یونین سے جدا ہونے کے بعد آذربائیجان نے بہت تیزی سے خود کو دنیا کے اہم ترین ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا۔ آرمینیا سے اپنی کھوئی ہوئی زمین بھی واپس لے لی ہے اور اسے دفاعی اعتبار سے اس قابل بنانے میں ترکی کے علاوہ پاکستان نے بھی اہم کرار ادا کیا۔ 6اور 7مئی کے بعد بھارت کے خلاف ہمارے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہوکر اس نے ثابت کیا کہ آذری احسان فراموش نہیں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.