Wednesday, 04 June 2025
    1.  Home
    2. Nai Baat
    3. Najam Wali Khan
    4. Imran Khan Ki Maqbooliat

    Imran Khan Ki Maqbooliat

    سابق کرکٹر اور پلے بوائے عمران خان کی بطور سیاسی رہنما مقبولیت کے تمام ادوار میں نے بطور صحافی بہت قریب سے دیکھے ہیں۔ پی ٹی آئی کو نوجوانوں کی جماعت کہاجاتا ہے مگر اس سے بھی پہلے یہ مایوس اور ناکام تھڑدلوں کا گروہ ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہر معاشرے میں بڑی تعداد میں ہوتے ہیں جو اپنی ہر ناکامی کا ملبہ دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ ایسے طالب علم ہر جماعت میں ہوتے ہیں جو اے گریڈ لینے والوں کے بارے رائے رکھتے ہیں کہ یہ نمبرز لگوا کے یا ٹیچر کی خوشامد کرکے اس پوزیشن پر پہنچے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کی نظر میں ہر پیسے والا کرپشن اور ظلم کے ساتھ ہی امیر ہوا ہے۔ یہ محنتی اورخوش گمان ہونے کی بجائے گالی دینے اور بدگمان ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بتایا جاتا ہے کہ یہ کارخانے اور فصلیں تمہیں لوٹ کر لگائی گئی ہیں سو تمہیں حق ہے کہ انہیں لوٹ لو۔

    عمران خان کو اسی سوچ اور نظرئیے کے ساتھ سامنے لایا گیا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں مافیاز اور تمام رہنما کرپٹ ہیں اور یہی موصوف ایماندار، بہادر اور باکردار۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ معاشرے کی نام نہاد صاف ستھری جماعت بناتے ہوئے ہر جماعت کا کچرا اکٹھا کیا گیا یعنی ہر وہ شخص جو بڑی جماعتوں میں مسترد ہوگیا یا ٹکٹ کا اہل نہ پایا گیا۔ یہ دوسری کھیپ تھی جو کہ پی ٹی آئی کو دی گئی۔ ایک تیسری کھیپ کا ذکر میں بعد میں کروں گا لیکن پہلے ان دونوں کا جائزہ لیجئے۔ یہ وہ ولوگ تھے جو معاشرے اور جماعتوں میں اپنی جگہ نہیں بنا سکے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جو اپنے سے آگے جانے والوں کو ہمیشہ گالی دیتے تھے۔

    اب سوال یہ ہے کہ انہوں نے توجہ کیسے حاصل کی تو اس کا ایک سیدھا سادا جواب ایک چھوٹے سے تجربے سے خود ہی حاصل کر لیجئے۔ اپنے قریبی مصروف بازار میں چلے جائیں۔ تمام دکانداروں کو بہت عزت احترام کے ساتھ سلام کرتے ہوئے بازار کی دوسری طرف پہنچ جائیں کوئی آپ کو نوٹس نہیں کرے گا اور عین ممکن ہے کہ بہت سارے سلام کا جواب بھی نہ دیں مگر اسی بازار کے کنارے پر کھڑے ہو کے کسی کو ایک موٹی سی گالی نکالیں اور کچھ ہذیان بکیں، تھوڑی ہی دیر میں آدھا بازار آپ کے ارد گرد ہوگا اور کئی دکاندار اپنی دکانیں چھوڑ کر بھی۔

    پی ٹی آئی اسی گالی اور الزام کے کلچر کے ساتھ آگے بڑھائی گئی اور یہ امر الگ ہے کہ دوسروں کو چور کہنے والا خود عدالتی سطح پر تسلیم شدہ زانی بھی تھا اور معاشرتی سطح پر تسلیم شدہ پلے بوائے بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کی تمام برائیوں کو اس کی خوبیاں بنا دیا گیا یعنی الزام تراشی کو سچ بیا نی بنا دیا گیا اور بدکرداری کو ماڈرنائزیشن کا لبادہ اوڑھا دیا گیا حالانکہ نہ گالی بہادری ہوتی ہے اور نہ ہی بدکرداری جدت۔

    ایک تضاد یہ بھی تھا کہ یہ جماعت انقلاب کے نام پر تشکیل دی گئی مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ اس میں بیشتر وہ شامل ہیں جن طبقات کے خلاف خود انقلاب آیا کرتے ہیں، اس کی سب سے پہلی سرپرست پرویز مشرف سوچ کی حامل اسٹیبلشمنٹ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے تمام تر اجتماعات ڈیفنس سے لبرٹی کے درمیان ہوتے تھے یعنی ممی ڈیڈی کلاس۔ آگے بڑھتے ہیں۔ پی ٹی آئی فرسٹریٹڈ لوگوں کی جماعت تھی تو یہ نوجوانوں کی جماعت کیسے بنی۔

    مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ نوجوانوں کی جماعت ہونے کا تاثر دینے میں میڈیانے بھی بہت بڑا کردارادا کیا۔ آپ مانیں یا نہ مانیں، پاکستان کی سب سے مقبول ایپ ٹک ٹاک ہے اور اس کی مقبولیت کی بنیاد ٹھرک۔ سب سے پہلے اسی ممی ڈیڈی کلاس کی لڑکیوں کو جھانسے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پرائیویٹ یونیورسٹیاں اور کالجز تیزی سے بڑھ رہے تھے اور وہاں سے فارغ التحصیل نوجوان کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن رہے تھے۔ اس کلچر میں عمران خان کو ماڈرنائزیشن جبکہ نواز شریف اور بے نظیر جیسے حقیقی ترقی پسندوں کو جہالت اور پسماندگی کی علامت بنا کے پیش کیا گیا جو حقیقی اشاریوں میں بالکل غلط تھا۔

    آج کے پاکستان میں آپ کو جو بھی جدت اور ترقی نظر آتی ہے وہ نواز شریف کی دی ہوئی ہے، بہرحال، میڈیا نے دکھایا کہ عمران خان کے جلسوں میں ماڈرن لڑکیاں باقاعدہ پارلروں سے تیار ہو کے پہنچتی ہیں جو دستیاب بھی ہوسکتی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اس کے جلسوں میں بدقماش نوجوانوں کے گروہوں نے باقاعدہ طور پر عورتوں کے حصوں پر حملے کئے۔ یہ سب اسی مقصد کے لئے جلسوں میں جاتے تھے اور سوشل میڈیا پر خود کو عمران خان کے حامی ظاہر کرتے تھے کہ وہاں موجود لڑکیوں کو لُبھا سکیں۔ یہ مکمل طور پر ابلیسی چکر تھا جس میں سوائے ہوس اور جھوٹ کے کچھ بھی نہیں تھا۔ جھوٹ تو عمران خان کے بیشتر الزامات بھی تھے اور اس کا تمام تر منشور بھی۔ ساڑھے تین برسوں میں اس نے اپنے منشور کے مطابق ایک بھی عمل نہیں کیا بلکہ اس کے دور میں معاشی تباہی کی وجہ سے نوجوانوں کو جتنی بے روزگاری ملی وہ تاریخ کا اپنا ایک ریکارڈ ہے۔

    میں اکثر کہتا ہوں کہ نفرت، محبت سے زیادہ طاقتور جذبہ ہے اور عمران خان کی مقبولیت کی بنیاد اسی نفرت پر رکھی گئی۔ یہ نفرت تخریب کرواتی ہے، تباہی لے کر آتی ہے مگر منصوبہ سازوں نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی کہ یہ تباہی ملک اور معاشرے کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے فالوورز کو اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ ملک تعمیر ہورہا ہے یا تباہ۔ وہ ایک کلٹ سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہیں بجا طو ر ذومبیز کہا جاتا ہے۔ اس پاپولیریٹی کی تعمیر سوشل میڈیا کے جعلی اور بوٹ اکاؤنٹس کے ذریعے کی گئی اور ظاہر کیا گیا کہ سوشل میڈیا پر ہزاروں لائیکس دراصل عوام کے ہیں۔

    میں نے اس پر مکمل سٹڈی کی ہے۔ آپ یہ دیکھیں کہ عمرانی کلٹ کا مقابلہ کرنے والے صحافیوں اور دانشوروں کے اکاؤنٹس پر گالیاں دینے والے نوے فیصد اکاونٹس جعلی ہوں گے، اپنی پہچان کے بغیر، اسی طرح جب کوئی یوتھیا اکاؤنٹ پوسٹ کرتا ہے تو اسے کمپیوٹرائزڈ بوٹ اکاؤنٹس کے ذریعے الگورتھم کی خامیوں کا فائدہ اٹھا کے وائرل کیا جاتا ہے، ہزاروں میں ظاہر ہونے والے ویوز، لائیکس اور شئیرز آرگینک، نہیں ہوتے اور اس فراڈ کا سب سے بڑا شکاریوٹیوب کے ساتھ ٹوئیٹر یا ایکس ہے جسے دنیا بھر کی معروف شخصیات اپنی ترجمانی کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

    اب اس امر میں کوئی شبہ ہی نہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کی تمام تر بنیادیں منفی ہیں جن کا امن، تعمیر، سچائی، احترام اور حب الوطنی جیسی خوبیوں سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مقبولیت جس کلٹ کو جنم دیتی ہے وہ نو مئی بھی برپا کرتا ہے اورپاک بھارت جنگ میں مودی کی زبان بھی بولتا ہے۔ عمرانی وائرس کا قوم کے کمپیوٹر میں پھیل جانا، یہ گناہ اور جرم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ وہ اس کی بھرپور سزا بھگت کے اب کفارے کی کوشش کر رہی ہے۔