Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Mohsin Goraya/
  3. Wazir e Azam Ke Intekhabi Wade

Wazir e Azam Ke Intekhabi Wade

جناب وزیر اعظم عمران خان صاحب، بلا شبہ آ پ اورآپ کی ٹیم ملکی دفاع و سلامتی، قومی ترقی و خوشحالی اور نظام کی بہتری کیلئے مصروف کار ہے، لیکن عوام کی بھاری اکثریت آج بھی نتائج اور ثمرات سے محروم ہے، اور اس کی کوئی نہ کوئی وجہ ضر ور ہوگی، ناگزیر ہے کہ ان وجوہ پر فوری غور کر کے راہ کی رکاوٹیں دور کر کے ترقی خوشحالی اور سلامتی و استحکام کی منزل حاصل کریں۔ اگر چہ تحریک انصاف کے پاس مشیروں کی فوج ظفر موج ہے مگر یہ تمام لوگ ایسے ممالک سے درآمد کئے گئے جو ترقی یافتہ اور معاشی طور پر مستحکم ہیں، یہ مشیران کرام معاملات کو انہی ممالک کے تناظر میں دیکھتے اور سمجھتے ہیں، مگر ہم نے ان زمینی حقائق کو نظر انداز کر دیا جن کا ہمیں گزشتہ 73سال سے سامنا ہے، یہ مشیر حضرات جن ممالک سے درآمد کئے گئے وہ ممالک تجربات کی بھٹی میں جل کر کندن بن چکے ہیں، ان ممالک میں قیادت نے اپنا آپ عوام کی مرضی سے حالات کی روشنی میں تبدیل کیا، عوام کی ذہن سازی کی گئی، معاشرہ اور سماج میں تربیت کے ذریعے انقلاب برپا کیا گیا، اس کے ساتھ نظام کو وقت کی ضرورت اور تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا، نظام چلانے والوں کی ذہنی اور سرکاری امور کی انجام دہی کے حوالے سے تربیت کی گئی، ان پر اعتماد کیا گیا، ان کو نظام چلانے کیلئے فری ہینڈ اور مہلت دی گئی، قانون کا اطلاق پوری دیانتداری سے کرنے کی راہ ہموار کی گئی، اس مقصد کو حاصل کرنے کیلئے دہائیاں لگیں، تب جا کر وہ ملک اور معاشرے زمینی جنت بن کر ابھرے۔

ہمارے ہاں ابتدائی کام کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے تبدیلی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی لئے آج بھی ہم نتائج اور ثمرات سے محروم ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کے نظام ہائے مملکت و سلطنت پر طائرانہ سی نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے ان ممالک میں قانون کا احترام اہم ترین ہے، عام شہری اوراشرافیہ قانون کی نگاہ میں برابر ہیں، حکمران اور رعایا میں بھی اس حوالے سے کوئی امتیاز نہیں، دوسرے ادارے اپنی حدود میں آزاد خود مختار ہوتے ہیں، کوئی دوسرے ادارے کے معاملات میں مداخلت کر کے اپنی بالا دستی قائم نہیں کرتا، وہ سرکاری مشینری جس نے نظام سلطنت و مملکت کو چلانا ہوتا ہے وہ ریاست کے ملازم ہوتے ہیں، حکومت کے نہیں، قانون کے مطابق امور مملکت چلانے میں وہ مکمل آزاد اور خود مختار ہوتے ہیں، کسی محکمہ کو قوانین اور بائی لاز کسی حکومتی شخصیت کیلئے معطل نہیں کئے جاتے، یہاں تک کہ ٹریفک بھی نہیں، عام راستے صرف غیر ملکی مہمانوں کی آمد پر بند کئے جاتے ہیں پروٹوکول کیلئے نہیں بلکہ ان کی سکیورٹی کی غرض سے، کوئی سیکرٹری کسی وزیر یا حکومتی شخصیت کے زبانی احکامات تسلیم کرنے کا پابند نہیں اور انکار کرنے والے کو نہ تبادلہ کا خوف ہوتا ہے نہ تا دیبی اور انضباطی کارروائی کا ڈر ہوتا ہے۔

ان ممالک کے عوام قانون کا احترام خوف ڈر یا چالان و جرمانہ کی وجہ سے نہیں بلکہ فرض جان کر کرتے ہیں، ان ملکوں کے سرکاری ملازم قوانین کے مطابق کام کسی ذاتی لالچ یا مفاد کے لئے نہیں بلکہ فرض منصبی سمجھ کر کرتے ہیں، ان ممالک کے حکمران عوام کے آقا اورشہری غلام نہیں ہوتے، یہی وجہ ہے کہ غیر اسلامی معاشرے ہونے کے باوجود وہاں عدل عام ہے، اور یہ نظام عدل ہی ہے جو کسی معاشرے کو ارضی جنت بنا دیتا ہے۔ جناب وزیر اعظم آج ہمیں اس حوالے سے سر جوڑنا ہو گا، مل بیٹھ کے اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا، اور یہ کوئی راکٹ سائینس نہیں ہے، بالکل سامنے کے معاملات ہیں، جو کچھ ہم پر بیتی اس سے بھی ہم بے خبر نہیں اور جو ان حالات کے ذمہ دار ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔

وزیر اعظم صاحب، انتخابی مہم کے دوران آپ نے جو وعدے عوام سے کئے تھے وہی دراصل ملکی اور عوامی مسائل کا حل ہیں، مگر سمجھ نہیں آرہی کہ حکومت کو ان وعدوں پر عملدرآمد میں کیا رکاوٹ ہے؟ کہا گیا ملک میں ایسا بلدیاتی نظام لاگو کیا جائے گا جس سے عوام کے مسائل دہلیز پر حل ہونگے، چھوٹے موٹے مقامی جھگڑوں کے حل کیلئے پنچائت سسٹم کو رواج دیا جائے گا، عوام کو ظلم، لاقانونیت سے نجات دلانے کیلئے پولیس کو عوام دوست بنایا جائے گا، تھانہ کلچر ختم کر کے پولیس کو عوام دوست بنایا جائے گا، فوری انصاف کیلئے عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں گی خاص طور پر ماتحت عدلیہ میں انقلاب برپا کر کے فوری انصاف کو یقینی بنایا جائے گا، کروڑوں ملازمتوں، لاکھوں گھروں، معاشی انقلاب کو بھول جائیں اگر حکومت باقی کے عرصہ اقتدار میں اپنے ان وعدوں کو ہی عملی جامہ پہنا دے جس سے عوام کو تحفظ، انصاف اور ظلم سے نجات مل جائے تو یہ بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔

جناب وزیر اعظم، یہ مقاصد حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں ضرورت سرکاری مشینری کو فعال کرنے ان پر اعتماد اور زیادہ نہیں ان کو آئینی اختیار دے کر خود مختار بنانے کی ہے، فوجی اور عدالتی بیوروکریسی کی طرح سول اور انتظامی بیوروکریسی کو بھی با اختیار کرکے ملکی اور صوبائی نظم و نسق کو بہتر سے بہترین بنایا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں منتخب اداروں کا کام قانون سازی ہے اور انتظامیہ کا کام ان قوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانا ہے، حکومت کا کام صرف دفاع، کرنسی اور محصولات اکٹھے کر کے ان کی منصفانہ تقسیم ہے اور سرکاری مشینری کی کارکردگی پر نگاہ رکھنا ہے، کسی بے قاعدگی کی صورت میں سزا دینا بھی حکومت کا اختیار نہیں، اس کیلئے محکمانہ قواعد کیساتھ خود احتسابی کا نظام موجود ہے اور اگر معاملہ اس نظام سے باہر ہو تو عدلیہ موجود ہے، مگر صرف کسی شکائت یا الزام پر سرکاری مشینری کو معتوب کر دینے سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ مزید بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ آج نظم و نسق میں جو گڑ بڑ دکھائی دیتی ہے اس کی بنیادی وجہ جس کا کام ہے اس کو کرنے نہیں دیا جا رہا، حکم دینے والے قواعد سے نا واقف ہیں اور جب زبانی احکامات کے نتائج منفی آ تے ہیں تو کارروائی ان کیخلاف عمل میں لائی جاتی ہے جن کو بے اختیار اور بے اعتبار کر کے عضو معطل بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔

جناب وزیر اعظم دنیا میں کوئی کام ناممکن نہیں ہوتا، قوم کی امیدیں آج بھی آپ سے ہی وابستہ ہیں، مشکلیں ضرورآتی ہیں اور قوموں کی زندگی کی مشکلات ہی ان کو ایک قوم بناتی ہیں، اس سے پہلے ہم نے مگر کبھی ایک قوم بننے کی کوشش ہی نہیں کی، جو اقتدار میں آتا ہے وہ آئین، عوامی شعور، نظام کو اپنی مرضی سے چلانے کی دھن میں مگن ہو جاتا ہے، وقت آ گیا ہے اپنے وعدوں پر عمل کریں، عوامی ریلیف کے فیصلے کریں، اپوزیشن کی بات سنیں اور ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں۔