Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Irshad Ahmad Arif/
  3. Kursi Hai Tumhara Ye Janaza To Nahi Hai

Kursi Hai Tumhara Ye Janaza To Nahi Hai

صلاح الدین کے قتل عمد پر رحیم یار خاں پولیس اور آر پی او بہاولپور عمران محمود کے بیانات دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ "پوری دال ہی کالی ہے "کے غماز ہیں، یہ خدا ہی جانتا ہے کہ پولیس افسران و اہلکارقاتل کی پردہ پوشی کر رہے ہیں یا کسی طاقتور، بااثر اور مالدار گینگ کی؟ ع

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

حبیب بنک شاہی روڈ رحیم یار خان کی جس برانچ سے صلاح الدین دوران واردات پکڑا گیا وہ کسی ویرانے میں نہیں۔ صلاح الدین اے ٹی ایم کیبن میں گھسا تو وہاں موجود نوجوان وکی نے شور مچا دیا۔ موقع پر موجود رحیم یار خان کے صحافی تحسین بخاری کے مطابق وکی کے شور مچانے پر کئی شہری اکٹھے ہو گئے جو ایک روز قبل سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو کی بنا پرصلاح الدین کو بڑا مجرم جان کر، جو اے ٹی ایم مشینوں سے لاکھوں روپے اور اے ٹی ایم کارڈ چراتا ہے، زدو کوب کرنے لگے۔ بنک گارڈز نے نوجوانوں سے صلاح الدین کی جان چھڑائی اور 15پر کال کر کے پولیس بلائی۔ اس دوران صلاح الدین بولا تو کچھ نہیں مگر اشاروں سے اللہ کا واسطہ دے کر نوجوانوں سے جان بخشی کی درخواست کرتا رہا، صحافی کے پوچھنے پرکہ وہ کون ہے اس نے اپنا بازو آگے کر دیا جس پر اس کا نام پتہ درج تھا۔ پولیس زندہ صلاح الدین کو لے کر گئی اور پھر مردہ صلاح الدین کو شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان کے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر خلیل اسرار کے سپرد کر دیا، جمعہ کی شام شاہی روڈ رحیم یار خان سے گرفتار ہونے والے ٹوٹی جوتی، گرد آلود لباس، میلے کچیلے جسم، اجڑے چہرے اور مخبوط الحواس صلاح الدین پر اگلے چوبیس گھنٹوں میں کیا بیتی؟ تفتیشی اہلکار واقف ہیں یا صلاح الدین اور ہم سب کا خدا جو دلوں کا بھید جانتا ہے۔

بلا شبہ صلاح الدین مشکوک کردار تھا، جس انداز میں صلاح الدین کی پہلی ویڈیو وائرل ہوئی اس نے اے ٹی ایم صارفین، بنک حکام اور پولیس کے کان کھڑے کر دیے ایک شخص اے ٹی ایم کیبن میں گھس کر واردات کے بعد کیمرے کا منہ چڑاتا اور نکل جاتا ہے۔ گرفتاری پر گونگے شخص کی کامیاب اداکاری کرتا اور پولیس کو چکرا دیتا ہے۔ حلیے اور حرکات سے وہ سفید پوش مجرم نہیں لگتا اور تفتیشی اہلکاروں کو شک میں ڈال دیتا ہے کہ کہیں اے ٹی ایم چور کے پردے میں کوئی طاقتور گروہ تو سرگرم عمل نہیں لیکن جب یہ گونگا زبان کھولتا اور سب کچھ اگل دیتا ہے، بازو پر لکھی شناخت درست اور ذہنی حالت خراب ثابت ہوتی ہے تو اس قدر تشدد کا کیا جواز کہ آدمی جان سے ہی چلا جائے؟

صرف یہی ایک سوال نہیں جس کا جواب پولیس دینے سے قاصر ہے کہیں زیادہ سوالات جواب طلب ہیں مثلاً یہ کہ صلاح الدین کی ہلاکت کے بعد ہسپتال لے جانے کی اداکاری اور نقشہ مضروبی میں تشدد کی علامات سے انکار کا سبب کیا تھا۔ احسان الٰہی نامی پولیس اہلکار نے شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو صلاح الدین کے پوسٹ مارٹم کے لئے جو درخواست بھیجی اس میں "ضربات" کی تفصیل میں NILL لکھا حالانکہ عام طور پر پولیس اہلکار نعش کے چھوٹے موٹے زخموں اور نشانات کی تفصیل بھی درج کرتے ہیں۔ پوسٹ مارٹم سے پہلے کی جو مصدقہ تصاویر موجود ہیں ان میں صلاح الدین کے جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں جس پر تشدد کے نشانات موجود نہ ہوں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر جو کچھ چل رہا ہے وہ میری اطلاع کے مطابق درست نہیں۔ ڈاکٹر غلام ربانی، ڈاکٹر مسعود جہانگیر، ڈاکٹر حسن خان اورڈاکٹر ہارون پر مشتمل چار رکنی میڈیکل بورڈ نے دل، جگر، دماغ، پسلیوں، بازوئوں سمیت بارہ اعضا کے نمونے فرانزک کے لئے لاہور ارسال کئے اور فرانزک کے بغیر موت کی وجہ بتانے سے انکار کیا، بارہ اعضا کے نمونے بھیجنے کا مطلب یہ کہ جسم کے یہ حصے تشدد سے متاثر ہوئے اور انہی میں سے ایک پر کاری ضرب موت کی وجہ بنی مگر آر پی او بہاولپور عمران محمود کمال سادگی سے میڈیا پر دعویٰ کرتے ہیں کہ صلاح الدین پر کوئی تشدد نہیں ہوا۔ پولیس تشدد سے صلاح الدین کی ہلاکت کا یہ پہلا کیس ہے اور نہ شائد آخری مگر ایک ذہنی طور پر معذور شخص کی پولیس تشدد سے ہلاکت نے وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کے علاوہ آئی جی پنجاب عارف نواز کے ان دعوئوں کی قلعی کھول دی ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پولیس کلچر کی تبدیلی کے لئے سنجیدہ کوششیں جاری ہیں اور کسی نہ کسی حد تک رنگ لا رہی ہیں۔

عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل حضرت عمرؓ کا یہ قول اکثر دہرایا کرتے تھے کہ "اگر دریائے دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو میں جواب دہ ہوں" اب کُتے بلّے نہیں اشرف المخلوقات انسان اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے مامور پولیس اہلکاروں کی تحویل میں بدترین تشدد سے مر رہے ہیں، مگر عمران خان اور سردار عثمان بزدار درکنار پولیس افسران بھی کسی کو جوابدہ نہیں۔ میڈیا شور مچائے تو آر پی او بہاولپور عمران محمود کی طرح اُلٹا خبروں کو مبالغہ آرائی پر مبنی اور تصویروں کو سراسر جھوٹ قرار دیتے ہیں پولیس اہلکاروں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ ضمانت قبل ازگرفتاری کرا لیں تاکہ انہیں گرفتار نہ کرنے کا جواز مل جائے۔ رحیم یار خان کے ڈی ایس پی سٹی پر الزام ہے کہ اس نے دوران تفتیش صلاح الدین کے نازک اعضا پر لاتیں اور ٹھڈے مارے جس سے پیشاب بند ہوا چند ماہ قبل سلیم ماچھی کی موت انہی لاتوں ٹھڈوں سے واقع ہوئی تھی مگر اس واقعہ کا سنجیدگی سے نوٹس نہ لیا گیا اوراب بھی صلاح الدین کے قتل کا سبب ناگہانی موت قرار دیا جا رہا ہے۔ صدیوں قبل شیر شاہ سوری نے کسی علاقے میں چوری ڈکیتی کی واردات کا ذمہ دار علاقہ کوتوال کو قرار دے کر جرائم کی روک تھام کی تھی اب بھی پولیس کی تحویل میں بے گناہ شہریوں کے قتل کی روک تھام اس طور ممکن ہے کہ متعلقہ تھانہ انچارج اور ڈی ایس پی پر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302لگے اور ان سے اوپر کے دوافسروں کو ریٹائر ہونے تک دوبارہ کبھی فیلڈ پوسٹ نہ ملے۔ کوئی بھی تجربہ کار وارداتیا اپنے ہاتھ پر مکمل نام پتہ لکھ کر مصروف بازاروں میں اے ٹی ایم مشینیں توڑتا اور نقد رقم چھوڑ کر کارڈ چراتا ہے نہ پکڑے جانے پر پولیس تشدد سہتے سہتے موت کو گلے لگاتا ہے۔ مشکوک حرکات پر تشدد کا جواز تونظر آتا ہے مگر اتنا زیادہ تشدد کہ آدمی کی جان چلی جائے ناقابل فہم ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں تفتیشی اہلکاروں کے سوال و جواب سے لگتا ہے کہ یہ سنگدل پلسیے کسی تھیٹر میں ڈرامے کی شوٹنگ کر رہے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اگر تفتیشی اہلکاروں کو شک تھا کہ صلاح الدین کسی بڑے گینگ کا کل پرزہ ہے تو اب تک کوئی منہ سے پھوٹا کیوں نہیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ واقعتاً کسی گینگ کا رکن ہو جس نے پولیس اہلکاروں سے مل کر اسے مروا دیا تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ صلاح الدین کی موت پر پردہ ڈالنے کی کوششوں سے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ مروانے والوں کو بچانے کے لئے جھوٹ پہ جھوٹ بولا جا رہا ہے اور قاتلوں کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ وہ پوسٹ مارٹم اور فرانزک رپورٹ اپنی مرضی کی حاصل کر لیں گے اور کسی پولیس اہلکار و افسر کا بال بیکا نہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کوئی اہلکار گرفتار ہوا نہ ڈی ایس پی سے اوپر کے کسی افسر کے خلاف حقائق کو چھپانے پر کارروائی ہوئی۔

عمران خان نے کامیابی کے بعد پہلی تقریر میں عوام اور سرکاری اہلکاروں سے دوسروں کا احساس کرنے اورجذبہ رحم دل کو جگانے کی اپیل کی تھی مگر اس دوران پولیس کے ہاتھوں دوران تحویل ہلاکتوں اور ساہیوال سانحہ پر کمزور ردعمل سے یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ موجودہ حکمران بھی پولیس و بیورو کریسی کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں اور وہ اپنے غیر قانونی احکامات و سفارش کی عدم تعمیل، ارکان اسمبلی کا دبائو قبول نہ کرنے والے افسروں کو سزا دینے میں تو ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرتے، پنجاب میں ایک سال کے دوران تین چار آئی جی تبدیل ہوتے ہیں مگر غریب آدمی پولیس تشدد سے ہلاک ہو یا پورا خاندان سی ٹی ڈی کی گولیوں سے بھون دیا جائے کسی کو پروا نہیں۔ لوگ حیران ہیں کہ اربوں روپے لوٹنے والے طاقتوروں کو تو جیلوں میں بھی من پسند سہولتیںاور مراعات حاصل ہیں۔ انہیں اعلیٰ پولیس افسر سلام کر کے ملاقات کی اجازت طلب کرتے ہیں، مگر ایک غریب ذہنی معذور اور بے آسرا شہری پولیس اہلکاروں سے یہ پوچھنے پر موت کے گھات اتر جاتا ہے کہ "تم نے تشدد کرنا کہاں سے سیکھا" جان کی امان پائوں تو حکمرانوں سے یہ سوال میں بھی کرنا چاہتا ہوں کہ "اقتدار میں آ کر بے حس ہو جانا کہاں سے سیکھا" پوچھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر فی الحال حکمرانوں کی نذر چند اشعار ؎

اس درد کی دنیا سے گزرکیوں نہیں جاتے

یہ لوگ بھی کیا لوگ ہیں مر کیوں نہیں جاتے

شعلے ہیں تو کیوں ان کو بھڑکتے نہیں دیکھا

ہیں خاک تو راہوں میں بکھر کیوں نہیں جاتے

کرسی ہے تمہارا یہ جنازہ تو نہیں ہے

کچھ کر نہیں سکتے تو اُتر کیوں نہیں جاتے

آنسو بھی ہیں آنکھوں میں، دعائیں بھی ہیں لب پر

بگڑے ہوئے حالات، سنور کیوں نہیں جاتے