Sunday, 21 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
  4. Karachi, Edad o Shumar Mein Lipti Hui Insani Almiya

Karachi, Edad o Shumar Mein Lipti Hui Insani Almiya

کراچی ایک شہر نہیں، ایک مکمل کائنات ہے۔ اس کی سڑکوں پر کروڑوں خواب چلتے ہیں، اس کی گلیوں میں لاکھوں امیدیں سانس لیتی ہیں اور اس کے ساحل پر ایک پوری معیشت کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ مگر یہی شہر جب اعداد و شمار کی زبان میں بولتا ہے تو خواب بکھرتے، امیدیں ٹوٹتیں اور دھڑکن کمزور پڑتی محسوس ہوتی ہے۔ فلاحی ادارے چھیپا فاؤنڈیشن کی جانب سے سال 2025 کے لیے جاری کردہ تازہ رپورٹ درحقیقت محض ایک فہرست نہیں بلکہ ایک اجتماعی ضمیر پر دستک ہے۔ یہ رپورٹ ہمیں آئینہ دکھاتی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟

رواں برس کراچی میں مختلف حادثات، جرائم، تشدد اور غفلت کے نتیجے میں ہزاروں شہری جاں بحق یا زخمی ہوئے۔ یہ اموات کسی ایک شعبے کی ناکامی نہیں بلکہ مجموعی طور پر شہری نظم و نسق، قانون کی عملداری، انفراسٹرکچر کی زبوں حالی اور سماجی بے حسی کا نتیجہ ہیں۔ سب سے زیادہ چونکا دینے والے اعداد و شمار ٹریفک حادثات کے ہیں، جہاں 830 افراد جان سے گئے اور 11 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ محض حادثات نہیں، یہ ایک خاموش قتل گاہ کی داستان ہے جو روزانہ ہماری سڑکوں پر سجتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ حادثہ کیوں ہوا، اصل سوال یہ ہے کہ یہ حادثہ ہونے دیا کیوں گیا؟ ناقص سڑکیں، غیر تربیت یافتہ ڈرائیور، فٹنس سرٹیفکیٹ کے بغیر گاڑیاں، اوور اسپیڈنگ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزور گرفت یہ سب عوامل مل کر انسانی جانوں کو ارزاں بنا دیتے ہیں۔

تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان حادثات کا شکار ہونے والوں میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ یہ حقیقت کسی بھی مہذب معاشرے کے لیے لمحۂ فکریہ ہونی چاہیے کہ جہاں بچے اسکول جاتے ہوئے یا سڑک پار کرتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، وہاں ترقی کے دعوے محض اشتہارات بن کر رہ جاتے ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں ٹریفک انجینئرنگ، اسمارٹ سگنلز، سخت قوانین اور مؤثر نفاذ کے ذریعے حادثات کو کم سے کم سطح پر لایا جا چکا ہے، مگر کراچی آج بھی آزمائش اور تجربات کا شہر بنا ہوا ہے۔

رپورٹ میں فائرنگ اور اسٹریٹ کرائم کے اعداد و شمار بھی کسی سانحے سے کم نہیں۔ رواں برس فائرنگ کے مختلف واقعات میں 407 افراد جاں بحق اور 1632 زخمی ہوئے۔ ڈکیتی مزاحمت پر 89 شہریوں کا قتل اس حقیقت کی غمازی کرتا ہے کہ شہر میں خوف ایک مستقل کیفیت بن چکا ہے۔ شہری اب یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ وہ خاموشی سے لٹ جائیں یا مزاحمت کرکے جان گنوا دیں۔ یہ کسی بھی ریاست کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ جب قانون کمزور اور مجرم طاقتور ہو جائیں تو عام شہری کے لیے زندگی ایک روزانہ کا امتحان بن جاتی ہے۔

تشدد زدہ اور بوری بند لاشوں کا ملنا اس زوال کی انتہا ہے۔ یہ واقعات صرف قتل نہیں بلکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ کی علامت ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں انسان کو بوری میں بند کرکے پھینک دیا جائے، وہاں انسانی وقار، انصاف اور اخلاقیات سب سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ریاستی ادارے محض اعداد جمع کرنے کے بجائے جرائم کی جڑ تک پہنچیں اور خوف کے اس ماحول کو توڑیں۔

حادثاتی اموات کا ایک اور الم ناک پہلو کرنٹ لگنے، گٹر اور نالوں میں گرنے، چھتوں سے گرنے اور جھلسنے جیسے واقعات ہیں۔ 131 افراد کا کرنٹ لگنے سے جاں بحق ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بجلی کا نظام کتنا غیر محفوظ ہے۔ کھلے نالوں میں ڈوب کر اموات ہونا کسی قدرتی آفت کا نتیجہ نہیں بلکہ انتظامی غفلت کی پیداوار ہے۔ دنیا بھر میں شہری منصوبہ بندی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ انفراسٹرکچر انسان کے لیے ہو، انسان انفراسٹرکچر کے رحم و کرم پر نہ ہو۔ بدقسمتی سے کراچی میں یہ اصول الٹ چکا ہے۔

خودکشی کے واقعات اور منشیات کے استعمال سے ہونے والی اموات ایک اور سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتی ہیں، جسے ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ 119 افراد کا خودکشی کرنا اور سینکڑوں لاوارث لاشوں کا منشیات کے باعث ملنا اس بات کا اعلان ہے کہ شہر شدید ذہنی دباؤ اور نفسیاتی بحران کا شکار ہے۔ معاشی مشکلات، بے روزگاری، عدم تحفظ، ٹوٹتا ہوا خاندانی نظام اور مستقبل سے مایوسی انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ مسئلہ محض قانون نافذ کرنے سے حل نہیں ہو سکتا، اس کے لیے ذہنی صحت کو قومی ترجیح بنانا ہوگا۔

یہ تمام اعداد و شمار مل کر ایک ہی سوال کی طرف اشارہ کرتے ہیں: کیا کراچی واقعی قابلِ رہائش شہر رہ گیا ہے؟ اور اگر نہیں، تو اس ذمہ داری کا تعین کون کرے گا؟ ریاست، حکومت، ادارے اور خود شہری، سب کو اس سوال کا سامنا کرنا ہوگا۔ محض رپورٹس جاری کر دینا کافی نہیں، اصل امتحان ان رپورٹس سے سیکھنے اور عملی اقدامات اٹھانے میں ہے۔

کراچی کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے جذباتی نعروں کے بجائے سائنسی، تکنیکی اور انتظامی بنیادوں پر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ڈیٹا بیسڈ گورننس، جدید شہری منصوبہ بندی، سخت مگر منصفانہ قانون کا نفاذ اور انسانی جان کی غیر مشروط قدر یہی وہ اصول ہیں جن پر عمل کیے بغیر یہ شہر مزید بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اگر آج بھی ہم نے آنکھیں بند رکھیں تو کل یہ اعداد و شمار مزید بڑھ جائیں گے اور پھر شاید ہمارے پاس سوائے افسوس کے کچھ بھی باقی نہ رہے۔

کراچی چیخ چیخ کر نہیں بولتا، یہ شہر اعداد و شمار میں سسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا کوئی سن رہا ہے؟