Sunday, 21 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Tayeba Zia
  4. Tabdeeli Apne Anjam Ko Pohanchi

Tabdeeli Apne Anjam Ko Pohanchi

سانحہ نو مئی کے مجرموں کو سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ آج جو مظلوم کہلائے جا رہے ہیں جب ظالم تھے تو انکے لہجوں میں فرعونیت بولا کرتی تھی۔ ہم نے ڈی چوک کے دھرنے کے وقت ہی لکھ دیا تھا کہ ایک روز یہ کہتا پھرے گا، مجھے کیوں نکالا؟ ، منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو سازش کے تحت نکلوانے والا ایک دن خود بھی انصاف مانگتا پھرے گا۔ ذہن میں خرابی تب ہی پیدا ہوگئی تھی جب نو مئی کو غداری و بغاوت کے جھنڈے گاڑ دئیے تھے۔ جو دوسروں کے لیے گڑھا کھودتا ہے خود بھی اس میں اوندھے منہ جا گرتا ہے۔ فوج کو بدنام کرنے کے جتنے کارڈز، ہتھکنڈے، مہرے، چالیں چلنی تھیں چل لیں۔ اب فوج کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔۔

دنیا نے دیکھ لیا کہ پاکستان کا فولادی ادارہ ریاست میں ریاست بننے نہیں دے گااور کوئی ادارے میں سازش کرانے کی کوشش کرے گا تو اس کا انجام عبرتناک ہوگا۔ ماضی میں مسٹر انتشار کی گڈی چڑھائی گئی۔ اس کو نواز شریف کے خلاف استعمال کیا گیا مگر پھر احسان فراموش کو نشان عبرت بھی بنا دیا گیا۔ بزدل اس انتہا کا کہ تمام ناکامیاں اور جرائم اپنے دوستوں اورمحسنوں پر ڈال کر خود مظلوم بن رہا ہے۔

نظام کی تبدیلی، کا جھانسا دے کر اندھے بہرے فینز کو گمراہ کرتا رہا مگر 2014ء ڈی چوک دھرنے میں کئی با شعور افراد اس منافقانہ سیاست کو خیر باد کہہ گئے۔ اس وقت مسٹر انتشار نے کہا جج خود پارلیمنٹ تحلیل کردیں گے، نوازشریف مستعفی ہو جائیں گے، ہم جیسوں نے جب لکھا کہ یہ بات آئین سے بالاتر ہے تو جواب آیا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت بن جائے گی، ستمبر کے آخر میں انتخابات ہو جائیں گے۔

نئے انتخابات میں اسکی حکومت بنے گی کیوں کہ کوئی مقابلے کی جرات نہیں کرے گا۔ اس وقت کے مسٹر متکبرانتہائی غیرذمے دارانہ سیاست کر رہے تھے، انہیں ملک کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ بد عنوان ٹولے میں گھرے ہوئے تھے۔ مقصد نواز شریف کو فارغ کرانا تھا سو وہ کسی نہ کسی طریقے سے ہوگیا۔ ہوس اقتدار نے اسے اسٹیبلشمنٹ کی لونڈی ثابت کیا۔ وزیر اعظم بننے سے پہلے تک ان کی زبان سے ریاست مدینہ کانام تو درکنار کبھی مذہبی ٹچ نہیں سنا تھا۔ پھر پیرنی کے جال میں پھنستے ہی ان پر جادو ٹونے کے ایسے بھیانک اثرات مرتب ہوئے کہ انہوں نے مذہب کو کلٹ بنا لیا اور ان کا فین کلب مریدین میں ڈھل گیا اور برین واشنگ نے وہ حشر کر دیا کہ ان کے اندھے عاشقان گوبر کو حلوہ سمجھتے ہی نہیں بلکہ کھانے لگتے ہیں۔

ضعیف الاعتقاد کوپھانسنے کے لیے جادو گرنی کو بنی گالہ میں گھر لے کر دیا گیا اور انہوں نے دن رات فیض، تقسیم کیا۔ سکرپٹ کے مطابق مسٹر انتشار ان کے مکمل طور پر قبضے میں آگیا۔ اس کے پاس نہ کوئی جن ہے نہ موکل۔ سب فیض، کا کمال تھا۔ بے شک موکلات جنات ہمزاد بھی حقیقت رکھتے ہیں اور پروفیشنل عورت نے کسی جادو گر سے چلوں کی تربیت بھی لے رکھی تھی۔ مگر قید سے آزادی دلانے میں ان کیجنات بھی غائب ہو چکے ہیں؟ نو مئی کے فیصلے آنے میں بلا شبہ تاخیر ہوئی ہے۔

جنوری 2021ء کو امریکی کانگریس پر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے دوران امریکی ایوان نمائندگان کی اس وقت کی اسپیکر نینسی پیلوسی کی میز پر صرف پاؤں رکھنے والے شخص کو ساڑھے چار سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پاکستان میں واقعہ نو مئی میں تو ملک کی سالمیت کو داؤ پر لگا دیاتھا۔ امریکا میں بھی سیاست کی آڑ میں سرکاری عمارتوں کا جلاؤ گھیراؤ، توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہروں میں ملوث سابق و حاضر سروس فوجیوں کو سزایئں دی گئیں۔

دنیا بھر میں سیاست کی آڑ میں سرکاری عمارتوں کا جلاؤ گھیراو، توڑ پھوڑ اور پرتشدد مظاہرے سنگین جرم ہیں۔ شہدا کی تضحیک، میانوالی بیس پر حملہ، جی ایچ کیو، جناح ہاؤس، ریڈیو پاکستان کی عمارتوں پر حملہ کرنے والوں کو تحریک انصاف ہیرو سمجھتی ہے جبکہ انصاف کی نظر میں غدار ہیں۔ کیپٹل ہل کے حملہ آوروں کو امریکی جج نے 16 سال قید کی سزا سنائی۔ واقعہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کی جو اینٹ سے اینٹ بجائی، آج تک مسلمان بھگت رہے ہیں۔ مسٹر انتشار نے 2018ء میں غیر جمہوری طریقے سے اقتدار لیااور اگرغیر جمہوری طریقے سے اتار دیا گیا تو شکوہ کیسا؟

تحریک انتشار سیاسی جماعتوں سے نہ کبھی ٹیبل پر بیٹھی نہ جمہوری سیاست کی۔ نہ جمہوریت کو کبھی چلنے دیا۔ بیساکھیوں کے بغیر 2013ء کے الیکشن میں شکست ہوئی، بیساکھیوں کا ترلا منت لیاتو 2018ء میں کرسی پر بٹھا دیا گیا، 2010ء سے 2022ء تک لاڈلے کو ہی جھولا جھلاتے رہے، لاڈلے نے محسنوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا، بیرونی طاقتوں سے ریاستی سیکرٹ شیئر کردیے۔ ملک میں حساس منصوبے بندکر دیے، امریکا اور اسرائیل سے لابنگ یعنی خفیہ معاملات طے پائے جانے لگے اور عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے امریکا مخالف پروپیگنڈا ہم کوئی غلام ہیں؟

اور ایبسولیوٹلی ناٹ، جیسے پروپیگنڈا کے پیچھے لگا دیا، ثبوت ملنے پر محسنوں نیلاڈلے کو گود سے اتار کرزمین پر پٹخ دیا۔ بس پھر کیا تھا، ڈیڑھ سال سے محسنوں کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی تیاری میں لگا رہا اور آخر کار 9 مئی کو عوام کے سامنے مکمل ایکسپو ز ہوگیا۔ جمہوری انداز سے سیاست کی ہوتی تو نہ بیساکھیوں کے سہارے سے آتا نہ آج بیساکھیوں کی منت سماجت کرنا پڑتی۔ جب دیکھا انگور کھٹے ہیں تو ادارے کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔

مذاکرات جمہوریت کی کنجی ہے لیکن اس کی سیاست تووردی سے تھی، فخر تھا اسے وردی والوں کی مداخلت پر مگر جب اس کی سازشیں رنگے ہاتھوں پکڑی گئیں تو اس نے اپنی مقبولیت کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا۔ محسنوں کے ہی خلاف زہر آلود مہم چلادی۔ حضرت علی کا فرمان ہے جس کم ظرف پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔ جبکہ یہ شر توشرپسند ہی بن گیا۔ تکبر خود پرستی اور بغاوت نے ملک و قوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔

حافظ صاحب نے بھی جنرل باجوہ کی طرح بہت برداشت کیا مگر 9 مئی کی دہشت گردی نے ادارے کو دل برداشتہ کر دیا۔ سانحہ 9مئی کو اداروں نے مظاہرین پر ڈنڈے یاگولی چلانے سے سختی سے روک دیا تھاجس کی وجہ سے جتھے حساس علاقوں میں دندناتے رہے اور لاشوں پر سیاست کا ڈراما فلاپ ہوگیا ورنہ امریکا اسرائیل کو انسانی ہمدردی کا جواز مل جاتا۔ شکریہ پاک فوج۔