Sunday, 21 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Umar Khan Jozvi
  4. Qaum Ka Mustaqbil Tabahi Se Bachayen

Qaum Ka Mustaqbil Tabahi Se Bachayen

بچے کارزلٹ کارڈٹیبل پررکھتے ہوئے وہ انتہائی پریشانی اورمایوسی کے عالم میں بولے جوزوی صاحب اس بچے نے بہت پریشان کررکھاہے۔ ہرمہینے بھاری فیسیں بھرنے اورہرقسم خاطرتواضع کرنے کے بعدبھی اس کاحال اس کارڈمیں آپ کے سامنے ہے۔ پہلے امتحان میں اس کے دوپیپرفیل ہوئے تھے۔ اب جناب ترقی کرکے چارتک پہنچ گئے ہیں۔ یہ دیکھیں ظالم نے اس بارایک دونہیں بلکہ پورے چارپیپرفیل کردیئے ہیں۔

ہم روکھی سوکھی کھاکرصرف اس لئے اس کے سکول اورٹیوشن کی بھاری فیسیں بھرتے ہیں کہ یہ کمبخت کچھ لکھ پڑھ کرکچھ بن جائیں لیکن اس صاحب کوتوموبائل اورٹی وی ڈراموں سے فرصت ہی نہیں۔ ہروقت یہ موبائل اورٹی وی میں ایساگھسارہتاہے کہ جیسے یہ دنیامیں آیاہی اس کام کے لئے ہو۔ کہنے کوتویہ ایک باپ کارونا، دھونااورچیخناوچلاناہے لیکن اگربغوردیکھاجائے تواس وقت موبائل اورٹی وی نے ہمارے اکثربچوں کایہ حال کردیاہے۔

آج کے بچے جتناٹائم اوروقت موبائل وٹی وی ڈراموں پرصرف کرتے ہیں اتناٹائم اگریہ تعلیم وتربیت اورشعورکے لئے دیتے تویہ آنکھیں بندکرکے ڈاکٹر، ٹیچر، انجینئر، سیائنسدان، لیڈراورقوم کے ہیروبنتے۔ آج قدم قدم پرسکول، کالج اوریونیورسٹیاں قائم ہیں۔ شہرکیااب تودوردرازکے گاؤں اوردیہات بھی سکول وکالجزسمیت دینی مدارس جیسی دینی درس گاہوں سے آبادہیں۔ پہلے لوگ دینی ودنیاوی تعلیم کے لئے میلوں کاسفرطے کرکے کہیں دن بھرکی محنت ومشقت کے بعد دوسرے شہرپہنچتے۔ اس وقت نہ صرف تعلیمی ادارے میلوں دورتھے بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک آمدورفت کابھی کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا تھا۔

ہمیں اچھی طرح یادہے ہائی سکول جوزمیں تعلیم کے دوران ہمارے ساتھ سکول و کلاس میں دوردرازکے ایسے ایسے علاقوں کے ساتھی تھے جن گھروعلاقوں میں آنے جانے کے لئے ہمارے جیسوں کے آج بھی سات اٹھ گھنٹے لگتے ہوں گے پھربھی ان علاقوں سے وہ ساتھی اسمبلی ٹائم پرسکول پہنچ جایاکرتے تھے۔ ان ساتھیوں کویادکرکے ہم آج بھی سرپکڑکریہ سوچتے ہیں کہ گرمی اورسردی میں وہ اس وقت روزکیسے آتے ہوں گے؟ اب توموسم کافی بدل گیاہے اس وقت موسم سرماکی سالانہ تعطیلات سے بھی پہلے اکثران علاقوں میں شدیدسردی پڑنے کے ساتھ برفباری بھی ہوتی تھی۔

سکول سے چونکہ چھٹیاں نہیں ہوئی ہوتی تھیں اس لئے دواورتین فٹ کی برف میں بھی وہ ساتھی پابندی کے ساتھ سکول پہنچ آیاکرتے تھے۔ اب توہرگھرکے ساتھ دوسری اورتیسری گلی میں کوئی نہ کوئی سکول اورمدرسہ قائم ہے لیکن پھربھی آج کے بچوں کوان سکولزاورمدرسوں میں جاتے ہوئے بخارچڑھناشروع ہوجاتاہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ سکول وکالج اگرپہلے کی طرح آج بھی میلوں دورہوتے توپھرہمارے ان بچوں کاکیاحال ہوتا؟

آج کے دورمیں سکول جاتے اورکتابیں کھولتے ہوئے ہمارے ان لاڈلے بچوں کے پاؤں اورہاتھوں پرچالے پڑنے ودانے نکلناشروع ہوجاتے ہیں لیکن موبائل سے چمٹنے اورڈرامے دیکھنے میں گھنٹے کیادن اوررات بھی گزرجائے توان کوذرہ بھی کوئی تکلیف اورتھکاوٹ نہیں ہوتی۔ ان سے اگرزبردستی موبائل نہ لیاجائے یاٹی وی بندنہ کی جائے تویہ گھنٹوں کیادنوں تک ان کے سامنے بیٹھے رہیں گے۔ سکول پڑھتے بچے کیا؟ آج کی ماؤں نے تودودھ پیتے بچوں کوبھی موبائل پرلگادیاہے۔

چھوٹے بچے پہلے جب روتے تھے تومائیں انہیں کچھ کھلاپلااورچھوٹے موٹے کھلونوں سے بہلاکرخاموش کرادیاکرتی تھیں لیکن اب بچوں کوخاموش کرانے کایہ آسان طریقہ ہے کہ ان کے ہاتھ میں موبائل پکڑادیاجائے۔ گھرہویاباہر۔ آپ جہاں بھی دیکھیں آپ کوبچے موبائل میں گم نظرآئیں گے۔ کسی ایک گھراوردرنہیں موبائل کی یہ بیماری اس وقت ہربچے کولاحق ہے۔ جس گھرکوبھی دیکھیں وہاں بچے شہدکی مکھیوں کی طرح موبائل کے گردگھومتے دکھائی دیں گے یاٹی وی سے چمٹے ہوں گے۔ بچے ہمارامستقبل ہے افسوس ہم نے اپنے اس مستقبل کوموبائل اورٹی وی کے رحم وکرم پرچھوڑدیاہے۔

ماناکہ موبائل اورٹی وی سمیت جدیدٹیکنالوجی اللہ کی ایک نعمت ہے مگرہمیں ایک بات یادرکھنی چاہئیے کہ یہ بچوں کے لئے ہرگزہرگزنعمت نہیں۔ جدیدتحقیق اورماہرین صحت موبائل وٹی وی کوبچوں کے لئے خطرناک قراردے رہے ہیں۔ یہ ذرائع نہ صرف بچوں کی صحت بلکہ استعداد، قوت وصلاحیتوں کے لئے بھی زہرقاتل ہے۔ ہمیں ہرحال میں اپنے بچوں کوان خطرات سے دوررکھناہوگا۔ یہ توسب مانتے اورجانتے ہیں کہ بچے ہمارامستقبل ہے پراس مستقبل کوسنوارنے اورتباہی سے بچانے کی کسی کوفکرنہیں۔

ہمارایہ مستقبل تب محفوظ اورروشن ہوگاجب یہ موبائل اورٹی وی سکرین کے بجائے ہمارے ہاتھوں میں پروان چڑھے گا۔ نہیں توپھربچوں کے رزلٹ کارڈاورسی وی ہاتھوں میں اٹھاکرہمارے پاس رونے، دھونے، چیخنے اورچلانے کے سواکوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔ اس لئے اب بھی وقت ہے کہ اپنے اس مستقبل کوتباہی اوربربادی سے بچایاجائے۔ موبائل اورٹی وی یہ بچوں کے لئے نہ صرف خطرناک بلکہ حدسے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اس سے بچوں کے نفسیات اورصحت پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صحت کی خرابی کے ساتھ ہمارے بچوں کاقیمتی وقت بھی موبائل اورٹی وی کے ہاتھوں ضائع ہورہاہے۔

سمجھداروہی لوگ ہیں جووقت پراپنے بچوں اورقوم کے اس مستقبل کوموبائل وٹی وی سمیت اس طرح کی منفی سرگرمیوں سے محفوظ رکھیں۔ ہم سب کواب ہرحال میں اپنے بچوں کواس تباہی سے بچاناہوگانہیں توپھرہمارے پاس ہاتھ ملنے اورافسوس کرنے کے کوئی چارہ باقی نہیں رہے گا۔