Thursday, 17 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Tabahi Ki Taraf Barhta Mashriq e Wusta

    Tabahi Ki Taraf Barhta Mashriq e Wusta

    امریکہ و اسرائیل کا جنگی جنون اب انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ چکا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی سرزمین پر بہتا ہوا لہو، ملبے کے ڈھیر تلے دبی زندگیاں، فضا میں گونجتے بموں کے دہلانے والے دھماکے اور بچوں کی سسکیاں اب عالمی ضمیر کے لیے ایک ناقابلِ تردید سوال بن چکی ہیں: کیا انسانیت مر چکی ہے؟ یہ سوال اس وقت اور بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے جب دنیا کی دو طاقتور ترین قوتیں، امریکہ اور اسرائیل، کھلم کھلا انسانی حقوق، عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنی جارحانہ پالیسیوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

    اسرائیل نے 1948ء میں اپنے قیام کے وقت سے لے کر آج تک فلسطینی عوام کو ان کی زمین، ان کی شناخت اور ان کے حقِ خود ارادیت سے محروم رکھا ہے۔ لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر مہاجرت کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا، جب کہ امریکہ مسلسل اسرائیل کی عسکری و سیاسی پشت پناہی کرتا رہا ہے۔ ہر امریکی صدر نے اسرائیل کی حمایت کو قومی سلامتی کا حصہ قرار دے کر اسے عالمی قوانین سے بالاتر سمجھا اور اس کی جارحیت کو اقوامِ متحدہ میں ویٹو پاور کے ذریعے تحفظ فراہم کیا۔

    اسرائیل کے جنگی جنون کی تازہ اور خطرناک ترین مثال ایران کے دارالحکومت تہران کے نواح میں حالیہ اسرائیلی حملہ ہے، جس میں ایران کی فوجی تنصیبات، پاسدارانِ انقلاب کے دفاتر اور حتیٰ کہ سفارتی مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں کئی اعلیٰ ایرانی افسران جاں بحق ہوئے اور یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب ایران و امریکہ کے مابین مزاکرات کا عمل جاری تھا اور ایران خطے میں سفارتی و دفاعی توازن کے لیے اہم کردار ادا کر رہا تھا۔ اس جارحیت کے پسِ پردہ امریکہ کی نہ صرف خفیہ رضامندی بلکہ مکمل تکنیکی و انٹیلی جنس تعاون شامل تھا، جس کے بغیر اسرائیل کا تہران تک جا پہنچنا ناممکن تھا۔ یہ حملہ بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور ایران کی خودمختاری کے کھلے عام خلاف ورزی ہے، جسے اسرائیل نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے "پری ایمپٹو اسٹرائیک" یعنی پیشگی دفاع کا نام دے کر مزید حملوں کا اشارہ دیا اور بعد ازاں متواتر حملوں کا اعلان کرکے مسلسل تباہ کن حملے شروع کردیئے۔

    ایران پر یہ حملہ محض ایک عسکری کارروائی نہیں بلکہ ایک اعلامیہ ہے۔ اسرائیل اب کسی بھی اسلامی ملک کے اندرونی معاملات میں براہ راست مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے، چاہے وہ علاقائی ہو یا بین الاقوامی۔ اس حملے کے نتیجے میں ایران میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے، ایران کا کہنا ہے کہ دنیا نے دیکھ لیا کہ جنگ کا آغاز ہم نے نہیں کیا لیکن اس کے اختتام کا فیصلہ اب ہم کرینگے، اسرائیل نے حملے میں پہل کرکے دردناک اور تلخ انجام کو دعوت دی ہے۔

    ہمارا فیصلہ کن جواب دشمن کو اس کے احمقانہ اقدام پر پشیمان کر دے گا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ ایران نے اپنی خودمختاری کا دفاع کرتے ہوئے اسرائیل کو عبرتباک اور منہ توڑ جواب انتہائی منظم اور مؤثر طریقے سے دیا، ایران نے اپنے آپریشن کا نام "مجازات شدید" رکھا ہے جس کا مطلب "سخت سزا یا شدید انتقام" ہے۔ پورا اسرائیل ایران کے نشانے پر ہے اور اسرائیل کی مختلف فوجی و سول تنصیبات پر ایران کے حملے جاری ہیں، اب تک جن مقامات کو نشانہ بنایا گیا ہے ان میں تل ابیب کا مالیاتی مرکز، وزارتِ دفاع، وزارتِ معیشت، تل نوف ایئرپورٹ، حیفہ کے مختلف علاقے، غزہ کے قریب سمندر میں گیس کا پلیٹ فارم، وغیرہ شامل ہیں نیز دونوں ممالک کے ایک دوسرے پر وحشت ناک تابڑ توڑ حملے جاری ہیں۔ جس سے پورے خطے میں ایک مکمل جنگ کی صورت بنتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایران پہلے ہی شام، لبنان اور عراق میں اسرائیلی مفادات کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتا ہے اور اسرائیلی حملے نے ان مزاحمتی بلاکس کو مزید متحد کر دیا ہے۔

    امریکہ اس تمام صورتِ حال میں اپنے دوہرے معیار کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایک طرف وہ دنیا بھر میں قانون، امن اور جمہوریت کا علمبردار بننے کا دعویدار ہے اور دوسری طرف ایک ایسے اتحادی کی پشت پناہی کر رہا ہے جو نہ صرف فلسطینیوں، بلکہ اب ایرانیوں کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔ اگر ایران نے اپنے دفاع میں جوابی کارروائیاں یونہی جاری رکھیں، تو امریکہ اسے "دہشت گردی" قرار دے کر ایران کے خلاف مزید پابندیاں اور ممکنہ عسکری کارروائیاں شروع کر سکتا ہے۔ اس طرزِ عمل کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ کشیدگی کسی بھی وقت عالمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتی ہے، جس کے نتائج پوری دنیا بھگتے گی۔

    اسرائیلی حملے کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں نہ صرف ایران بلکہ شامی حکومت، حزب اللہ اور یمن کے انصار اللہ گروہ نے بھی اپنی تیاریوں اور دفاعی کارروائیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ اسرائیل کی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر غیرمعمولی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ ایران کے جوابی حملوں کی تیزی کے بعد اسرائیل کی فوج مسلسل ہائی الرٹ پر ہے اور وہ عوام کو زیر زمین پناہ گاہوں میں جانے کی مشقیں کرا رہی ہے۔ یہ سب اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسرائیل خود بھی جانتا ہے کہ اس کا جنگی جنون اسے تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ایران پر حالیہ حملے نے اسرائیل کے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، چاہے اس کے نتائج پورے خطے کے لیے کتنے ہی بھیانک کیوں نہ ہوں۔

    یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب اسرائیل داخلی طور پر بھی سیاسی بحران سے دوچار ہے۔ نیتن یاہو کی حکومت سخت عوامی دباؤ میں ہے، عدالتی اصلاحات کے نام پر بغاوت کی سی کیفیت موجود ہے اور بین الاقوامی سطح پر بھی اسرائیل کی ساکھ کو شدید دھچکا لگا ہے۔ ایران پر حملہ، داخلی بحران سے توجہ ہٹانے اور اسرائیلی عوام میں جنگی جنون کو ہوا دینے کی کوشش ہے۔ لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جب بھی کسی ریاست نے بیرونی جنگ کے ذریعے داخلی بحران کو دبانے کی کوشش کی، تو وہ جلد یا بدیر تباہ ہوگئی۔

    اگر عالمی برادری نے ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کو محض ایک اور معمول کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کیا، تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہوگی۔ اب خطرناک جنگ چھڑ چکی ہے لہذا اگر بظاہر اس خوفناک جنگ کو محدود سمجھ کر ہلکا لیا تو اس کے اثرات لامحدود ہو سکتے ہیں۔ پورا خطہ آتش فشاں بن سکتا ہے۔ چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں پہلے ہی اس بڑھتی ہوئی کشیدگی پر اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں اور اگر یہ کشیدگی خلیجی ریاستوں تک پھیل گئی تو عالمی معیشت کو بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔

    اس تمام صورتحال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ و اسرائیل کا یہ جنگی جنون، اب محض عسکری حد تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ ایک عالمی نظریاتی تصادم میں بدل رہا ہے۔ طاقت، بالادستی، وسائل کی لوٹ مار اور مذہبی و تہذیبی تسلط کا تصادم۔ ایران پر حملہ اس بات کی علامت ہے کہ اسرائیل اب خطے کے کسی بھی ملک کے وجود کو بھی چیلنج کرنے سے دریغ نہیں کرے گا اور امریکہ اس چیلنج کا ضامن بن کر اقوامِ متحدہ، بین الاقوامی قانون اور عالمی انصاف کے تمام اداروں کی ساکھ کو مٹی میں ملا رہا ہے۔

    لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا اس بڑھتے ہوئے جنگی جنون کے خلاف ایک آواز بنے۔ ایران پر حملے کے بعد اگر عالمی طاقتیں خاموش رہیں تو کل کسی اور ملک کی باری ہوگی۔ اس جنگ کو روکنے کے لیے نہ صرف عالمی ضمیر کو بیدار کرنا ہوگا بلکہ اقوامِ متحدہ، عالمی عدالت انصاف اور عالمی میڈیا کو بھی اسرائیل و امریکہ کی کھلی جارحیت کے خلاف عملی اقدام اٹھانا ہوگا۔ ورنہ آنے والا وقت صرف مشرقِ وسطیٰ نہیں بلکہ پوری انسانیت کو خاک و خون میں نہلا دے گا۔