Wednesday, 09 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Jadeed Pesh Aamda Masail e Zakat

    Jadeed Pesh Aamda Masail e Zakat

    اسلام ایک دین فطرت ہے اور اس کی تعلیمات ہر زمانے اور ہر معاشرتی حالت کے مطابق قابلِ عمل ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں دین اسلام نے ایسی بنیادی تعلیمات فراہم کی ہیں جنہیں اصول و قواعد کے تحت جدید زمانے کے مسائل کے حل کے لیے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ ان اصولوں میں "قواعد فقہیہ" کی اہمیت بہت زیادہ ہے جو کہ اجتہاد اور مسائل کی تعبیر و تشریح کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔

    زکٰوۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک ہے جو کہ ایک مالی عبادت ہے اور مسلمان پر شرائط پوری ہونے کی صورت میں فرض کی جاتی ہے۔ تاہم، موجودہ دور میں زکٰوۃ سے متعلق کچھ نئے مسائل پیش آئے ہیں جن کا حل قواعد فقہیہ کی روشنی میں تلاش کرنا ضروری ہے۔ اس تحقیقی مطالعہ میں ہم ان جدید مسائل کا تجزیہ کریں گے اور دیکھیں گے کہ حالات و زمانہ کی رعایت سے زکٰوۃ کے مسائل کو کیسے حل کیا جا سکتا ہے۔

    زکٰوۃ کی اہمیت اور مقصد:

    زکٰوۃ کا بنیادی مقصد معاشرے میں غربت کا خاتمہ اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں زکٰوۃ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا:

    "خُذُ مِنُ أَمُوَالِهِمُ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمُ وَتُزَكِّيهِم بِهَا" (سورۃ التوبہ: 103)

    ترجمہ: "ان کے مالوں میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کر دے اور ان کو بڑھا دے"۔

    اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زکٰوۃ نہ صرف فرد کی معاشی صفائی کرتی ہے بلکہ معاشرتی بہتری کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ زکٰوۃ کی شرعی حیثیت اور اس کے اہم مقاصد کے ساتھ ساتھ، جدید زمانے میں معاشرتی اور اقتصادی تبدیلیوں کے باعث نئے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جن کے حل کے لیے فقہاء نے قواعد فقہیہ کا سہارا لیا۔

    قواعد فقہیہ اور ان کی اہمیت:

    قواعد فقہیہ وہ اصول ہیں جو فقہاء نے اسلامی احکام کی تفہیم، تعبیر اور جدید مسائل کے حل کے لیے وضع کیے ہیں۔ یہ اصول قرآن و سنت سے اخذ شدہ ہیں اور انہیں حالات و زمانہ کی رعایت سے مسائل کو حل کرنے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

    1۔ قاعدہ: "الأمور بمقاصدها" (کاموں کا دارومدار ان کے مقاصد پر ہے)

    یہ قاعدہ یہ اصول فراہم کرتا ہے کہ کسی بھی عمل کی حیثیت اس کے مقصد سے جانچی جائے گی۔ زکٰوۃ کے معاملے میں، اگر کسی جدید مالی ذریعہ سے دولت پیدا ہوتی ہے تو اس کی نیت اور مقصد کو مدنظر رکھ کر زکٰوۃ واجب کی جائے گی۔

    2۔ قاعدہ: "لا ضرر ولا ضرار" (نہ نقصان پہنچاؤ اور نہ نقصان سہو):

    اس قاعدے کی روشنی میں، زکٰوۃ کی وصولی اور تقسیم میں ایسے طریقوں سے بچنا ضروری ہے جو کسی فریق کو نقصان پہنچا سکتے ہوں۔ مثلاً، اگر کسی جدید معاشی نظام میں کسی پر زکٰوۃ کی ادائیگی کا بوجھ غیر معمولی حد تک بڑھ جائے تو اس قاعدے کی رعایت کرتے ہوئے فقہاء نرمی کی گنجائش دے سکتے ہیں۔

    3۔ قاعدہ: "المشقة تجلب التيسير" (مشقت آسانی کو لے آتی ہے):

    یہ قاعدہ یہ اصول فراہم کرتا ہے کہ جب کسی پر سختی یا مشقت ہو تو شریعت آسانی کا راستہ فراہم کرتی ہے۔ اس اصول کی بنیاد پر جدید مسائل جیسے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت، اسٹاک مارکیٹ یا کرپٹو کرنسی سے حاصل شدہ آمدنی پر زکٰوۃ کے تعین میں نرمی دی جا سکتی ہے۔

    احکام شریعہ میں حالات و زمانے کی رعایت کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت عمر بن خطابؓ نے اپنے دور خلافت میں مولفہ القلوب (جن کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کیا جاتا تھا) کو زکٰوة کی ادائیگی روک دی تھی۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ ابتدائی دور میں، اسلام کے دشمنوں اور نومسلموں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے ان لوگوں کو زکٰوة میں سے حصہ دیا جاتا تھا، تاکہ وہ اسلام کو قبول کریں یا اسلام کی مدد کریں۔ قرآن کریم کی سورہ التوبہ (9: 60) میں مولفہ القلوب کو زکٰوة کے مستحقین میں شامل کیا گیا ہے۔

    جب حضرت عمرؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے دیکھا کہ اسلام اب مضبوط اور غالب ہو چکا ہے اور اب مزید کسی کو زکٰوة کی اس غرض سے دینے کی ضرورت نہیں رہی کہ وہ اسلام قبول کرے یا اس کی مدد کرے۔ چنانچہ انہوں نے مولفہ القلوب کو زکٰوة دینے کا سلسلہ روک دیا۔ حضرت عمر کا یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام کی ضروریات کے مطابق حالات اور فیصلوں میں تبدیلی کی جا سکتی ہے، جب تک کہ وہ شرعی حدود میں رہیں۔

    اسی طرح سے "وفی الرقاب" قرآن مجید کی سورہ التوبہ (9: 60) میں زکٰوة کے مستحقین میں سے ایک اہم طبقہ ہے۔ "رقاب" کا لفظ عربی میں غلاموں اور قیدیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور اس آیت کے تحت "وفی الرقاب" کا مطلب وہ لوگ ہیں جنہیں آزادی دلانے کے لیے زکٰوة دی جا سکتی ہے۔ ابتدائی اسلامی دور میں، یہ حکم غلاموں کو آزادی دلانے اور انہیں خرید کر آزاد کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔

    جدید دور میں، جہاں غلامی کا روایتی تصور عملاً ختم ہو چکا ہے، "وفی الرقاب" کی نئی تعبیر کے حوالے سے علماء کی آراء میں وسعت پیدا ہوئی ہے۔ جدید تعبیر کے مطابق، اس حکم کا اطلاق مختلف قسم کی غلامی یا قید کی حالتوں پر ہو سکتا ہے، جیسے:

    1۔ قرض کے بوجھ تلے دبے افراد:

    وہ لوگ جو قرض کی وجہ سے قید میں ہوں یا مالی مشکلات کی بنا پر اپنی آزادی اور عزت کھو چکے ہوں، انہیں زکٰوة کی مدد سے آزاد کرایا جا سکتا ہے۔

    2۔ جبری مشقت یا انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد:

    آج کے دور میں انسانوں کی اسمگلنگ اور جبری مشقت جیسے مسائل بھی "رقاب" کے جدید معنی میں شامل ہو سکتے ہیں۔ زکٰوة کا استعمال ایسے افراد کی آزادی کے لیے کیا جا سکتا ہے جو انسانی اسمگلنگ یا جبری مزدوری کا شکار ہوں۔

    3۔ قیدیوں کی رہائی:

    وہ لوگ جو مالی جرمانے یا دیت کے بوجھ کی وجہ سے قید میں ہوں اور ان کی رہائی کے لیے مالی مدد کی ضرورت ہو، انہیں زکٰوة سے مدد فراہم کی جا سکتی ہے۔

    اس طرح، "وفی الرقاب" کی تعبیر صرف جسمانی غلامی تک محدود نہیں بلکہ اسے جدید معاشرتی مسائل اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے بھی وسیع کیا گیا ہے۔ یہ زکٰوة کے جامع اور انسانیت نواز اصول کو اجاگر کرتا ہے جو ہر دور میں قابلِ اطلاق ہیں۔

    جدید مالیاتی نظام اور زکٰوۃ کے مسائل:

    جدید دور میں مالیاتی نظام میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں جنہوں نے زکٰوۃ کے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ ذیل میں چند اہم مسائل اور ان کے قواعد فقہیہ کی روشنی میں حل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

    1۔ کرپٹو کرنسی پر زکٰوۃ:

    کرپٹو کرنسی جیسے بٹ کوائن اور ایتھیریئم نے مالیاتی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ کرپٹو کرنسی کی قانونی حیثیت مختلف ممالک میں مختلف ہے اور اس پر زکٰوۃ کے مسئلے پر علماء کے درمیان اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔

    قواعد فقہیہ کی روشنی میں، کرپٹو کرنسی کو مالِ تجارت سمجھا جا سکتا ہے اور اس پر زکٰوۃ اسی طرح واجب ہو سکتی ہے جیسے عام تجارت پر ہوتی ہے۔ قاعدہ "الأمور بمقاصدها" کے تحت اگر کرپٹو کرنسی کا مقصد سرمایہ کاری اور منافع کمانا ہے، تو اس پر زکٰوۃ واجب ہوگی۔

    2۔ اسٹاک مارکیٹ پر زکٰوۃ:

    جدید دور میں اسٹاک مارکیٹ ایک اہم ذریعہ بن چکی ہے جس سے لوگ دولت کما رہے ہیں۔ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر زکٰوۃ کے تعین کا مسئلہ بھی موجود ہے۔

    فقہاء نے اسٹاک کو مالِ تجارت کی طرح قرار دیا ہے اور اس پر زکٰوۃ واجب قرار دی ہے۔ قواعد فقہیہ کی روشنی میں، قاعدہ "الأمور بمقاصدها" کے تحت اگر سرمایہ کاری کا مقصد منافع کمانا ہو، تو اس پر زکٰوۃ واجب ہوگی۔ اسٹاک کی موجودہ مارکیٹ ویلیو پر زکٰوۃ دی جائے گی۔

    3۔ انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت پر زکٰوۃ:

    انٹرنیٹ کے ذریعے تجارت یا آن لائن بزنس جدید دور میں عام ہو چکا ہے۔ اس قسم کی تجارت پر زکٰوۃ کے تعین کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔

    قواعد فقہیہ کے مطابق، انٹرنیٹ تجارت کو بھی عام تجارت کی طرح سمجھا جائے گا اور اس پر زکٰوۃ اسی اصول کے تحت واجب ہوگی۔ قاعدہ "الأمور بمقاصدها" کے تحت اگر آن لائن بزنس سے نفع کمانا مقصود ہو، تو اس پر زکٰوۃ عائد ہوگی۔

    4۔ جدید پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری پر زکٰوۃ:

    پراپرٹی اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری بھی آج کل عام ہوگئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس پر زکٰوۃ واجب ہے یا نہیں؟

    فقہاء کی رائے کے مطابق، اگر پراپرٹی یا رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری کے لیے خریدی گئی ہو تو اس پر زکٰوۃ واجب ہوگی۔ قاعدہ "الأمور بمقاصدها" کے تحت اگر پراپرٹی سے نفع کمانا مقصود ہو، تو اس پر زکٰوۃ عائد ہوگی۔ اگر پراپرٹی ذاتی استعمال کے لیے ہو تو اس پر زکٰوۃ نہیں ہوگی۔

    5۔ قرضوں پر زکٰوۃ:

    قرض دینا اور لینا جدید مالیاتی نظام کا ایک حصہ بن چکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرضوں پر زکٰوۃ واجب ہے یا نہیں؟

    فقہاء کے مطابق، اگر قرض وصول کیا جا چکا ہو اور وہ قابلِ وصول ہو، تو اس پر زکٰوۃ واجب ہے۔ تاہم، اگر قرض کی واپسی کی امید کم ہو یا وہ مشتبہ ہو، تو اس پر زکٰوۃ اس وقت واجب ہوگی جب وہ وصول ہو جائے۔

    6۔ غیر منافع بخش اداروں اور فلاحی تنظیموں کے فنڈز پر زکٰوۃ:

    جدید دور میں غیر منافع بخش ادارے اور فلاحی تنظیمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تنظیموں کے فنڈز پر زکٰوۃ واجب ہے یا نہیں؟

    قواعد فقہیہ کی روشنی میں، اگر فلاحی تنظیموں کے فنڈز صدقہ یا خیرات کے لیے مخصوص ہوں تو ان پر زکٰوۃ واجب نہیں ہوگی۔ تاہم، اگر فنڈز سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیے جا رہے ہوں تو ان پر زکٰوۃ واجب ہوگی۔

    جدید معاشرتی تبدیلیاں اور زکٰوۃ:

    جدید دور میں معاشرتی تبدیلیوں کے باعث بھی زکٰوۃ کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً، عالمی اقتصادی بحران، مہنگائی اور بے روزگاری کے مسائل نے زکٰوۃ کے جدید مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس حوالے سے فقہاء کو موجودہ حالات کا جائزہ لے کر اجتہاد کرنا پڑتا ہے۔

    1۔ عالمی اقتصادی بحران اور زکٰوۃ:

    عالمی اقتصادی بحران کے باعث بہت سے افراد معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ ایسے حالات میں سوال یہ ہے کہ زکٰوۃ کے معاملے میں کیا اصول اپنایا جائے؟

    قواعد فقہیہ کی روشنی میں، عالمی اقتصادی بحران کے دوران زکٰوۃ کی ادائیگی اور تقسیم میں نرمی اور سہولت فراہم کی جا سکتی ہے۔ قاعدہ "المشقة تجلب التيسير" کے تحت، اگر کوئی شخص مالی بحران کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کر رہا ہو تو زکٰوۃ کی ادائیگی میں رعایت دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح، زکٰوۃ کی تقسیم میں ایسے افراد کو ترجیح دی جا سکتی ہے جو اس بحران سے زیادہ متاثر ہیں۔

    2۔ مہنگائی اور زکٰوۃ:

    مہنگائی ایک اہم مسئلہ ہے جو دنیا بھر میں بہت سے افراد کو متاثر کر رہی ہے۔ مہنگائی کے دور میں زکٰوۃ کی مقدار اور اس کی ادائیگی کے طریقوں پر نظرثانی ضروری ہو جاتی ہے۔

    قواعد فقہیہ کی روشنی میں، قاعدہ "لا ضرر ولا ضرار" کے تحت زکٰوۃ کے نصاب اور مقدار کو موجودہ مالیاتی حالات کے مطابق ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے تاکہ نہ زکٰوۃ دینے والے کو غیر ضروری بوجھ ہو اور نہ ہی زکٰوۃ لینے والے کو ضرورت سے کم ملے۔ اس ضمن میں اسلامی معیشت کے ماہرین اور علماء کا کردار بہت اہم ہے کہ وہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے زکٰوۃ کے نصاب اور ادائیگی کے اصولوں کو دورِ حاضر کی معیشتی صورتحال کے مطابق مرتب کریں۔

    3۔ بے روزگاری اور زکٰوۃ:

    بے روزگاری کی شرح میں اضافے نے بہت سے لوگوں کو مالی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ زکٰوۃ کا مقصد غریب اور نادار افراد کی مدد کرنا ہے، اس لیے بے روزگار افراد زکٰوۃ کے مستحقین میں شامل ہیں۔

    قواعد فقہیہ کے تحت، قاعدہ "ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب" (جس کے بغیر واجب مکمل نہ ہو، وہ بھی واجب ہے) کی روشنی میں، بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے کے لیے زکٰوۃ کی رقم سے ایسے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جو انہیں مستقل طور پر مالی خود کفالت کی جانب لے جائیں۔ اس طرح زکٰوۃ کی تقسیم کو زیادہ مؤثر اور پائیدار بنایا جا سکتا ہے۔

    زکٰوۃ کے جدید مسائل کا حل اور اجتہاد:

    اسلام میں اجتہاد کو ہمیشہ سے ایک اہم حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ جدید مسائل کے حل کے لیے ایک لازمی ذریعہ ہے۔ فقہاء نے ہمیشہ نئے مسائل کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جدید دور کے مالی اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے اجتہاد کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کی جا رہی ہے۔

    اجتہاد کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی قوانین کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق نافذ کیا جائے تاکہ معاشرتی اور اقتصادی مسائل کو شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کیا جا سکے۔ زکٰوۃ کے جدید مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی اجتہاد کی ضرورت ہے تاکہ اس مالی عبادت کا اصل مقصد یعنی غربت کا خاتمہ اور دولت کی منصفانہ تقسیم حاصل ہو سکے۔

    زکٰوۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور اس کا مقصد معاشرتی انصاف اور دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔ جدید دور میں مالیاتی نظام اور معاشرتی تبدیلیوں کے باعث زکٰوۃ کے حوالے سے نئے مسائل سامنے آئے ہیں۔ ان مسائل کا حل قواعد فقہیہ اور اجتہاد کی روشنی میں ممکن ہے۔

    قواعد فقہیہ جیسے "الأمور بمقاصدها"، "المشقة تجلب التيسير" اور "لا ضرر ولا ضرار" وغیرہ، زکٰوۃ کے جدید مسائل کو حل کرنے میں اہم رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ کرپٹو کرنسی، اسٹاک مارکیٹ، آن لائن تجارت، پراپرٹی سرمایہ کاری اور دیگر جدید مالیاتی ذرائع پر زکٰوۃ کے تعین کے لیے ان اصولوں کی مدد سے فقہاء نے مسائل کا حل پیش کیا ہے۔

    معاشرتی مسائل جیسے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور عالمی اقتصادی بحران کے دوران زکٰوۃ کی ادائیگی اور تقسیم میں نرمی اور رعایت دی جا سکتی ہے تاکہ اس مالی عبادت کا مقصد پورا ہو اور معاشرہ اقتصادی استحکام کی طرف بڑھ سکے۔ جدید دور میں زکٰوۃ کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اجتہاد کا کردار انتہائی اہم ہے اور علماء و فقہاء کو ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے موجودہ حالات کے مطابق زکٰوۃ کے قوانین کو ترتیب دینا چاہیے۔

    اس تحقیقی مطالعے کا مقصد زکٰوۃ کے جدید مسائل کا تفصیلی جائزہ اور قواعد فقہیہ کی روشنی میں ان مسائل کا حل فراہم کرنا تھا، تاکہ موجودہ دور کے مالیاتی نظام اور معاشرتی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے زکٰوۃ کی صحیح تطبیق کی جا سکے۔