Saturday, 12 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Iran Israel Jang

    Iran Israel Jang

    13 جون 2025 کو علی الصبح اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک غیر معمولی اور وسیع پیمانے پر فضائی حملہ کیا، جسے آپریشن "رائزنگ لائن" کا نام دیا گیا۔ اس کارروائی میں اسرائیل کے تقریباً 200 لڑاکا طیاروں نے ایران کے مختلف حساس مقامات پر حملے کیے، جن میں جوہری تنصیبات، فوجی اڈے، بیلسٹک میزائل کے ذخائر اور پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈ سینٹرز شامل تھے۔ حملے کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے ہوا، جب تہران، نطنز، اصفہان، کھونداب، کرمانشاہ، خرم‌آباد اور دیگر شہروں میں دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔

    سب سے زیادہ نقصان نطنز اور اصفہان کی جوہری تنصیبات کو پہنچا۔ اسرائیلی ذرائع کے مطابق نطنز میں یورینیم افزودگی کا مرکز مکمل طور پر تباہ نہیں ہوا، مگر اس کی استعداد کو شدید نقصان پہنچایا گیا ہے۔ ایرانی حکام نے ابتدائی طور پر اس حملے کی شدت کو چھپانے کی کوشش کی، مگر غیر ملکی میڈیا، آزاد سیٹلائٹ تصاویر اور IAEA کے ذریعے یہ تصدیق ہوگئی کہ متعدد تنصیبات مکمل طور پر ناکارہ ہوچکی ہیں۔

    اس حملے میں پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر جنرل حسین سلامی، ایرانی مسلح افواج کے سربراہ جنرل محمد باقری، ایرواسپیس فورس کے سربراہ امیر علی حاجی‌زادہ اور سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے کئی اہم اراکین ہلاک ہوگئے۔ علاوہ ازیں، معروف جوہری سائنسدان محمد مہدی تہرانچی اور سابق AEOI سربراہ فریدون عباسی بھی مارے گئے۔ ان کی ہلاکتیں ایران کے سٹریٹیجک پروگرام کے لیے زبردست دھچکا ہیں۔

    ایران نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 100 ڈرون اسرائیل کی طرف بھیجے، جن میں سے بیشتر کو اسرائیلی دفاعی نظام آئرن ڈوم اور ڈیویڈ سلنگ نے ناکام بنا دیا۔ ایران کی وزارتِ خارجہ نے اس حملے کو "اعلانِ جنگ" قرار دیا اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کیا۔ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ‌ای نے اسرائیل کو "دردناک انتقام" کی دھمکی دی۔

    امریکہ نے حملے میں براہ راست شمولیت سے انکار کرتے ہوئے اسے اسرائیل کا خودمختار اقدام قرار دیا، لیکن امریکی صدر نے اسرائیل کے حقِ دفاع کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔ روس اور چین نے حملے کی مذمت کی اور اسے مشرقِ وسطیٰ کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازش قرار دیا، جبکہ یورپی یونین نے تمام فریقین سے تحمل کی اپیل کی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر نے اسرائیل کے اقدام پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور دونوں فریقین پر زور دیا کہ وہ کشیدگی میں اضافے سے گریز کریں۔

    عالمی مالیاتی منڈیوں میں اس حملے کے بعد سخت ردعمل دیکھا گیا۔ خام تیل کی قیمت میں 8 فیصد تک اضافہ ہوا، جبکہ سونے کی قیمتیں بھی بڑھ گئیں۔ بین الاقوامی فضائی سفر متاثر ہوا کیونکہ ایران، عراق اور دیگر ہمسایہ ممالک نے اپنے فضائی حدود عارضی طور پر بند کر دیں۔

    اسرائیلی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ حملہ کئی ماہ کی تیاری، انٹیلی جنس معلومات اور Mossad کے آپریشنز کی مدد سے انجام پایا۔ ان کے مطابق ایران کے جوہری پروگرام کو کم از کم پانچ سال پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ تاہم، بعض تجزیہ کار اس سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ایران جوابی طور پر جوہری اسلحہ کی تیاری میں تیزی لا سکتا ہے، کیونکہ اس حملے نے ایران کے دفاعی احساسِ تحفظ کو مکمل طور پر مجروح کیا ہے۔

    خطے میں موجود ایران نواز گروہوں جیسے حزب اللہ، حوثی اور عراقی ملیشیاؤں نے اسرائیل کے خلاف بیان بازی تو کی ہے، مگر کسی بڑی عسکری کارروائی سے فی الحال گریز کیا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود، ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اگر ایران کی طرف سے بھرپور جوابی حملہ ہوا یا اسرائیل نے مزید کارروائی کی، تو مشرقِ وسطیٰ ایک بڑی جنگ کی طرف جا سکتا ہے۔

    ایران کے اندر بھی صورتحال غیر یقینی ہے۔ عوامی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ تہران، مشہد اور قم میں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ ایرانی حکام نے کئی اعلیٰ فوجی اور جوہری عہدیداروں کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے انہیں شہداء قرار دیا اور ملک گیر سوگ کا اعلان کیا۔

    دوسری جانب، اسرائیلی حکومت نے اپنے شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ محفوظ پناہ گاہوں میں چلے جائیں اور کسی بھی ممکنہ ایرانی جوابی حملے کے لیے تیار رہیں۔ اسرائیل نے اپنی شمالی اور جنوبی سرحدوں پر فوجی نقل و حرکت تیز کر دی ہے اور تمام ریزرو فورسز کو الرٹ کر دیا ہے۔

    ایران میں جاری صورتحال کے پیش نظر، اسرائیل نے اپنی تجارتی پروازوں کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے اور بیرونِ ملک موجود اپنے شہریوں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے۔ امریکہ نے بھی خلیجی ممالک میں موجود اپنے فوجی اڈوں کو ہائی الرٹ کر دیا ہے۔ عرب خلیجی ریاستیں اس کشیدگی سے شدید خوفزدہ ہیں، کیونکہ ایک مکمل جنگ کی صورت میں ان کے توانائی کے شعبے اور بنیادی ڈھانچے کو شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

    عالمی سطح پر سفارتی کوششیں تیز ہوگئی ہیں۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، ترکی، قطر، عمان اور چین متحرک ہوگئے ہیں کہ کسی طرح یہ کشیدگی قابو میں رہے۔ سفارتی حلقے یہ بھی تجزیہ کر رہے ہیں کہ آیا اسرائیل نے یہ حملہ امریکی اجازت کے بغیر کیا، یا واشنگٹن اس حملے میں خاموش تائید کا شریک تھا۔

    یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا یہ واقعہ تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہے۔ اگرچہ فوری طور پر کوئی عالمی جنگ شروع نہیں ہوئی، مگر جس پیمانے پر حملہ ہوا اور ایران کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، وہ مشرقِ وسطیٰ کو ایک طویل اور خونریز جنگ میں جھونکنے کے لیے کافی ہے۔ ایران کے جوابی حملے کی نوعیت، شدت اور دائرہ کار آئندہ دنوں کے حالات کو متعین کرے گا۔

    فی الحال دنیا ایک خطرناک دوراہے پر کھڑی ہے۔ اگر ایران نے تحمل کا مظاہرہ کیا تو شاید حالات قابو میں رہیں، مگر اگر وہ غصے میں آ کر مکمل فوجی ردعمل دیتا ہے، تو نہ صرف خطہ، بلکہ دنیا کے بڑے حصے متاثر ہو سکتے ہیں۔ سرمایہ کاری، توانائی کی ترسیل، عالمی سپلائی چین اور امن و امان کے حالات پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

    یہ حملہ مشرقِ وسطیٰ کے توازنِ قوت کو بدلنے کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے، یا اگر عالمی سفارت کاری نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو یہ ایک بڑے المیے کی ابتدا ہو سکتی ہے۔ دنیا کی نظریں اب تہران، تل ابیب، واشنگٹن اور نیویارک میں ہونے والے فیصلوں پر مرکوز ہیں۔