اسلام ایک ایسا دین ہے جو نہ صرف فرد کی اصلاح پر زور دیتا ہے بلکہ معاشرتی اور بین الاقوامی تعلقات کے اصول بھی واضح کرتا ہے۔ دینِ اسلام کے اصولِ جنگ و امن نہ صرف الہامی ہدایات پر مبنی ہیں بلکہ سیرتِ رسول ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں ان اصولوں کا عملی مظاہرہ بھی سامنے آتا ہے۔ اسلام میں جنگ کوئی محبوب یا پسندیدہ عمل نہیں بلکہ آخری حد کے طور پر اس کی اجازت دی گئی ہے جب ظلم حد سے بڑھ جائے، حق کی آواز کو دبایا جائے یا کمزوروں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جائے۔ چنانچہ آج جب دنیا مختلف جنگوں، تنازعات اور سیاسی کشمکش کا شکار ہے، اسلام کا قانونِ جنگ و صلح ایک متوازن، عادلانہ اور انسان دوست نظام کے طور پر سامنے آتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست کے قیام کے بعد کئی ایسی جنگیں لڑیں جو دراصل دفاعی نوعیت کی تھیں۔ ان جنگوں کا مقصد کبھی بھی اقتدار، زمین یا دولت کا حصول نہ تھا بلکہ دین کے ماننے والوں کو ظلم سے نجات دلانا، ان کے ایمان کو بچانا اور انسانی وقار کو قائم رکھنا تھا۔ غزوہ بدر، احد، خندق اور فتح مکہ جیسے تاریخی واقعات گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ صلح کو فوقیت دی اور جنگ کو آخری چارہ کار کے طور پر اپنایا۔ مثال کے طور پر، صلح حدیبیہ بظاہر مسلمانوں کے لیے ایک کمزور معاہدہ نظر آتا تھا، لیکن بعد کے حالات نے ظاہر کیا کہ یہ ایک دور اندیشی پر مبنی فیصلہ تھا جس نے اسلامی دعوت کے دروازے کھول دیے۔
اگرچہ قرآن حکیم میں مسلمانوں کو ہر وقت جنگی تیاری رکھنے کی واضح ہدایت دی گئی ہے، لیکن اس کا مقصد جارحیت نہیں بلکہ دفاع، طاقت کا مظاہرہ اور دشمن کو باز رکھنا ہے۔
قرآنی حکم: وَأَعِدُّوا لَهُم مَّا اسُتَطَعُتُم مِّن قُوَّةٍ وَمِن رِّبَاطِ الُخَيُلِ تُرُهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمُ۔۔ سورۃ الانفال (8: 60)
ترجمہ: "اور (اے مسلمانو!) تم ان کے مقابلے کے لیے ہر ممکن طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو تاکہ تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو مرعوب کر سکو۔۔ "
مختصر نکات:
1۔ تیاری کا حکم ہر وقت ہے، جنگ ہو یا نہ ہو۔
2۔ طاقت کا مقصد صرف دفاع اور دشمن کو خوف زدہ رکھنا ہے، حملہ نہیں۔
3۔ رباط الخیل اُس وقت کی جنگی سواری (آج کے دور میں جدید اسلحہ، دفاعی نظام وغیرہ) کی علامت ہے۔
قرآن حکیم کی روشنی میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ہمیشہ چوکس، منظم اور تیار رہیں، تاکہ کوئی دشمن جرات نہ کرے اور امن قائم رہے۔ یہ حکم دہشت نہیں، طاقت کے توازن کے لیے ہے۔
رسول اللہ ﷺ کے جنگی ہتھیاروں، خصوصاً تلواروں کا ایک روان اور مربوط مختصر جائزہ لیا جائے تو معلوم چلتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس مختلف مواقع پر استعمال کی گئی نو (9) مشہور تلواریں تھیں، جن کے نام تاریخ و سیرت کی کتب اور ترک میوزیم ریکارڈز میں محفوظ ہیں۔ ان میں سے بعض تلواریں آپ ﷺ کو وراثت میں ملیں، کچھ تحفے میں دی گئیں اور کچھ جنگوں میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئیں۔
آپ ﷺ کی پہلی تلوار "المأثور" تھی، جو آپ کو اپنے والد حضرت عبد اللہؓ سے ورثے میں ملی۔ یہ فولادی بلیڈ اور سادہ ساخت کی حامل تھی، جو بعد میں عثمانی دور میں خوبصورت سونے اور قیمتی پتھروں سے آراستہ کی گئی۔ یہ تلوار آج بھی استنبول کے مشہور ٹوپکاپی میوزیم میں محفوظ ہے۔
دوسری تلوار "العضب" تھی، جو صحابی حضرت سعد بن عبادہؓ نے غزوہ بدر سے پہلے آپ ﷺ کو تحفے میں دی۔ یہ سادہ، خمدار تلوار تھی جسے آپ ﷺ نے بدر اور احد میں استعمال کیا اور کبھی حضرت ابو دجانہؓ کے سپرد بھی کیا۔ یہ واحد تلوار ہے جو مصر کے قاہرہ شہر میں واقع مسجدِ حسین میں موجود ہے۔
سب سے مشہور تلوار "ذوالفقار" ہے، جو غزوۂ بدر کے بعد آپ کو مالِ غنیمت میں ملی اور پھر حضرت علیؓ کو عطا کی گئی۔ اس تلوار کا نام آج بھی اسلامی تاریخ میں بہادری اور حق کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مشہور قول "لا سیف الا ذوالفقار۔۔ " اسی تلوار کے حوالے سے معروف ہے، اگرچہ اس کی اصل شکل اور دو نوکی ساخت پر اختلاف موجود ہے۔
چوتھی تلوار "البتار" یہودی قبیلہ بنو قینقاع سے حاصل کی گئی۔ اس پر مختلف انبیائے کرامؑ کے نام کندہ ہیں اور حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں جالوت کے قتل کی منظر کشی بھی نقش ہے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور بھاری تلوار "حتف" ہے، جو قدرے بڑی اور وزنی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت علیؓ کے استعمال میں بھی رہی۔
ایک منفرد تلوار "قلعی" ہے، جس کا بلیڈ لہروں دار اور شعلہ نما ہے۔ اس پر عربی عبارت کندہ ہے: "یہ اللہ کے نبی محمد ﷺ کے خاندان کی تلوار ہے"۔
اسی طرح ایک لمبی اور سیدھی تلوار "الرسوب" بھی آپ کی ملکیت رہی، جس پر سنہری خطاطی اور نام کندہ ہیں، جن میں حضرت جعفر الصادق کا ذکر بھی شامل ہے۔
تلوار "المخذم" شام کی ایک مہم میں حاصل ہوئی اور حضرت علیؓ کے ذریعے آپ ﷺ کے پاس پہنچی۔
آخر میں، ایک ہلکی اور علامتی تلوار "القضیب" ہے، جسے آپ ﷺ نے جنگ کے لیے نہیں بلکہ عمومی علامت یا سفر میں اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر آپ نے یہی تلوار ساتھ رکھی تاکہ لوگوں کو یہ پیغام جائے کہ آج کا دن معافی اور رحمت کا دن ہے، نہ کہ انتقام کا۔
ان تمام تلواروں میں سے بیشتر آج بھی استنبول کے ٹوپکاپی میوزیم میں محفوظ ہیں اور تاریخِ اسلام کا زندہ حوالہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی نبوی زندگی میں کل 27 غزوات (یعنی جنگی مہمات جن میں آپ ﷺ بنفسِ نفیس شریک ہوئے) میں شرکت فرمائی۔ ان 27 غزوات میں سے تقریباً 9 غزوات میں واقعی قتال (جنگ) پیش آیا، جبکہ باقی غزوات میں یا تو جنگ نہیں ہوئی، یا دشمن مقابلے سے پہلے ہی بھاگ گیا۔
ان کے علاوہ رسول اللہ ﷺ نے بہت سی سریّات بھی روانہ فرمائیں، جن میں آپ خود شریک نہیں ہوئے، بلکہ صحابہ کرامؓ کو مختلف فوجی مہمات پر روانہ فرمایا۔
ان 27 غزوات کے نام اور مختصر تفصیل یہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں ہونے والے 27 غزوات کے دوران مجموعی طور پر دونوں اطراف (مسلمان اور کفار/دشمنانِ اسلام) کا جانی نقصان ہر غزوے کے لحاظ سے مختلف رہا۔ ذیل میں اہم غزوات میں ہونے والے جانی نقصانات کا ایک تخمینہ پیش کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ یہ اعداد و شمار سیرت کی کتب (ابن ہشام، ابن سعد، واقدی، طبری وغیرہ) سے مستند انداز میں اخذ کیے گئے ہیں، مگر یہ حتمی نہیں بلکہ قریب ترین تاریخی تخمینے ہیں:
اہم غزوات اور جانی نقصان (مسلمانوں و دشمنوں کا)
بدر (2ھ) 14، مسلمان شہید اور 70، قریش کے مارے گئے، 70 قید ہوئے۔
اُحد (3ھ) 70 مسلمان شہید ہوئے اور 22–30 کفار مارے گئے، دشمن چونکہ میدان چھوڑ کر بھاگ گیا لہذا عسکری نقطہ نظر سے فاتح مسلمان قرار پائے۔
خندق (احزاب) (5ھ) 5–6 مسلمان شہید ہوئے اور 10–15 قریش و اتحادیوں کے مارے گئے، دشمن کی پسپائی ہوئی اور وہ بلآخر واپس لوٹ گئے۔
بنی قریظہ (5ھ) 600–900 بنو قریظہ کے مرد جنگی جرم میں قتل ہوئے (قاضی سعدؓ کا حکم)۔
خیبر (7ھ) 15–20 مسلمان شہید ہوئے 90–100 دشمنان اسلام مارے گئے، شدید مزاحمت و قلعہ بندی کے بعد بلآخر مسلمانوں کو اہم فتح نصیب ہوئی۔
حنین (8ھ) 4–12 مسلمان شہید ہوئے اور 70–100 دشمنان اسلام مارے گئے، آغاز میں مسلمانوں کو دھچکا، بعد میں فتح مقدر بنی۔
طائف (8ھ) 12 مسلمان شہید اور 10–20 دشمنان اسلام مارے گئے، طویل محاصرہ تاہم قلعہ فتح نہ ہو سکا۔
بنی المصطلق (5ھ) 1 مسلمان شہید ہوا اور 10–20 دشمنان اسلام مارے گئے اور بڑی تعداد قید ہوئی۔
مجموعی تخمینہ (27 غزوات میں):
مسلمان شہداء: تقریباً 250 کے قریب
دشمنانِ اسلام ہلاک: تقریباً 1000–1500 کے درمیان
ان اعداد میں قبائلی غداریوں، بعض سریات اور بنو قریظہ جیسے واقعات شامل کیے جائیں تو دشمنوں کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے۔
اہم نکات:
1۔ غزوات میں اکثر مسلمان کم تعداد میں ہوتے تھے، مگر ایمان، نظم اور رسول ﷺ کی قیادت ان کا سب سے بڑا سرمایہ تھا۔
2۔ رسول اللہ ﷺ نے کبھی جارحانہ جنگ کا آغاز نہیں کیا۔ تمام غزوات دفاعی یا ردِّعمل کی نوعیت کے تھے۔
3۔ جنگوں میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک، عام شہریوں کو نہ مارنے کا حکم اور مظلوموں کے حقوق کا دفاع اسلامی جنگی اخلاق کا حصہ تھا۔
غور فرمائے، پیغمبر اسلام ﷺ کی عظیم ترین قیادت میں دنیا کا واحد کامیاب ترین انقلاب کتنی کم انسانی جانوں کی بدولت رونما ہوا!
اسلام میں جنگ کی اجازت مخصوص شرائط کے تحت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ان سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں، لیکن زیادتی نہ کرو، بے شک اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا" (البقرہ: 190)۔ یہ آیت اسلامی قانونِ جنگ کی بنیاد فراہم کرتی ہے کہ مسلمان صرف انہی سے جنگ کریں گے جو ان پر جنگ مسلط کریں اور اس میں بھی اعتدال اور اخلاقی حدود کا خیال رکھا جائے گا۔ اسلام میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں، عبادت گاہوں، درختوں اور جانوروں کو نقصان پہنچانے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لشکروں کو تاکید کی کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو نہ چھیڑیں اور نہ ہی فصلوں کو جلائیں۔
اسلامی فقہاء جیسے امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے بھی جنگ و صلح کے اصولوں پر تفصیلی مباحث کیے ہیں۔ ان کے مطابق، اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ وہ صلح کو ترجیح دے، دعوتِ دین کو پھیلانے میں زبردستی سے گریز کرے اور صرف اس وقت جنگ کرے جب دفاع لازم ہو جائے۔ صلح کی دعوت دینا اور اس پر قائم رہنا اسلامی ریاست کی شان سمجھی گئی ہے، حتیٰ کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ " اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہو تو تم بھی مائل ہو جاؤ اور اللہ پر بھروسہ کرو"۔
سیرتِ نبوی ﷺ میں جنگ کے مواقع پر حسنِ اخلاق کا جو مظاہرہ ہوا، وہ اسلامی تصورِ جنگ کی روح کو آشکار کرتا ہے۔ فتح مکہ اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کو بھی عام معافی دی، حتیٰ کہ ابوسفیان جیسے سردار کو بھی امن عطا فرمایا۔ یہ جذبہ دراصل اس بات کا مظہر ہے کہ اسلام جنگ کے بجائے دلوں کو فتح کرنے پر زور دیتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: "تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے بہتر ہو"۔
تاریخِ اسلام میں خلفائے راشدین کا دور بھی اسلامی قانونِ جنگ و صلح کا عملی نمونہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اپنے لشکروں کو جو ہدایات دیں، وہ آج کے دور کے بین الاقوامی جنگی قوانین سے زیادہ اعلیٰ اور اخلاقی اقدار کی ترجمان ہیں۔ انہوں نے فرمایا: "کسی عورت کو قتل نہ کرنا، کسی بچے کو نقصان نہ پہنچانا، کھجور کے درخت نہ کاٹنا، کسی عبادت گاہ کو نقصان نہ دینا، جو لوگ تم سے جنگ نہ کریں ان کو نہ چھیڑنا"۔ حضرت عمرؓ نے بھی اپنے دور میں فوجی اصولوں اور معاہدوں کی مکمل پاسداری کی، حتیٰ کہ مفتوح علاقوں کے غیر مسلم شہریوں کو مذہبی آزادی دی گئی، ان کے معابد کو محفوظ رکھا گیا اور جزیہ کے عوض ان کی حفاظت کی ذمہ داری لی گئی۔
آج کے جدید دور میں جب عالمی سطح پر طاقت کا استعمال اکثر سیاسی مفادات، وسائل کی لوٹ مار اور نسل پرستی کے ایجنڈے پر مبنی ہوتا ہے، اسلام کا قانونِ جنگ و صلح ایک مثالی، منصفانہ اور پائیدار نظام کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ موجودہ فلسطین، لبنان، کشمیر، افغانستان، شام، یمن، عراق اور دیگر مظلوم اقوام کی حالت زار دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ یہاں پر اسلام کے ان اصولوں کی اشد ضرورت ہے جو مظلوم کی مدد، ظالم کے خلاف قیام اور امن کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔
بین الاقوامی قوانین جیسے جنیوا کنونشن، ہیگ معاہدات اور اقوامِ متحدہ کے چارٹرز آج جس اخلاقی جنگی ضابطہ اخلاق کی بات کرتے ہیں، اس کی اصل روح اسلام چودہ سو سال پہلے متعارف کرا چکا ہے۔ مثال کے طور پر، جنیوا معاہدہ قیدیوں کے حقوق کی بات کرتا ہے، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے جنگی قیدیوں کو بہترین اخلاق سے رکھا، ان کی خوراک و لباس کا خیال رکھا اور بعد میں اکثر کو بغیر فدیہ کے آزاد کر دیا۔ قرآن میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی گئی ہے: "اور وہ (نیک لوگ) قیدیوں کو کھانا کھلاتے ہیں، چاہے خود بھوکے ہوں"۔ (الدہر: 8)
اسلام کا قانونِ جنگ "جہاد" کے تصور سے منسلک ہے، لیکن یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جہاد کا مطلب ہرگز دہشت گردی، عام شہریوں کا قتل یا خوف و ہراس پھیلانا نہیں ہے۔ جہاد ایک جامع تصور ہے جس میں قلم، زبان، نفس، دعوت، دفاع اور عدل سب شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "افضل جہاد وہ ہے جو انسان اپنے نفس کے خلاف کرے"۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام میں جہاد سب سے پہلے خود کی اصلاح ہے، اس کے بعد دفاعی جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ اسلام میں خودکش حملوں، عام شہریوں کو نشانہ بنانے یا مذہب کے نام پر فساد پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآن حکیم واضح الفاظ میں فرماتا ہے: "زمین میں فساد نہ پھیلاؤ، حالانکہ تم اصلاح کرنے والے کہلاتے ہو"۔ (البقرہ: 11)
موجودہ دور میں عالمی سیاست میں جس طرح طاقتور اقوام کمزوروں پر مظالم ڈھا رہی ہیں، اسلامی اصول ان کے لیے ایک آئینہ ہیں۔ اگر عالمی طاقتیں اسلام کے قانونِ جنگ و صلح کو اپنا لیں تو دنیا میں امن، انصاف اور انسانی وقار کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی خاموشی، دوہرے معیار اور طاقتور اقوام کی من مانی سے دنیا بھر میں بغاوت اور نفرت نے جنم لیا ہے۔ ایسے میں اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات فراہم کرتا ہے جو عدل پر مبنی ہے، جس میں مظلوم کی داد رسی کی جاتی ہے اور ظالم کو روکنے کی تلقین کی جاتی ہے۔
اسلام کا قانونِ صلح بھی بے حد متوازن اور مثالی ہے۔ صلح حدیبیہ ہو یا نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ، یا یہودی قبائل سے میثاق مدینہ، ہر مقام پر رسول اللہ ﷺ نے رواداری، مساوات، باہمی احترام اور وعدہ وفائی کا عملی مظاہرہ کیا۔ معاہدات کو توڑنے والوں کے خلاف بھی صرف اتنا اقدام کیا گیا جو ضروری تھا، انتقام یا جارحیت کا کوئی مظاہرہ نہ ہوا۔ آج جب عالمی معاہدے مفادات کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، اسلام کا یہ اصول یاد رکھنا چاہیے کہ: "وعدہ خلافی منافق کی نشانی ہے"۔
نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کا قانون جنگ و صلح ایک مکمل، جامع، اخلاقی، انسان دوست اور پائیدار نظام فراہم کرتا ہے جو سیرتِ رسول ﷺ، خلفائے راشدینؓ کی تاریخ اور اسلامی فقہ میں واضح طور پر موجود ہے۔ یہ نظام نہ صرف مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک متبادل ضابطہ پیش کرتا ہے جو ظلم، ناانصافی اور دہشت گردی کے خلاف قیام کرتے ہوئے امن، محبت، انصاف اور رواداری کو فروغ دیتا ہے۔
موجودہ عالمی حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلام کے قانونِ جنگ و صلح کو حقیقی معنوں میں سمجھا جائے، مسلمانوں کو بھی جذباتیت کے بجائے علم و حکمت کے ساتھ اپنی پالیسی مرتب کرنی چاہیے اور دنیا کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اسلام امن کا مذہب ہے اور وہی دین ہے جو انسانیت کی نجات اور فلاح کا ضامن ہے۔
اگر دنیا اسلام کے ان اصولوں کو اپنائے جو رسول اللہ ﷺ نے سکھائے، تو نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام اقوامِ عالم کے لیے ایک ایسا نظام میسر آ سکتا ہے جو حقیقی معنوں میں انصاف، امن اور سلامتی کا پیامبر بن جائے۔