اسلامی تاریخ میں ہر عہد میں مسلمانوں کو اپنے عقائد، اعمال اور معاشرتی مسائل کے حل کے لیے ایک جامع اور فکری رہنمائی کی ضرورت رہی ہے۔ اسلامی احیا یا نشات ثانیہ کا تصور، جس کا مطلب مسلمانوں کے فکری، روحانی اور مادی پہلوؤں میں دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے، ہمیشہ سے اجتہاد سے مربوط رہا ہے۔ اجتہاد اسلامی قانون (فقہ) میں ایک اہم اصول ہے، جو کہ نبی اکرمﷺ اور ان کے صحابہ کے زمانے سے لے کر آج تک مسلسل مختلف دوروں میں عمل میں رہا ہے۔
اجتہاد عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ "جَھد" ہے، جس کا مطلب ہے کوشش یا محنت کرنا۔ اصطلاحی طور پر، اجتہاد سے مراد وہ عمل ہے جس میں اسلامی علماء قرآن و سنت کی روشنی میں نئے مسائل کا شرعی حل تلاش کرتے ہیں۔ یہ وہ علمی اور فکری محنت ہے جس کے ذریعے اسلام کو ہر دور کے مسائل کے ساتھ ہم آہنگ رکھا جاتا ہے۔
اجتہاد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل کے حل کے لیے قرآن و سنت کی روشنی میں، ان سے واضح ہدایات اخذ کی جائیں اور جہاں کوئی واضح رہنمائی نہ ہو، وہاں قیاس، اجماع اور دیگر اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے۔
احیا اور نشات ثانیہ کا مطلب ہے مسلمانوں کی تہذیبی، روحانی اور مادی زندگی میں نئی روح پھونکنا۔ تاریخ میں اسلامی دنیا کو مختلف ادوار میں علمی و فکری زوال کا سامنا کرنا پڑا، جن سے نکلنے کے لیے اجتہاد کا استعمال اہم رہا ہے۔ اسلامی دنیا کا احیا دراصل ان فکری اور عملی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے جو ملت کو اپنے دین کے حقیقی اصولوں کی طرف واپس لاتی ہیں اور جدید دور کے چیلنجز کے ساتھ ان کی تطبیق کرتی ہیں۔
اجتہاد کی اہمیت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ اسلام کو ایک زندہ، متحرک اور لچکدار مذہب کے طور پر برقرار رکھنے کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر زمانے اور ہر معاشرتی تبدیلی کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ صلاحیت اجتہاد کے ذریعے بروئے کار لائی جاتی ہے۔
قرآن و سنت میں کئی احکامات ہیں جو عام نوعیت کے ہیں اور مخصوص حالات پر مبنی نہیں ہیں۔ ان احکامات کی تعبیر اور ان سے مسائل کا حل نکالنا، ہر دور میں ضروری رہتا ہے، تاکہ مسلمانوں کو ان کے مسائل کا شرعی حل مل سکے۔ اگر اجتہاد نہ کیا جائے تو اسلامی تعلیمات کو ایک مخصوص دور کی حقیقتوں تک محدود کر دیا جائے گا، جو دین کی آفاقی نوعیت کے منافی ہے۔
اسلامی نشات ثانیہ کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو ایک بار پھر علم، اخلاق، معاشرتی ترقی اور روحانیت میں عروج دینا ہے۔ جدید دور میں مسلمانوں کو مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا ہے، جو کہ سماجی، سیاسی، معاشی اور علمی مسائل کے حوالے سے پیچیدہ ہیں۔ ان مسائل کا حل تلاش کرنا اور اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق پیش کرنا اجتہاد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
ہر دور میں انسان کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، جدید ٹیکنالوجی، طبی سائنس، مالیاتی نظام اور دیگر سائنسی ترقیات نے ایسے مسائل پیدا کیے ہیں جو ماضی میں موجود نہیں تھے۔ اجتہاد ہی وہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ان نئے مسائل کا شرعی حل نکالا جا سکتا ہے۔
جدید دور میں دنیا بھر کے معاشروں میں تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ معاشرتی اقدار، اقتصادی نظام اور بین الاقوامی تعلقات میں ہونے والی تبدیلیاں مسلمانوں کے لیے نئے قسم کے چیلنجز پیدا کر رہی ہیں۔ ان چیلنجز کا اسلامی تعلیمات کے مطابق حل تلاش کرنا ضروری ہے اور یہ کام اجتہاد کے ذریعے ممکن ہے۔
شریعت اسلامی زندگی کا جامع نظام ہے، جو نہ صرف عبادات اور اخلاقیات کو بلکہ سماجی، سیاسی اور اقتصادی امور کو بھی منظم کرتی ہے۔ اجتہاد کے ذریعے فقہاء ان مسائل کو حل کرتے ہیں جو اسلامی قانون کی تطبیق کے دوران سامنے آتے ہیں۔
آج کے دور میں جدید سائنسی اور تکنیکی ترقیات نے ایسے مسائل کو جنم دیا ہے جن کے حل کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے رہنمائی ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، طبی اخلاقیات، جینیاتی انجینئرنگ، ماحولیاتی مسائل اور مصنوعی ذہانت کے مسائل ایسے موضوعات ہیں جن پر اجتہاد کی ضرورت ہے۔
تاریخ میں کئی مثالیں ملتی ہیں جب اسلامی احیا میں اجتہاد نے اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی تاریخ میں چار بڑے فقہی مکاتب فکرکے بانی امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اپنے اپنے مخصوص اجتہادی اصولوں اور مناہج کے مطابق اسلامی فقہ کی تشکیل کی، جو آج تک اسلامی قانون میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان اماموں کا اجتہادی منہج مختلف اصولوں اور ترجیحات پر مبنی تھا، جس سے اسلامی قانون کی جامعیت اور تنوع ظاہر ہوتا ہے۔ ذیل میں ان چاروں اماموں کے اجتہادی مناہج کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
1۔ امام ابو حنیفہ (80ھ - 150ھ) کا اجتہادی منہج:
امام ابو حنیفہ فقہ حنفی کے بانی ہیں اور ان کا اجتہادی منہج کئی اہم اصولوں پر مبنی تھا:
(أ) قرآن و سنت کا استعمال:
امام ابو حنیفہ کے اجتہاد کی پہلی بنیاد قرآن اور سنت تھی۔ وہ سب سے پہلے ان دونوں کو سامنے رکھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے تھے۔ اگر کوئی مسئلہ قرآن یا سنت میں واضح طور پر موجود نہ ہو تو وہ قیاس کا استعمال کرتے۔
(ب) قیاس:
امام ابو حنیفہ نے قیاس (analogical reasoning) کو اپنے اجتہاد میں بڑی اہمیت دی۔ قیاس کے ذریعے وہ نئے مسائل کا حل پرانے مسائل کے مشابہ صورتوں سے تلاش کرتے تھے۔
(ج) استحسان:
امام ابو حنیفہ استحسان کو بھی تسلیم کرتے تھے، جس کا مطلب ہے کہ بعض مواقع پر عمومی اصول کے بجائے کسی بہتر حل کو اختیار کیا جائے، بشرطیکہ یہ حل انصاف اور مصلحت کے مطابق ہو۔
(د) اجماع:
اجماع، یعنی علماء کے متفقہ فیصلوں کو بھی امام ابو حنیفہ کے اجتہاد میں اہمیت حاصل تھی۔ اگر کسی مسئلے پر اجماع ہو جاتا تو وہ اسے تسلیم کر لیتے تھے۔
(ہ) استصحاب:
امام ابو حنیفہ بعض اوقات استصحاب کو بھی استعمال کرتے، یعنی اصل حالت یا قانون کو قائم رکھتے جب تک کہ کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ملے۔
2۔ امام مالک (93ھ - 179ھ) کا اجتہادی منہج
امام مالک بن انس مدینہ منورہ کے فقیہ تھے اور انہوں نے فقہ مالکی کی بنیاد رکھی۔ ان کا اجتہادی منہج درج ذیل اصولوں پر مبنی تھا:
(أ) مدینہ کا عمل:
امام مالک کے نزدیک مدینہ منورہ کے لوگوں کا عمل اجتہاد کے لیے بہت اہم تھا۔ ان کے نزدیک مدینہ کے لوگ نبی اکرم ﷺ کی سنت کے زیادہ قریب تھے اور ان کے عمل کو سنت کی طرح سمجھا جاتا تھا۔
(ب) مصالح مرسلہ:
امام مالک نے مصالح مرسلہ (public interest) کو اجتہاد میں استعمال کیا۔ ان کے نزدیک اگر کسی مسئلے کا حل قرآن و سنت میں موجود نہ ہو تو مصلحت عامہ (عام بھلائی) کو بنیاد بنا کر فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔
(ج) قیاس:
اگرچہ امام مالک قیاس کو تسلیم کرتے تھے، لیکن وہ مدینہ کے عمل اور مصالح مرسلہ کو قیاس پر فوقیت دیتے تھے۔
(د) اجماع:
امام مالک اجماع کو بھی تسلیم کرتے تھے، خاص طور پر مدینہ کے علماء کے اجماع کو۔ ان کے نزدیک یہ اجماع نبی اکرم ﷺ اور خلفائے راشدین کے عمل سے بہت قریب تھا۔
(ہ) استحسان:
استحسان کو بھی امام مالک اپنے اجتہادی منہج میں شامل کرتے تھے۔ اگر قیاس کے بجائے استحسان کے تحت بہتر فیصلہ کیا جا سکتا تو وہ اس اصول کو اختیار کرتے۔
3۔ امام شافعی (150ھ - 204ھ) کا اجتہادی منہج:
امام شافعی نے فقہ شافعی کی بنیاد رکھی اور اصول فقہ کی تدوین کی۔ ان کا اجتہادی منہج انتہائی منظم تھا اور انہوں نے اجتہاد کے اصولوں کو باقاعدہ شکل دی۔
(أ) قرآن و سنت کی بالادستی:
امام شافعی کے نزدیک قرآن اور سنت سب سے اہم مصادر تھے۔ ان کے اجتہادی منہج میں یہ اصول تھا کہ قرآن اور سنت کے بغیر کسی اور چیز پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔
(ب) سنت کی اقسام:
امام شافعی نے سنت کو دو اقسام میں تقسیم کیا: متواتر اور آحاد۔ ان کے نزدیک متواتر احادیث وہ تھیں جنہیں بڑی تعداد میں لوگوں نے روایت کیا ہو اور آحاد احادیث وہ تھیں جو کم لوگوں نے روایت کی ہوں۔
(ج) قیاس:
امام شافعی نے قیاس کو باقاعدہ اصول کے طور پر تسلیم کیا اور اس کے استعمال کو فقہی مسائل کے حل کے لیے ضروری قرار دیا۔
(د) اجماع:
امام شافعی نے اجماع کو ایک مضبوط اصول قرار دیا۔ ان کے نزدیک اگر کسی مسئلے پر علماء کا اجماع ہو جائے تو وہ اسے تسلیم کرتے تھے۔
(ہ) استدلال:
امام شافعی نے استدلال کو بھی اہمیت دی، یعنی قرآن و سنت اور قیاس کے ذریعے مسائل کا حل نکالنا۔
4۔ امام احمد بن حنبل (164ھ - 241ھ) کا اجتہادی منہج:
امام احمد بن حنبل حنبلی مکتب فکرکے بانی ہیں اور وہ حدیث کے عظیم ماہر تھے۔ ان کا اجتہادی منہج درج ذیل تھا۔
(أ) حدیث پر انحصار:
امام احمد بن حنبل کا منہج حدیث پر مکمل انحصار کرتا تھا۔ وہ اجتہاد کے دوران حدیث کو اولین ترجیح دیتے اور قیاس و اجتہاد کو اس وقت استعمال کرتے جب حدیث نہ ملے۔
(ب) ضعیف حدیث کی قبولیت:
امام احمد بن حنبل کے نزدیک ضعیف حدیث بھی قیاس پر فوقیت رکھتی تھی، بشرطیکہ وہ حدیث موضوع نہ ہو۔
(ج) قیاس کا محدود استعمال:
امام احمد بن حنبل قیاس کا استعمال صرف وہاں کرتے تھے جہاں قرآن و سنت یا صحابہ کے اقوال میں کوئی واضح حل نہ ملے۔ ان کے نزدیک قیاس آخری ذریعہ تھا۔
(د) صحابہ کے اقوال:
امام احمد صحابہ کرام کے اقوال کو بڑی اہمیت دیتے تھے اور ان کے فیصلے کو اجتہاد میں بطور دلیل استعمال کرتے۔
(ہ) استحسان اور مصالح مرسلہ کی عدم قبولیت:
امام احمد نے استحسان اور مصالح مرسلہ کو اپنے اجتہادی منہج میں شامل نہیں کیا۔ ان کے نزدیک شریعت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہونی چاہیے اور قیاس کو صرف محدود اور ضروری حالات میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔
چاروں اماموں کے اجتہادی مناہج کا موازنہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگرچہ ان کے بنیادی اصول ایک جیسے تھے، یعنی قرآن و سنت پر انحصار، لیکن ان کے اجتہادی طریقوں میں کئی اہم فرق موجود ہیں:
1۔ قرآن و سنت پر انحصار:
تمام اماموں نے قرآن و سنت کو اپنا بنیادی مصدر تسلیم کیا، لیکن امام احمد بن حنبل نے حدیث کو سب سے زیادہ فوقیت دی، جبکہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے قیاس کو بھی اہمیت دی۔
2۔ قیاس:
امام ابو حنیفہ اور امام شافعی نے قیاس کو زیادہ استعمال کیا، جبکہ امام احمد بن حنبل اور امام مالک نے قیاس کو محدود انداز میں استعمال کیا، امام مالک نے مدینہ کے عمل اور مصالح مرسلہ کو قیاس پر فوقیت دی۔
3۔ استحسان:
امام ابو حنیفہ اور امام مالک نے استحسان کو اپنے اجتہادی منہج میں شامل کیا، جبکہ امام احمد بن حنبل نے اسے مسترد کیا۔
4۔ مصالح مرسلہ:
امام مالک نے مصالح مرسلہ کو قبول کیا اور اسے اجتہاد کا اہم ذریعہ بنایا، جبکہ دیگر اماموں نے اسے اجتہاد میں شامل نہیں کیا۔
5۔ صحابہ کے اقوال:
امام احمد بن حنبل نے صحابہ کرام کے اقوال کو اپنے اجتہاد میں بہت زیادہ اہمیت دی، جبکہ امام شافعی اور امام ابو حنیفہ نے اس کو اتنی اہمیت نہیں دی۔
چاروں اماموں کا اجتہادی منہج اسلامی قانون کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ان کی اجتہادی فکرنے اسلامی دنیا میں قانون کے مختلف مکاتب فکر کی بنیاد رکھی۔ امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کے مناہج کے تنوع نے اسلامی فقہ کو جامعیت بخشی اور مختلف حالات میں مسائل کا حل پیش کرنے کے قابل بنایا۔
شاہ ولی اللہ دہلوی نے برصغیر میں اسلام کی نشات ثانیہ میں اجتہاد کا اہم کردار تسلیم کیا اور اسلامی معاشرتی و اقتصادی مسائل کا حل پیش کیا۔
اجتہاد کے کچھ بنیادی اصول اور شرائط بھی ہیں، جن پر عمل کرکے علماء نئے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں۔
اجتہاد کرنے والے عالم کو قرآن و سنت کا گہرا علم ہونا چاہیے تاکہ وہ درست طور پر مسائل کا حل تلاش کر سکے۔
اجتہاد کرنے والے کو فقہ اور اصول فقہ کا علم ہونا ضروری ہے تاکہ وہ درست اصولوں کے تحت اجتہاد کر سکے۔
اجتہاد کا عمل انفرادی نہیں ہوتا، بلکہ علماء کی ایک جماعت کی طرف سے کیا جاتا ہے تاکہ مسائل کا حل جامع اور مستند ہو۔
لہذا اجتہاد اسلامی احیا اور نشات ثانیہ کے لیے نہایت اہم ہے۔ یہ وہ فکری اور عملی قوت ہے جو مسلمانوں کو ہر دور میں درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے اور دین کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے۔ اجتہاد کا عمل اگر صحیح اصولوں پر کیا جائے تو نہ صرف اسلامی معاشرت میں موجودہ مسائل کا حل نکل سکتا ہے بلکہ یہ مسلمانوں کو علمی، معاشرتی اور روحانی ترقی کی راہوں پر بھی گامزن کر سکتا ہے۔ اجتہاد ہی کے ذریعے اسلام کی ہمہ گیریت اور ہمہ وقت حیات رہنے والی خصوصیت برقرار رکھی جا سکتی ہے اور یہی وہ اصول ہے جو مسلمانوں کو ہر دور میں کامیابی و سربلندی کی راہ دکھاتا ہے۔