Tuesday, 22 July 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Dr. Muhammad Tayyab Khan Singhanvi
    4. Islam Mein Jihad Ke Taqaze, Zaroorat o Ahmiyat

    Islam Mein Jihad Ke Taqaze, Zaroorat o Ahmiyat

    جہاد فی سبیل اللہ کا تصور اسلامی تاریخ اور عقیدے کا ایک مرکزی حصہ رہا ہے اور اس کا مقصد اللہ کی راہ میں جدوجہد کرنا اور دین کی سربلندی کے لیے کوشش کرنا ہے۔ جہاد کے معنی عربی زبان میں "جدوجہد" یا "کوشش" کے ہیں اور اس کا مفہوم محض عسکری جنگ تک محدود نہیں ہے، بلکہ ہر وہ کوشش جو انسان اللہ کی رضا کے لیے کرے، وہ جہاد میں شامل ہوتی ہے۔ اسلامی شریعت میں جہاد کی مختلف اقسام ہیں، جن میں نفس کے خلاف جہاد، علم کا جہاد، دعوت و تبلیغ کا جہاد اور ضرورت کے وقت عسکری جہاد شامل ہیں۔

    جہاد فی سبیل اللہ کے تقاضے، شرائط اور اہداف قرآن و سنت میں واضح طور پر بیان کیے گئے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ان تقاضوں کا جائزہ لیں گے اور پھر عصر حاضر میں عالم اسلام کو درپیش عسکری مسائل اور چیلنجز کے تناظر میں جہاد کی ضرورت و اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔

    اسلام میں جہاد کے تقاضے:

    اسلام میں جہاد کو فرض قرار دینے کے لیے مخصوص شرائط اور تقاضے ہیں جو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ ان میں چند اہم تقاضے درج ذیل ہیں:

    1۔ نیت اور مقصد کا اخلاص:

    جہاد کا سب سے پہلا اور اہم تقاضا نیت کا اخلاص ہے۔ جہاد فی سبیل اللہ کا مقصد اللہ کی رضا کا حصول ہونا چاہیے، نہ کہ دنیاوی مفادات یا شہرت کی طلب۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے" (بخاری و مسلم)۔

    اگر جہاد دنیاوی مفادات، مال غنیمت یا ذاتی اغراض کے لیے کیا جائے تو وہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلائے گا۔

    2۔ شرعی اجازت:

    جہاد کو شروع کرنے کے لیے اسلامی ریاست یا حاکم وقت کی اجازت ضروری ہے۔ انفرادی طور پر یا کسی گروہ کی طرف سے جنگ چھیڑنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اور خلفائے راشدین کے دور میں بھی تمام جنگیں حاکم کی نگرانی اور اجازت سے لڑی گئیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بے جا خونریزی اور انتشار سے بچا جا سکے۔

    3۔ ظلم کے خاتمے کی کوشش:

    جہاد کا ایک اہم مقصد ظلم اور ناانصافی کا خاتمہ ہے۔ جب کوئی ظالم قوم یا طاقت مسلمانوں پر حملہ کرے یا دین کے راستے میں رکاوٹ بنے، تو اس ظلم کے خلاف جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: "اور ان لوگوں سے لڑو جو تم سے لڑتے ہیں، لیکن حد سے تجاوز نہ کرو" (البقرہ: 190)۔

    4۔ ظلم و زیادتی سے بچنا:

    اسلامی تعلیمات کے مطابق، جنگ میں بھی انسانیت اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری ضروری ہے۔ دشمن کے نہتے شہریوں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نقصان پہنچانا ممنوع ہے۔ جنگ کے دوران بھی ظلم و زیادتی سے گریز کرنا چاہیے۔

    5۔ جنگ بندی اور صلح:

    اسلام میں جب بھی دشمن صلح کی پیشکش کرے، اسے قبول کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: "اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہوں، تو تم بھی اس کی طرف مائل ہو جاؤ" (الانفال: 61)۔

    6۔ عسکری تربیت اور تیاری:

    جہاد کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہوں اور اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بہتر کریں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "اور ان کے مقابلے کے لیے تمہاری استطاعت کے مطابق قوت تیار رکھو" (الانفال: 60)۔

    عصر حاضر میں عالم اسلام کو درپیش عسکری مسائل و چیلنجز:

    آج کے دور میں، عالم اسلام کو متعدد عسکری، سیاسی اور معاشرتی چیلنجز کا سامنا ہے۔ یہ چیلنجز نہ صرف مسلمانوں کی اجتماعی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان کی مذہبی، تہذیبی اور معاشرتی شناخت کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔

    1۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی:

    عالم اسلام کو آج دہشت گردی اور انتہاپسندی جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ چند گروہوں نے جہاد کے تصور کو غلط استعمال کیا اور بے گناہوں کا خون بہایا، جس سے اسلام کا نام بدنام ہوا۔ ان گروہوں نے اپنی ذاتی مفادات اور سیاسی ایجنڈے کو جہاد کا نام دے کر اسلام کی اصل تعلیمات کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔

    2۔ بیرونی جارحیت اور قبضہ:

    عالم اسلام کے مختلف ممالک کو بیرونی جارحیت اور فوجی مداخلت کا سامنا ہے۔ فلسطین، کشمیر، شام، یمن، عراق، افغانستان جیسے علاقوں میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت نے وہاں کے مسلمانوں کی زندگیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ یہ صورتحال اسلامی دنیا کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے اور اس کے حل کے لیے متحدہ اور منظم کوششوں کی ضرورت ہے۔

    3۔ سیاسی عدم استحکام:

    کئی اسلامی ممالک اندرونی سیاسی اختلافات اور انتشار کا شکار ہیں، جو عسکری لحاظ سے ان کی کمزوری کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ انتشار بعض اوقات دشمن قوتوں کو مداخلت کا موقع فراہم کرتا ہے۔

    4۔ معاشی و عسکری کمزوری:

    عالم اسلام کی اکثریت معاشی اور عسکری لحاظ سے کمزور ہے۔ اس کمزوری کا فائدہ اٹھا کر بیرونی طاقتیں ان ممالک کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں مسلمان ممالک دفاعی لحاظ سے مغربی طاقتوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔

    جہاد کی ضرورت و اہمیت:

    عصر حاضر میں، جب عالم اسلام کو درپیش عسکری چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں، جہاد فی سبیل اللہ کا صحیح مفہوم اور اس کی ضرورت مزید واضح ہوتی جا رہی ہے۔ جہاد کا مقصد امن، عدل اور انصاف کا قیام ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے حقیقی معنی و مقاصد کو سمجھیں۔

    1۔ ظلم و ستم کا خاتمہ:

    جہاد کی بنیادی اہمیت آج بھی ظلم اور ناانصافی کے خاتمے میں ہے۔ جب دنیا میں مسلمانوں پر ظلم ہو، ان کے حقوق غصب کیے جائیں یا ان کی سرزمین پر ناجائز قبضہ کیا جائے، تو ان کے دفاع کے لیے جہاد کی ضرورت پیش آتی ہے۔ فلسطین، کشمیر اور شام جیسے علاقوں میں ظلم کے خاتمے کے لیے منظم اور مؤثر جدوجہد کی ضرورت ہے۔

    2۔ دہشت گردی کے خلاف جہاد:

    آج کے دور میں، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف جہاد کا تصور نہایت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انفرادی اور گروہی انتہاپسند عناصر نے جہاد کے نام پر بے گناہ لوگوں کی جانیں لی ہیں اور اسلام کی شبیہ کو مسخ کیا ہے۔ اصل جہاد ان عناصر کے خلاف ہے جو دین اسلام کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں۔

    3۔ عالم اسلام کی عسکری طاقت میں اضافہ:

    مسلمان ممالک کو اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کرنے اور جدید دور کی جنگی ضروریات کے مطابق تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، مسلمانوں کو اپنی دفاعی صلاحیتیں بہتر بنانی چاہئیں تاکہ دشمن کی جارحیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔ آج کے دور میں، جدید ٹیکنالوجی اور عسکری تیاری میں پیچھے رہنا مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

    4۔ وحدت و اتحاد کی ضرورت:

    عالم اسلام کے مسائل کا حل ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد اور تعاون میں ہے۔ جب تک مسلمان قومیں آپس میں بٹ کر رہیں گی، دشمن ان کا فائدہ اٹھاتا رہے گا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور متحد ہونے کا حکم دیا ہے۔ جہاد کی کامیابی کے لیے عالم اسلام کا اتحاد اور یکجہتی ناگزیر ہے۔

    5۔ سیاسی و سفارتی جہاد:

    عسکری جہاد کے ساتھ ساتھ، عصر حاضر میں سیاسی و سفارتی جہاد کی بھی اشد ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کو عالمی سطح پر اپنی حقوق کے تحفظ کے لیے سفارتی محاذ پر بھی مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ عالمی اداروں اور پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لیے سفارت کاری کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

    جہاد فی سبیل اللہ ایک وسیع اور جامع تصور ہے جو ہر دور میں مسلمانوں کو اللہ کے دین کی سربلندی اور ظلم و ستم کے خاتمے کے لیے جدوجہد کی تعلیم دیتا ہے۔ عصر حاضر میں، جب عالم اسلام کو مختلف عسکری، سیاسی اور سماجی چیلنجز کا سامنا ہے، جہاد کی صحیح تعبیر و تشریح اور اس کی عملی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں کو اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ جہاد صرف عسکری جنگ کا نام نہیں، بلکہ یہ ہر اس جدوجہد کو شامل کرتا ہے جو اللہ کی رضا کے لیے کی جائے، چاہے وہ علمی، معاشرتی، یا سیاسی محاذ پر ہو۔ مسلمانوں کی کامیابی اسی میں ہے کہ وہ اللہ کے رستے پر چلتے ہوئے ظلم کے خلاف کھڑے ہوں اور اپنے دین کی حفاظت کریں۔ عصر حاضر میں عالم اسلام کو درپیش عسکری، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم جہاد کے حقیقی مفہوم کو سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔

    عالم اسلام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ہمیں اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ عسکری، سیاسی اور سفارتی جہاد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اپنی معاشی اور دفاعی طاقت میں بھی اضافہ کرنے کی ضرورت ہے۔ دشمن کی جارحیت اور سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلمانوں کو جدید دور کی جنگی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہوگا۔

    یہ بھی ضروری ہے کہ ہم انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں اور اسلام کے نام پر ہونے والے فساد کا خاتمہ کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے دین کی صحیح تعلیمات کو فروغ دیں اور دنیا کو بتائیں کہ اسلام ایک امن پسند اور عدل و انصاف پر مبنی مذہب ہے۔

    آخر میں، ہمیں اس بات کا ادراک کرنا ہوگا کہ جہاد صرف جنگ کے میدان تک محدود نہیں بلکہ یہ ہر وہ کوشش ہے جو حق کی حمایت اور باطل کے خلاف کی جائے۔ اس جدوجہد میں ہم سب کو اپنی استطاعت کے مطابق حصہ لینا ہوگا، چاہے وہ علم و تعلیم کے ذریعے ہو، معاشرتی اصلاح کے ذریعے ہو، یا سیاسی و سفارتی محاذ پر ہو۔

    جہاد فی سبیل اللہ کا حقیقی مقصد عدل، امن اور انسانیت کی فلاح و بہبود کا قیام ہے اور یہی مقصد آج کے دور میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔ اللہ ہمیں اپنی راہ میں صحیح جہاد کرنے اور ظلم و ستم کے خلاف ڈٹ جانے کی توفیق عطا فرمائے۔