Tuesday, 19 August 2025
    1.  Home
    2. Express
    3. Wusat Ullah Khan
    4. Falasteeni Khoon Ke Kharidar Dunya Bhar Mein Hain

    Falasteeni Khoon Ke Kharidar Dunya Bhar Mein Hain

    عالمی برادری کی جانب سے نمائشی ٹسوے یا مگر مچھ کے آنسو اپنی جگہ۔ اسرائیل کے عسکری بائیکاٹ کی ہفتہ وار سرکاری انگڑائیاں بھی زبردست ہیں۔ گاہے ماہے یہ رسمی بیان بھی خوش آیند ہے کہ اسرائیل نے نسل کش پالیسی کو لگام نہ دی تو ہم (فرانس، ناروے اور دیگر یورپی ممالک) آزاد فلسطین کو تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے اور اقتصادی پابندیاں نافذ کرنے پر بھی " سنجیدگی " سے غور کرتے رہیں گے۔

    مگر عملی تصویر یہ ہے کہ اسرائیل دو ہزار تئیس کے مقابلے میں دو ہزار چوبیس میں مذمتی دنیا کو لگ بھگ بارہ فیصد زائد اسلحہ فروخت کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سودوں کی مالیت تقریباً پندرہ بلین ڈالر رہی۔

    اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا گاہک یورپ ہے۔ اسرائیل نے گزشتہ برس یورپ کو دو ہزار تئیس کے مقابلے میں اکیس فیصد زائد اسلحہ فروخت کیا۔ ایک بڑی وجہ یوکرین روس جنگ کے سبب یورپ میں تیزی سے بڑھتا احساسِ عدم تحفظ بتایا جاتا ہے۔ سونے پے سہاگہ یہ کہ ٹرمپ نے ہر آڑے وقت میں یورپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کی اب تک کی تاریخی امریکی پالیسی کو اپنے صبح شام بدلتے بیانات سے متزلزل کر دیا ہے۔

    چنانچہ یورپ کو ٹرمپ کی خوشنودی کے لیے بادلِ نخواستہ اپنے دفاعی بجٹ کو نہ صرف قومی آمدنی کے موجودہ ڈیڑھ فیصد سے ڈھائی فیصد کی سطح تک لے جانا پڑا ہے بلکہ اپنی اسلحہ سازی کی صنعت میں بھی توسیع کرنا پڑ رہی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ زیادہ تر امریکی ہتھیاروں پر ہی تکیہ کرتا آیا ہے مگر اب یہ اعتماد گڑبڑا چکا ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ یورپی ممالک کو روس کے مقابل اپنی دفاعی ضروریات کے لیے جتنا سامان درکار ہے اس کی فی الوقت رسد طلب سے کم ہے۔

    ان حالات میں بلی کے بھاگوں گویا چھینکا ٹوٹ گیا۔ اسرائیل حالیہ برسوں میں امریکی ٹیکنالوجی تک مسلسل رسائی اور اشتراک کے سبب ہائی ٹیک ہتھیاروں کی تیاری کے میدان میں تیزی سے ابھرا ہے۔ آج اسرائیلی دفاعی صنعت سینہ ٹھونک کے بجا طور پر دعوی کرتی ہے کہ اس کا سامان حقیقی میدانِ جنگ میں آزمایا ہوا ہے (یعنی فلسطینیوں پر تجربہ کیا گیا ہے)۔ نسل کشی میں کام آنے والے ہتھیاروں کی اس سے بہتر مارکیٹنگ اور کیا ہو سکتی ہے۔

    جرمنی نے اسرائیل ایروسپیس انڈسٹری (آئی اے آئی) سے اینٹی میزائیل ایرو سسٹم کی خریداری کے لیے ساڑھے تین ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ جب کہ امریکی اسلحے کے بعد اسرائیل سب سے زیادہ جرمن اسلحہ استعمال کرتا ہے۔

    فن لینڈ نے اسرائیلی کمپنی رافیل ہائی ٹیک سسٹمز کے ساتھ اینٹی میزائیل سسٹم ڈیوڈ سلنگ کی خریداری کے لیے ساڑھے تین سو ملین ڈالر کا سودا کیا ہے۔ یونان نے رافیل اور آئی اے آئی گروپ سے دو ارب ڈالر کے دفاعی آلات خریدنے کا سمجھوتہ کیا ہے۔ سلوواکیہ نے آئی اے آئی سے پانچ سو ملین ڈالر مالیت کے براک میزائیل خریدے ہیں۔ نیدر لینڈز اور ڈنمارک نے ایلبیت کمپنی سے بھاری توپوں کی خریداری کا ایک ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی ممالک نے اسرائیلی سپائک میزائل، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کے تحفظ کے ٹرافی سسٹم اور ڈجیٹل آلات کی خریداری میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔

    ایشیا میں اسرائیلی اسلحے کے سب سے بڑے خریدار بھارت اور ویتنام ہیں۔ جب کہ شمالی افریقہ میں مراکش نے ایک ارب ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کا سودا کیا ہے۔ اسرائیل سے اسلحہ لینے میں یہ بھی فائدہ ہے کہ امریکی کمپنیوں کا اوسطاً ڈلیوری ٹائم پانچ سے سات برس ہے جب کہ اسرائیلی کمپنیاں دو سے تین برس میں آرڈر مکمل کر لیتی ہیں۔ ان کی ٹیکنیکل سپورٹ کا معیار بھی امریکیوں سے بہتر ہے۔

    یورپی ممالک کا اسرائیلی کمپنیوں پر بڑھتا دارومدار اس بات کی ضمانت بھی ہے کہ بھلے رائے عامہ کچھ بھی کہتی رہے۔ مگر ان ممالک کی اسٹیبلشمنٹ اسرائیل سے اسلحے کی تجارت اپنے پالیسی مفاد میں برقرار رکھے گی۔

    جن گنی چنی یورپی ریاستوں نے اسرائیل کا دفاعی بائیکاٹ کیا ہے ان کی اسرائیل سے دفاعی تجارت ویسے بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسرائیل سے دفاعی تجارت کرنے والے بڑے یورپی ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، نیدر لینڈز وغیرہ) پر اگر بہت ہی زیادہ عوامی دباؤ بڑھا تو کچھ علامتی اقدامات ہو سکتے ہیں۔ رائے عامہ کا غصہ ٹھنڈا ہونے تک فوجی درآمد و برآمد کو تھرڈ پارٹی کے ذریعے قائم رکھا جا سکتا ہے یا اس تجارت کی تشہیر محدود کی جا سکتی ہے۔

    مثلاً امریکی لاک ہیڈ کمپنی کا ایف تھرٹی فائیو طیارہ غزہ پر بمباری کے بعد زیادہ مشہور ہوا۔ اس کے کل پرزے اسرائیل اور نیدر لینڈز سمیت کئی ممالک میں تیار ہوتے ہیں اور پھر انھیں امریکا میں لاک ہیڈ کے ہینگرز میں مکمل طور پر اسمبل کیا جاتا ہے۔

    بائیکاٹ کی تپش سے بچنے کے لیے معروف ڈینش شپنگ کمپنی مرسک اسرائیلی بندرگاہ اشدود تک خالی کنٹینرز لاتی ہے اور ان کنٹنیرز میں ایف تھرٹی فائیو طیارے کے اسرائیل میں تیار ہونے والے ونگز لوڈ کرکے نیدرلینڈز کی بندرگاہ روٹر ڈم لایا جاتا ہے۔ وہاں ایف تھرٹی فائیو کے نیدرلینڈز میں بننے والے پرزے اور حصے بھی لوڈ کیے جاتے ہیں اور پھر اس سامان کو فائنل اسمبلنگ کے لیے امریکا پہنچایا جاتا ہے اور ان میں سے متعدد طیارے لاک ہیڈ کی فیکٹری سے براہِ راست اسرائیل بھیج دیے جاتے ہیں۔

    اگرچہ گزشتہ برس نیدر لینڈز کی ایک اعلیٰ عدالت نے اسرائیل کو برآمد کیے جانے والے ایف تھرٹی فائیو کے مقامی طور پر بننے والے فاضل پرزوں کی فراہمی پر پابندی لگا دی تھی مگر حکومت نے یہ چور دروازہ نکالا کہ ہمیں کیا پتہ کہ ہم جو فاضل پرزے امریکا بھیج رہے ہیں وہ کس ملک کو فروخت ہونے والے طیاروں میں لگیں گے۔

    مگر امریکا کی سلیکون ویلی یورپ کی طرح دوہرے معیار برتنے کے بجائے نسل کشی کی گنگا میں کھل کے نہا رہی ہے۔ اکثر سلیکون ویلی کمپنیاں اسرائیلی کمپنیوں کی قریبی شراکت دار ہیں۔ مائیکرو سافٹ، گوگل اور ایمیزون سمیت امریکی اور اسرائیلی ہائی ٹیک افرادی قوت حسبِ ضرورت دونوں ملکوں میں مشترکہ کنٹریکٹس پر کام کرتی ہے۔

    متعدد امریکی کمپنیوں کے ریجنل دفاتر یروشلم اور تل ابیب میں قائم ہیں۔ اسرائیلی کمپنیوں اور اسٹارٹ اپس میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری امریکی کمپنیوں اور یونیورسٹیوں کی ہی ہے۔

    گزرے مارچ میں گوگل نے ایک اسرائیلی سائبر سیکیورٹی کمپنی یونیکارن وز بتیس ارب ڈالر نقد میں خرید لی۔ گوگل اور خود اسرائیلی ہائی ٹیک صنعت کی تاریخ کا یہ سب سے بھاری سودا ہے۔

    اس سے پہلے دو ہزار سترہ میں امریکی کمپنی انٹیل نے یروشلم میں قائم اسرائیلی ہائی ٹیک کمپنی موبیلئے ساڑھے پندرہ ارب ڈالر میں خریدی تھی۔ ان سودوں سے اسرائیل کو یہ فائدہ ہوا کہ دنیا پر اس کی ہائی ٹیک ہنرمندی کی اضافی دھاک بیٹھ گئی اور آرڈرز کی بارش ہونے لگی۔

    اسرائیل کو اپنا ہنر اور فلسطینیوں کا خون بیچنا بخوبی آتا ہے۔ خریدار پوری دنیا ہے۔

    About Wusat Ullah Khan

    Wusat Ullah Khan

    Wusat Ullah Khan is associated with the BBC Urdu. His columns are published on BBC Urdu, Daily Express and Daily Dunya. He is regarded amongst senior Journalists.