Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Syed Badar Saeed
  4. Faslati Nizam e Taleem, Mehnat Kashon Ki Taraqi Ka Darwaza

Faslati Nizam e Taleem, Mehnat Kashon Ki Taraqi Ka Darwaza

میں اس بات کا حامی ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو ڈیجیٹل سکلز سیکھنی چاہیے لیکن میں ڈگری اور سکلز میں عدم توازن کا قائل کبھی نہیں رہا۔ دنیا نے سکلز کی اہمیت ضرور مانی ہے مگر یہ بات بھی سب جانتے ہیں کہ سکلز بدلتی رہتی ہیں جبکہ ڈگری اعتماد کی وہ بنیاد ہے جس پر کیریئر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ ایک جیسے ہنر رکھنے والے دو افراد میں فرق اسی وقت آتا ہے جب ایک کے پاس زیادہ معتبر ڈگری ہو۔

گزشتہ برس ایک خبر نے پریشان کیا تھا کہ نوجوان اب یونیورسٹیوں میں داخلے نہیں لے رہے بلکہ سکلز کی طرف جا رہے ہیں۔ میں سوچتا رہا کہ کیا ہم ایک بار پھر غلط دائرے میں منتقل ہو گئے ہیں؟ اگلے روز ایوان اقبال میں یہ خدشات دور ہوئے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا کانووکیشن تھا جہاں مختلف اداروں کے ماہرین تعلیم اور صحافی بھی موجود تھے۔ یہاں بتایا گیا کہ اس سال صرف پنجاب کے پانچ لاکھ سے زیادہ طلبہ نے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس کانووکیشن کی تقریب اس لحاظ سے بھی یادگار ثابت ہوئی کہ 480 طلبہ نے اپنی ڈگریاں وصول کیں اور 90 طلبہ کو گولڈ سلور اور برونز میڈلز سے نوازا گیا۔

میں سوچ رہا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو روزگار اور کم وسائل کی وجہ سے ریگولر کلاسز نہیں لے سکتے تھے لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ فاصلاتی تعلیم کو ذریعہ بنایا اور دن بھر محنت مشقت کے بعد راتوں کی نیند قربان کی۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ناصر محمود نے بتایا کہ اوپن یونیورسٹی نے خواتین کی تعلیم کے دروازے کھولنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پنجاب میں داخل طالبات کی تعداد دو لاکھ اسی ہزار تک پہنچ جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ گھریلو ذمہ داریوں اور سماجی روک ٹوک کے باوجود خواتین نے روایات کی پاسداری کے ساتھ تعلیم کو اپنا حق سمجھ کر اختیار کیا ہے۔

یہ تعداد محض تعلیمی اعداد و شمار نہیں بلکہ معاشرتی تبدیلی کا اعلان ہے۔ وائس چانسلر نے یہ بھی بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں کے دس ہزار مستحق طلبہ کی فیس مکمل معاف کی گئی ہے۔ یہ شاید ایک سادہ سی خبر لگے لیکن جن گھروں میں روزی روٹی کا مسئلہ ہو وہاں تعلیم پر خرچ کرنا سب سے مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔ فیس کی معافی نے ان نوجوانوں کو ہار ماننے سے بچا لیا جبکہ یونیورسٹی نے لائف لانگ لرننگ سینٹر کے ذریعے ٹیکنالوجی اور ہنر پر مبنی مختصر مدت کے کورسز بھی شروع کیے ہیں تاکہ طلبہ عملی دنیا میں قدم رکھتے ہوئے خود کو کمزور محسوس نہ کریں۔

مجھ سمیت لاہور کے صحافی تو علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی لاہور کیمپس کی تعلیمی خدمات کے معترف ہیں جہاں ریجنل ڈائریکٹر امان اللہ ملک کی قیادت میں ان کی ٹیم سٹوڈنٹس سپورٹ سروسز میں بہترین کردار ادا کر رہی ہے۔ خاص طور پر ڈاکٹر عظمیٰ طارق، احمر عمار مرزا، عشنا خلیل شبانہ روز تعلیمی خدمات میں مصروف ہیں جبکہ مرزا محمد یٰسین بیگ صحافتی حلقوں اور یونیورسٹی کے درمیان پل بنے ہوئے ہیں۔ لاہور جیسے مصروف شہر میں ڈگری کے ذریعے ملازمت پیشہ افراد کی ترقیوں میں اس کیمپس کا اہم کردار ہے۔

ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے اپنے خطاب میں بتایا کہ دنیا فاصلاتی نظام تعلیم کو مکمل طور پر تسلیم کر چکی ہے۔ پچاس برس میں پچاس لاکھ طلبہ کا فارغ التحصیل ہونا کسی ادارے کے لیے معمولی بات نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے واٹر کولر کے نیچے کھڑے ہو کر کلاسز کی بحثیں نہیں کیں، جنہوں نے بڑے لیکچر تھیٹرز میں بیٹھ کر پروجیکٹر کی روشنی میں تعلیم نہیں لی بلکہ اپنے گھروں، اپنی دکانوں، اپنی ذمہ داریوں کے بیچ ایک ایک گھنٹہ نکال کر پڑھائی کی۔ جو لوگ اپنی زندگی کی دوڑ کے درمیان سے وقت نکال کر تعلیم حاصل کرتے ہیں وہی ڈگری کا اصل وزن اور اس کے احترام کی اہمیت جانتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ سکلز کی دنیا مسلسل بدل رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کا ہنر آج ہے، کل تبدیل ہو جائے گا۔ کسی زبان کی کوڈنگ آج اہم ہے کل کوئی نئی زبان آ جائے گی لیکن تعلیم وہ بنیاد ہے جو انسان کو سیکھنے کی صلاحیت دیتی ہے۔ ڈگری صرف ایک کاغذ نہیں بلکہ اس بات کی گواہی ہے کہ فرد نے ایک نظام کے تحت علم حاصل کیا ہے۔ اس کا ذہن ترتیب یافتہ ہے۔ اس نے تحقیق کرنا سیکھی ہے۔ وہ ایک ادارے کے ڈسپلن سے گزرا ہے۔ یہ تمام چیزیں مل کر انسان کو وہ اعتماد دیتی ہیں جو کام کے ہر مرحلے میں ساتھ رہتا ہے۔ اسی لیے جب دو افراد ایک جیسے ہنر کے حامل ہوں تو فیصلہ اسی وقت ہوتا ہے جب دیکھا جائے کہ کس نے تعلیم کی بنیاد مضبوط کی ہے۔

مارکیٹ میں مقابلہ بڑھ گیا ہے لیکن مقابلہ ہمیشہ ان لوگوں کے بیچ ہوتا ہے جن کے پاس کچھ نہ کچھ ہوتا ہے۔ ڈگری رکھنے والا انسان خالی ہاتھ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وہ تاریخی اور نظریاتی بنیاد موجود ہوتی ہے جو سکلز کو سیکھنے، سمجھنے اور استعمال کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کی سوچ میں وہ پختگی آتی ہے جو محض کورسز سے نہیں آتی۔ سکلز سیکھیں لیکن ڈگری کو غیرضروری سمجھ کر چھوڑ نہ دیں کیونکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ تعلیم ہمیشہ اپنی جگہ برقرار رکھتی ہے۔