پنجاب میں امن و امان کی صورتحال ہمیشہ سے ریاستی استحکام کا پیمانہ سمجھی جاتی رہی ہے کیونکہ یہ صوبہ صرف آبادی کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ سیاسی، معاشی اور انتظامی اعتبار پر بھی پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ تقریباً بارہ کروڑ سے زائد آبادی پر مشتمل اس صوبے میں نظم و ضبط برقرار رکھنا کسی ایک ادارے کا نہیں بلکہ پوری ریاستی مشینری کا امتحان ہوتا ہے۔ بظاہر ہم پولیس اور انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں لیکن اگر گزشتہ ایک دہائی کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پنجاب میں مجموعی طور پر لا اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس صورت میں ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس بہتری میں سب سے نمایاں کردار پنجاب پولیس کا ہے۔
2013 سے قبل پنجاب دہشت گردی، فرقہ وارانہ کشیدگی اور ٹارگٹ کلنگ جیسے سنگین مسائل کی زد میں تھا۔ لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور جنوبی پنجاب کے بعض اضلاع روزانہ کی بنیاد پر خونریز واقعات کی خبروں میں نظر آتے تھے۔ سرکاری کرائم اسٹیٹسٹکس کے مطابق 2015 کے بعد سے 2024 تک دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 70 سے 75 فیصد تک کمی واقع ہوئی۔ صرف لاہور میں 2014 کے مقابلے میں 2024 میں قتل کے واقعات میں تقریباً 45 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی، جبکہ ڈکیتی مع قتل کے کیسز میں 50 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی۔ اس کا کریڈٹ یقیناََ لاہور پولیس کو جاتا ہے جس کی کمانڈ اس وقت سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ کر رہے ہیں جبکہ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران، ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سید ذیشان رضا، ڈی آئی جی ایڈمن عمران کشور ان کی کمانڈ میں فعال ہیں۔
دوسری جانب آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کی کمانڈ میں پنجاب پولیس تقریباً ایک لاکھ اسی ہزار سے زائد اہلکاروں پر مشتمل فورس ہے جو پاک فوج کے بعد ملک کی سب سے بڑی آرمڈ فورس ہے۔ عالمی معیار کے مطابق ایک پولیس اہلکار پر اوسطاً 450 سے 500 شہریوں کی ذمہ داری ہونی چاہیے لیکن پنجاب میں یہ تناسب ایک ہزار سے زائد ہے۔ اس کے باوجود پولیس نے اپنی آپریشنل صلاحیت کو بہتر بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا سہارا لیا۔ اس میں پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی کا کردار بھی بہت اہم ہے کیونکہ اس اتھارٹی کے تحت صرف لاہور میں 10 ہزار سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں جن کی مدد سے ہر سال 30 ہزار سے زائد وارداتوں کی نشاندہی اور سیکڑوں سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری عمل میں آتی ہے۔
پنجاب پولیس رسپانس یونٹ نے شہری علاقوں میں فوری رسپانس کے تصور عملی شکل دی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق پی ایس آر کا رسپانس ٹائم اوسطاً 7 سے 10 منٹ کے درمیان ہے جو جنوبی ایشیا کے کئی بڑے شہروں کے مقابلے میں بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ صرف سال 2024 میں پی ایس آر نے پنجاب بھر میں دو لاکھ سے زائد ایمرجنسی کالز پر کارروائی کی جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری فوری مدد حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اب 2025 کا ڈیٹا سامنے آئے گا تو اس کا اینالسز ہو سکے گا کہ مزید کتنی بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور مذہبی اجتماعات پنجاب پولیس کے لیے سب سے بڑا امتحان ہوتے ہیں۔ ہر سال صوبے میں 3 ہزار سے زائد بڑے جلسے، جلوس اور احتجاج منعقد ہوتے ہیں جن میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں۔ ان مواقع پر پولیس کا کردار صرف سکیورٹی تک محدود نہیں بلکہ ہجوم کے نظم، ٹریفک کنٹرول، مذاکرات اور ممکنہ تصادم کی روک تھام تک پھیلا ہوتا ہے۔
میں نے اس سال متعدد پولیس افسران اور فیلڈ فائٹرز کا انٹرویو کیا۔ اس میں آئی جی اسلام آباد اور آئی جی کے پی کے سے بھی ملاقات شامل ہے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ماضی اور حال کے کرائم رجحانات میں کتنا فرق آیا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ جرائم کے رجحانات میں تبدیلی بھی پولیس کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکی ہے۔ روایتی جرائم میں کمی کے ساتھ ساتھ سائبر کرائم، آن لائن فراڈ اور ڈیجیٹل بلیک میلنگ جیسے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ پنجاب پولیس اور ایف آئی اے کے مشترکہ ڈیٹا کے مطابق 2019 کے مقابلے میں 2024 تک سائبر کرائم سے متعلق شکایات میں تقریباً دو گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ اس صورتحال کے پیش نظر پنجاب پولیس نے سائبر کرائم یونٹس، ڈیجیٹل فارنزک لیبارٹریز اور خصوصی تربیتی پروگرامز متعارف کرائے ہیں تاکہ جدید جرائم کا مقابلہ جدید انداز میں کیا جا سکے۔
پولیس اصلاحات کے حوالے سے بھی پنجاب میں نمایاں پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ اندرونی احتساب کے نظام کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ ہر سال اوسطاً 800 سے 1000 اہلکاروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جاتی ہے جن میں معطلی، برطرفی اور قانونی سزائیں شامل ہیں۔ ان اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ادارہ اپنی صفوں میں بدعنوانی اور بدانتظامی کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ سماجی سطح پر پنجاب پولیس کا کردار بھی تبدیل ہو رہا ہے۔ خواتین اور بچوں کے تحفظ کے لیے صوبے بھر میں 20 سے زائد خواتین پولیس اسٹیشنز، تحفظ مراکز اور ون ونڈو سروسز قائم کی گئی ہیں۔ 2024 میں صرف خواتین ہیلپ لائن پر 60 ہزار سے زائد شکایات موصول ہوئیں جن میں بڑی تعداد گھریلو تشدد، ہراسمنٹ اور خاندانی تنازعات سے متعلق تھی۔ ان مراکز کے ذریعے ہزاروں خواتین کو قانونی اور نفسیاتی معاونت فراہم کی گئی۔
اگر مجموعی صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو موجوہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے پنجاب پولیس کو بطور ادارہ مزید مضبوط کیا ہے جس سے پنجاب میں لا اینڈ آرڈر اب صرف ردِعمل کی سطح پر نہیں بلکہ ایک منظم ڈیٹا بیسڈ اور ٹیکنالوجی سے جڑے نظام میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہ بہتری طویل اور مسلسل عمل کا نتیجہ ہے جس میں پولیس، انتظامیہ اور عدلیہ کا باہمی تعاون شامل ہے۔
یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ایک محفوظ معاشرہ صرف پولیس کے بل بوتے پر قائم نہیں ہو سکتا۔ عوامی تعاون، قانون کی پاسداری اور شہری ذمہ داری کے بغیر کوئی بھی نظام مکمل نہیں ہوتا۔ پنجاب پولیس کی حالیہ کارکردگی اس بات کی امید دلاتی ہے کہ اگر یہی سمت برقرار رہی تو پنجاب نہ صرف امن و امان کے میدان میں بلکہ ایک مہذب اور پرامن معاشرے کی مثال بھی بن سکتا ہے۔ ہر سال کے اختتام پر اس سال کا جرائم ڈیٹا سامنے آتا ہے۔ اس سال کا جرائم ڈیٹا ابھی جاری ہوگا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ دس برس سے جاری بہتری کا سفر مزید بہتری کی جانب گامزن ہے یا پھر اس سال صورت حال مختلف رہی۔