Thursday, 11 December 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Najam Wali Khan
  4. Bilawal Bhutto Zardari Se Mulaqat

Bilawal Bhutto Zardari Se Mulaqat

یہ اچھی روایت ہوگی اگر ایک صوبے کے سیاستدان دوسرے صوبے میں جا کرکے ان کے صحافیوں، اینکرز اور تجزیہ نگاروں سے ملیں گے، اُن سے کھلا ڈُلا مکالمہ کریں گے۔ اس سے غلط فہمیوں کا ازالہ ہوتا ہے، تصویر کا دوسرا رخ سامنے آتا ہے۔ اگرچہ ٹیلی ویژن سکرینوں نے بہت سارے کام آسان کر دئیے ہیں اور عوام کو مختلف رہنمائوں کی گفتگو سے لہجے تک براہ راست رسائی ہوگئی ہے مگر بہرحال رائے عامہ کو متاثر کرنے والے اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ مجھے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ مل کر، مکالمہ کرکے اچھا لگا اور یہ بھی بلاول اپنی والدہ بینظیر بھٹو شہید کی طرح بہت سارے معاملات پر اپنی پختہ رائے رکھتے ہیں اور اس رائے کے حق میں دلائل بھی۔ انہوں نے اہم باتیں آف دی ریکارڈ کر دیں مگر ہمارے پاس تجزیہ کرنے کے لئے بہت سارا مواد موجود ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نئے صوبوں کے قیام کے حق میں نہیں ہیں اور ان کے پاس دلیل ہے کہ اگر نئے صوبوں کی طرف جانا ہے توسب سے پہلے وہ صوبہ بنا لیا جائے جس کے قیام پر اتفاق رائے موجود ہے یعنی جنوبی پنجاب اور ریاست بہاولپور۔ میرے بہت ہی پیارے صحافی دوست نے اس پر فوری لقمہ دیا کہ آپ صرف پنجاب کی تقسیم چاہتے ہیں تو بلاول کا اس سے بھی تیزی کے ساتھ جواب تھا، ہرگز نہیں، میں پنجاب کی تقسیم نہیں چاہتا مگر میں پنجاب اسمبلی کی ان قراردادوں کے بارے میں بات کر رہا ہوں جو متفقہ طور پر منظور کی گئی ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ پنجاب کی اسمبلی ایسی قراردادیں منظور کر چکی ہے اور مجھے ا چھی طرح یاد ہے کہ جب یہ قراردادیں، ایک سے زیادہ ادوار میں، منظور کی گئی تھیں تو میں نے بطور تجزیہ کار ان کی مخالفت کی تھی۔ میری رائے ہے کہ کسی ایک صوبے کی تقسیم ایک سازش ہوگی اور اگر تقسیم ہوگی تو انتظامی بنیادوں پر ہوگی اور سب صوبوں کی ہوگی۔ ابھی چند روز پہلے خیبرپختونخوا کی اسمبلی نے بھی متفقہ طور پرہزارہ صوبے کی قرارداد منظور کی ہے۔

مجھے لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صوبے کا مقدمہ اس لئے لڑتی ہے کہ اس کے بننے کے بعد اس کے پاس ایک اور صوبائی حکومت آنے کے امکانات بڑھ جائیں گے کیونکہ سنٹرل اور اپر پنجاب کی بنیاد پر وہ طویل عرصے تک پنجاب میں دوبارہ آتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی۔ میں نے یہ بات اس سے پہلے بھی بار بار کہی ہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی وفاقی حکومت کے دور میں پی ٹی آئی کی سپورٹ کرکے مسلم لیگ نون کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا زیادہ اپنا ووٹر اور سپورٹر پی ٹی آئی کے حوالے کر دیا۔

بلاول بھٹو زرداری کا یہ بھی موقف ہے کہ جب وفاق کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں تو نئے صوبے بنیں گے تو ان کے وزرائے اعلیٰ، گورنروں، وزیروں اور بھاری بھرکم بیوروکریسی کے لئے فنڈز کہاں سے آئیں گے تو اس کا جواب میاں عامر محمود کے پاس موجود ہے جو اس وقت تیس سے زیادہ صوبوں کے قیام کی مہم چلا رہے اور بالخصوص نوجوان نسل کو اس پر تیزی سے قائل کر رہے ہیں۔ ان کے پاس جواب یہ ہے کہ جب نئے صوبے بنیں گے تواس کے لئے بھاری بھرکم کی بجائے سمارٹ ایڈمنسٹریشن کا فارمولہ رکھا جائے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ڈویژن کا آر پی او ہی صوبے کا آئی جی اور کمشنر ہی چیف سیکرٹری بن جائے گا لہذا اس کے لئے نئی انتظامیہ اور نئے خرچوں کی بات درست نہیں ہے۔

یہ بات درست ہے کہ پیپلزپارٹی مضبوط صوبوں کی حامی ہے اور اسی کی بنیاد پر وہ مضبوط پاکستان کا مقدمہ پیش کرتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی طریقہ کار سے معاشی مسائل پرقابو پایا جا سکتا ہے اور وہ کسی نئی آئینی ترمیم کے لئے بھی تیار نظر نہیں آتے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ بھی پیپلزپارٹی کو ساتھ رکھنا چاہتی ہے کیونکہ اس کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ بھارت اور افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی سے بھی محاذ کھول لے سو پیپلزپارٹی اپنی اہمیت جانتی ہے اور یہ بھی کہ جس طرح خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کو نفی کرنا آسان نہیں اسی طرح سندھ سے پیپلزپارٹی کو نکالنا بھی بہت مشکل ہے۔

میں ہمیشہ سے کہتا آیا ہوں کہ ہمارے پاس یہی سیاسی جماعتیں ہیں اور یہی فوج اور یہی عدلیہ۔ ان سب نے ہی ایک دوسرے کے ساتھ چلنا اور راستہ نکالنا ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ صدر آصف علی زرداری مفاہمت چاہتے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری مزاحمت جبکہ میں نے پوری گفتگو کے بعد نتیجہ نکالا کہ بلاول بھٹو زرداری بھی مزاحمت اور مخالفت نہیں چاہتے۔ فوج تو ایک طرف رہی وہ مسلم لیگ نون کے ساتھ بھی لڑنا نہیں چاہتے۔ وہ پیپلزپارٹی کے لئے کھیلتے ہیں مگر اس کھیل میں وہ رولز آف بزنس کا خیال رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عمران خان جیسا کھیل، سیاسی کھیل نہیں رہتا وہ بقا کی جنگ بن جاتا ہے۔

مجھے بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے برادرم فواد احمد کے ساتھ ایک مکالمہ یاد آ گیا اگر ہم سندھ میں قوم پرستی کی لہر کو قابو میں رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پیپلزپارٹی کو راستہ دینا ہوگا، اس کی قوم پرستی کی سیاست کو برداشت کرنا ہوگا کیونکہ یہ ہمارے پاس سندھ میں سیفٹی والو ہے۔ یہ بات حقیقت بھی ہے کہ مشکل ترین وقت میں پیپلزپارٹی پاکستان کھپے کا نعرہ لگا دیتی ہے لہذا اگر ایک آدھ ڈیم یا ایک آدھ نہر کی قربانی دے کر ہم پیپلزپارٹی کو راستہ دے دیتے ہیں تو مجھے کہنے میں عارنہیں کہ ہم گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ ڈیم اور نہریں اور بھی بن سکتے ہیں لیکن اگر پیپلزپارٹی کو سندھ میں قوم پرستو ں کے مقابلے میں شکست ہوگئی تو یہ کسی ڈیم اور کسی نہر سے بڑا نقصان ہوگا۔

میں عمران خان کی فطرت اور سیاست کا بہت بڑا مخالف ہونے کے باوجودا س پر تعریف کرتا تھا کہ انہوں نے چاروں صوبوں میں اپنا ووٹ بینک اور حامی بنایا ہے اور میں یہی چاہتا ہوں کہ پیپلزپارٹی دوبارہ پنجاب میں مقبول ہو اور مسلم لیگ نون کی بھی سندھ اسمبلی میں خاطر خواہ سیٹیں ہوں۔ وجہ صرف یہی ہے کہ صرف فوج ملک کو متحد نہیں رکھ سکتی بلکہ اس کے لئے ایسی سیاسی جماعتیں ضروری ہیں جو چاروں صوبوں میں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے بلاول بھٹو زرداری کو لاہور میں دیکھ کے خوشی ہوئی۔

عطا اللہ تارڑ سے میرا بھائیوں والا تعلق نہ ہوتا تو میں یہ فقرہ بھی لکھ دیتا کہ وہ لاہور سے جیت جاتے تو اچھا ہوتا جیسے شہباز شریف کراچی سے جیت جاتے، ان کی فتح کو شکست میں نہ بدلا جاتا تو بہت اچھا ہوتا۔ بلاول بھٹو زرداری نے میرے ہی ایک سیاسی چٹکلے پر پیشکش کی ہے کہ مسلم لیگ نون سندھ میں اپنا گورنر لائے اور پولیٹیکلی سمارٹ بلاول اس ایک گیند پر دو شاٹس کھیل گئے، ایک میں انہوں نے ایم کیو ایم کو بھی ہٹ کر دیا۔