Friday, 17 May 2024
  1.  Home/
  2. Umar Khan Jozvi/
  3. Ramzan Aur Shaitan

Ramzan Aur Shaitan

ایک طرف مفت آٹے کے لئے لمبی لمبی لائنیں اور دوسری طرف کلمہ گومسلمانوں، نمازیوں اور حاجیوں کارمضان المبارک کے مقدس مہینے میں لوٹ مارکے نت نئے طریقے۔۔ لاالہ الااللہ کے نام پربننے والے ملک میں یہ مناظردیکھ کرواللہ سرشرم سے جھکنے لگتاہے۔

برکت، رحمت اورمغفرت کے مبارک مہینے میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کواس طرح لٹتے، ڈستے اورکاٹتے دیکھ کرشیطان بھی چپکے چپکے ہنستااور شرماتاہوگاکہ جوکام میں نہیں کر سکا وہ یہ مسلمان کرگئے۔ ہم نے تو پڑھا اور سنا تھاکہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورزبان سے دوسرامسلمان محفوظ ہو۔۔ پریہ کیا؟ آج توہمارے ہاتھ سے کوئی محفوظ ہے اورنہ زبان سے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں لوگ جھوٹ، فریب، دھوکہ اورلوٹ مارسے توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں مگرہم وہ بدبخت اوربدقسمت لوگ ہیں کہ ہم فلاح اور نیکیوں کے اس مہینے میں بھی اللہ کوبھول کرجھوٹ، فریب، دھوکہ اورلوٹ مارکے ذریعے مجبوراورلاچارمسلمانوں کودونوں ہاتھوں سے لوٹناشروع کردیتے ہیں۔

ماہ مقدس میں وہ کالے کافراورہندوبھی اس طرح لوٹ مارنہیں مچاتے جس طرح لوٹ مارکابازارہم مسلمان گرم کرتے ہیں۔ رمضان المبارک سے کچھ دن پہلے اچانک ایک دوست ملے۔ دعاسلام کے بعدہم نے پوچھاکہاں جانے کی تیاری ہے۔ کہنے لگے جوزوی صاحب آگے رمضان آرہاہے آپ کوپتہ ہے رمضان میں پھرہرچیزمہنگی ہوجاتی ہے اس لئے بازارجارہے ہیں تاکہ گھراوررمضان کے لئے کچھ ضروری اشیاء خریدسکیں۔ پھرہم نے اپنی ان گنہگاروں آنکھوں سے دیکھاکہ رمضان المبارک سے پہلے جوچیزدس بیس روپے کی تھی رمضان شروع ہوتے ہی بازاروں اور دکانوں پروہی چیزپھرسوروپے پربکنے لگی۔ رمضان المبارک کامہینہ رب کی طرف سے نیکیاں کمانے کاایک ذریعہ ہے لیکن افسوس ہم نے نیکیاں کمانے کے اس مہینے کوبھی مال ودولت کمانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔

جب بھی رمضان کا مہینہ آتا ہے اصلی شیطان توباندھ دیئے جاتے ہیں مگرافسوس ہمارے اندرکے شیطان لوٹ مارمچانے کے لئے باہرآجاتے ہیں۔ آپ اس وقت پورے ملک کاحال دیکھیں۔ بازاروں اورمارکیٹوں میں اتنی مہنگائی اور اس قدرظلم اور کسی مہینے میں نہیں ہوگا جتنااب رمضان میں شروع ہوا ہے۔ جو چیز کل تک پچاس سو روپے کی تھی رمضان کامہینہ شروع ہونے کے بعد ان کی قیمتیں اب ڈبل سے بھی ٹرپل ہوگئی ہیں۔ لوگوں کے پاس کھانے پینے کے لئے پہلے سے کچھ نہیں اوپرسے ہم نے رمضان کی برکت سے ان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنابھی شروع کر دیا ہے۔ کہنے کوتوہم بڑے پکے ٹکے اورسچے مسلمان ہیں۔

حج اورعمرے ہمارے کسی سے کم نہیں۔ نمازیں بھی ماشاء اللہ سے ہم پابندی کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن پھربھی کوئی مجبور، لاچار اور کوئی غریب ہم سے بچ کے نکلے سوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ جن کے دل میں خداکاخوف ہووہ اللہ کے ڈرکی وجہ سے ذکرواذکار اور استغفار پڑھنے کے لئے ہاتھوں میں تسبیح پکڑتے ہیں لیکن ہم تسبیح کے ایک ایک دانے کو مجبوروں، لاچاروں اور غریبوں کا شکار کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔

ہم اپنی دکانوں اورمارکیٹوں کے نام مکہ ومدینہ اس لئے رکھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ ہمارے ہاتھ لگ کرکسی نہ کسی طرح جال میں پھنس جائیں۔ لوگ مذہب اور عبادات کے ذریعے قبر حشر اور آخرت کے لئے تیاری کرتے ہیں لیکن ہم مذہب اور عبادات کے ذریعے کاروبارچمکانے اورمال بنانے کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔ حج، عمرہ اور نماز قبول ہو یا نہ۔ اس کی فکر ہمیں نہیں بس خیال اور خواہش یہ ہے کہ لوگ ہمیں حاجی اورنمازی کہیں۔ جہاں ایسے حاجی اورنمازی ہوتے ہیں وہاں پھر رمضان میں مہنگائی کاطوفان ہی آتاہے۔

آپ ملک کے کسی بھی صوبے اورکونے میں کسی بھی انجان دکان، مارکیٹ اوربازارمیں جھانک کردیکھیں آپ کو اکثر مہنگائی کے کرتا دھرتا یہی نام کے حاجی اور نمازی ملیں گے۔ حج اورعمرے ہم ادا کرتے ہیں نماز بھی ہم پڑھتے ہیں لیکن جھوٹ، فریب، دھوکہ اور لوٹ مارسے ہم پھربھی بازنہیں آتے۔ گرانفروشی اور ذخیرہ اندوزی کاجہاں بھی ذکرہوگااس میں پہلا نمبر ہمارا ہوگا۔

انسانیت، خداخوفی، احساس اور رحم دلی پر دوسروں کولیکچر دیتے ہوئے ہم تھکتے نہیں، جھوٹ، فریب، دھوکہ اورلوٹ مار کے نقصانات اورعذاب سے دوسروں کو ڈرا ڈرا کر اپناپسینہ تک ہم نکال دیتے ہیں لیکن ظلم، جھوٹ، دھوکہ، گرانفروشی اورلوٹ مارسے ہم باز پھربھی نہیں آتے۔ لوگ مشکل اورکڑے وقت میں لوگوں کو سہارادیتے ہیں لیکن ہمیں لوٹ مارکے لئے ہمیشہ مشکل وقت اور مجبور لوگوں کا انتظار رہتا ہے۔ سوحج اورسوعمرے کرکے ہی ہم کیوں واپس نہ آئیں سیدھے ہم پھربھی نہیں ہوتے۔

ہم ہمیشہ اس تاک میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کہیں سے کوئی مجبور، لاچاراور کوئی غریب آ جائے۔ لوگوں کی مجبوری، بے بسی اورلاچاری سے فائدہ اٹھاناکوئی ہم سے سیکھے۔ مہذب معاشروں میں لوگ مارے ہوئے کومارانہیں کرتے مگریہاں مارے ہوئے کو بار بار مارنے کوبہادری اورغیرت کے ساتھ ثواب کا درجہ بھی دیا جاتا ہے۔ ملک کے اندرلوگ اس وقت مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے باعث بھوک سے بلک بلک کرمر رہے ہیں مگرہم پھر بھی اس چکرمیں پڑے ہوئے ہیں کہ کس طرح ان کو مزید لوٹا جائے۔

لوگوں کے پاس پہلے سے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہوتا اوپرسے جب دس روپے کی چیزان کوسوروپے میں ملنے لگتی ہے تو پھر مفت آٹے کے لئے ماؤں، بہنوں اوربیٹیوں کو اسی طرح سڑکوں پر نکلنا پڑتا ہے۔ لوگ مہنگائی اورغربت کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہے اوپرسے اگران کو اسی طرح ہرجگہ لوٹاجائے گا توپھراللہ کے یہ بندے خودکشی اورخودسوزیاں نہیں کریں گے تواورکیاکریں گے؟ آٹا، چینی، چاول، دال اور گھی کی تلاش میں سرگرداں ان مجبور، لاچار اور غریب انسانوں و مسلمانوں میں جوبھی ہجوم میں رونداجاتاہے یاپاؤں تلے مسلا جا تاہے۔

اس کاخون اس ملک اور معاشرے کے ہراس ظالم کے سرہے جو آج بھی دس روپے کی چیزسوروپے میں بیچ کرغریبوں کے منہ سے نوالہ چھین رہے ہیں۔