Tuesday, 21 May 2024
    1.  Home/
    2. Umar Khan Jozvi/
    3. Do Tehai Aksariat

    Do Tehai Aksariat

    2018 کے الیکشن بارے میری پیشنگوئی اور تجزیہ چونکہ سو فیصد غلط ثابت ہو چکا تھا اس لئے اسے پکا یقین تھا کہ اب کی بار بھی یہ جو کہے گا وہ سو فیصد نہ بھی ہوا کم از کم اسی نوے فیصد تو غلط ثابت ہوگا ہی۔ اسی لئے اس نے آستین اوپر چڑھاتے ہوئے کہا کہ جوزوی صاحب عمران خان کے بارے میں اب کیا خیال ہے؟ یہ ان دنوں کی بات ہے جب نہ چاہتے ہوئے بھی کپتان اپنے کھلاڑیوں سمیت راتوں رات گراؤنڈ سے باہر ہوگئے تھے۔

    تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور مشکل و نامساعد حالات میں اقتدار و حکمرانی کا بوجھ پی ڈی ایم کے کندھوں پر ڈالنے کو اکثر لوگ کپتان کے روشن مستقبل کی نوید سمجھ رہے تھے مگر میں نے اس منطق اور فلسفے سے اتفاق کیا؟ کسی بھی اینگل سے ماننے کے لئے تیار نہ تھا۔ حالانکہ ان لوگوں کی رائے، بات اور مؤقف میں کافی حد تک وزن تھا، ان کا خیال تھا کہ ایک ایسے وقت میں جب ملک معاشی طور پر تباہ اور دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔

    تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار کا بوجھ پی ڈی ایم کے کندھوں پر ڈالنا گیارہ جماعتی اتحاد کو گندا اور بدنام کرنے کے سوا کچھ نہیں، یہ مستقبل قریب میں کپتان کو دوتہائی اکثریت دلانے کی ایک چال ہے۔ ویسے جن حالات میں کپتان کو نکال کر اقتدار و حکمرانی کا بوجھ پی ڈی ایم کے کندھوں پر ڈالا گیا تھا وہ حالات سچ میں پی ڈی ایم کے لئے خراب کیا بلکہ بہت ہی خراب تھے۔ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سمیت ملک کی معاشی تباہی اور دیوالیہ پن جیسے عمران خان کے بہت سارے گناہ یکدم کپتان کے کندھوں سے ہٹ کر پی ڈی ایم کی جھولی میں آن گرے تھے۔

    پھر واقعی مسائل و مصائب کی وجہ سے جو لوگ پہلے کپتان کو گناہ گار کہتے و سمجھتے تھے وہ پھر پی ڈی ایم والوں کو ہی تمام مسائل اور گناہوں کی جڑ سمجھنے اور کہنے لگے۔ یہ سب باتیں کھلی کتاب کی مانند ظاہر اور سامنے تھیں لیکن میں نے پھر بھی کہا کہ عمران خان کے بارے میں میرا وہی خیال ہے جو آپ جیسے بہت سوں کا نہیں۔ کپتان کی کہانی ختم ہو چکی، دوتہائی اکثریت تو دور مستقبل قریب میں عمران خان سادہ اکثریت سے بھی حکومت میں نہیں آ سکتے۔

    میری بات سن کر وہ قہقہے لگانے لگے، کپتان دوتہائی اکثریت سے واپس آ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ سادہ اکثریت سے بھی نہیں آ سکتے، آپ کو اگر اپنی بات کا اتنا یقین ہے تو چلو ایک شرط لگاتے ہیں میں کہتا ہوں جون 2023 سے پہلے کپتان دوتہائی اکثریت سے واپس آئینگے نہ آئے تو میری طرف سے دس ہزار روپے آپ کا انعام اور اگر آ گئے تو آپ مجھے دس ہزار انعام دیں گے۔ میں نے کہا شرط لگانا حرام ہے، وہ کہنے لگے چلیں کھانا کھانا لگ گیا۔ میں نے کہا شرط میں کھانا بھی تو حرام ہے۔ کہنے لگے چلو شرط نہیں بھائی چارے میں کھانا کھا لیں گے۔

    میری اور ان کی کپتان اور دوتہائی اکثریت والی یہ باتیں یہیں ختم ہوئیں۔ کچھ دن بعد ایک شادی تقریب میں شرکت کے لئے مجھے بٹگرام کے علاقے ککڑشنگ جانا پڑا، وہاں صبح ناشتے کی میز پر میں چپ چاپ بیٹھا تھا کہ قریب ستر اسی سالہ ایک سیاسی بابا کپتان کے ایسے گن گائے جا رہے تھے کہ جیسے یہ فواد چوہدری یا شیخ رشید کے کوئی بڑے بھائی یا ماموں کے بیٹے کامران کے دادا ہوں۔ آس پاس بیٹھے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگے کہ کپتان کو ویسے نہیں نکالا گیا ہے، تم دیکھ لینا کپتان 2023 میں دوتہائی اکثریت کے ساتھ دوبارہ واپس آئیں گے۔

    یہ دوتہائی اکثریت والی بات سے مجھے کچھ جھٹکا سا لگا اور مجھے فوراً وہ دوتہائی اکثریت والے اپنے صاحب یاد آنے لگے، میں سمجھ گیا کہ اس قبیل سے تعلق رکھنے والے سیاسی بچوں اور جاہل جوانوں کے ساتھ نادان بزرگوں کا کنکشن تقریباً ایک ہی ہے۔ اگلے ایک دو ہفتوں بعد اچانک میرا گاؤں جانا ہوا۔ ہمارے گاؤں میں پی ٹی آئی کے ایک دو استاد زبانی کلامی سیاسی تبصروں اور تجزیوں میں بڑی شہرت رکھتے ہیں۔

    اتفاق سے ایک دن میرا ان دونوں سے ایک ہی جگہ آمنا سامنا ہوا۔ باتوں باتوں میں بات جب سیاست اور سیاسی حالات تک پہنچ گئی تو وہ دونوں کہنے لگے کپتان دوتہائی اکثریت سے واپس آ رہے ہیں۔ شاگردوں کے بعد استادوں کی زبان سے جب میں نے دوتہائی اکثریت والے الفاظ سنے تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ دوتہائی اکثریت والا سبق ویسے زبان زد عام نہیں، یہ لازمی طور پر ان لوگوں کو کسی نے پڑھایا ہوگا۔ استاد اور شاگردوں کو یہ دوتہائی اکثریت والا سبق کس نے پڑھایا تھا؟

    اس کے بارے میں تو علم نہیں لیکن یہ پتہ ضرور ہے کہ میرے والے صاحب سے لیکر ان استادوں تک جنہوں نے یہ سبق پڑھایا تھا یہ سو فیصد غلط اور غیر نصابی تھا۔ سیاست کے نصاب میں یہ سبق کہیں نہیں کہ جسے دھکے دے کر اقتدار کی گلی سے نکالا جائے اسی موسم و سیزن میں وہ دوتہائی اکثریت لیکر واپس آئے۔ کپتان جیسے دھتکارے لوگوں کو اقتدار میں واپس آنے کے لئے سال نہیں پھر پانچ سال لگتے ہیں۔ یہ بات اب غالباً استاد اور شاگرد سب سمجھ گئے ہیں تب ہی تو کپتان سے لیکر کھلاڑیوں تک سارے دوتہائی اکثریت سے خاموش ہیں ورنہ دوتہائی اکثریت والے قصے اور کہانیاں سن سن کر کان پک گئے تھے۔

    2023 آدھا گزر چکا، جون بھی رخصت ہونے کے قریب ہے، دوتہائی اکثریت کیا؟ کپتان ایک تہائی اکثریت سے بھی واپس نہیں آئے اور نہ ہی عمران خان کے جلد واپس آنے کے کوئی امکانات ہیں کیونکہ موجودہ حالات میں دور دور تک دوتہائی اکثریت والی کوئی فلائٹ نظر نہیں آ رہی۔ کپتان اور کپتان کے کھلاڑیوں، اپنے والے صاحب، اس بزرگ اور ان استادوں سے معذرت کے ساتھ یہ تو ہم نہیں کہہ سکے کہ کپتان دوتہائی اکثریت سے واپس آ رہے ہیں لیکن یہ یقین سے کہہ رہے ہیں کہ کپتان سادہ نہیں بلکہ دوتہائی اکثریت سے گئے ہیں اور دوتہائی اکثریت سے جانے والے پھر اتنی جلدی واپس نہیں آتے۔