Saturday, 26 July 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Syed Badar Saeed
  4. Ambulance Ke Peeche Jaane Ka Pehla Haq

Ambulance Ke Peeche Jaane Ka Pehla Haq

اپریل 2021 کی بات ہے۔ زندگی میں پہلی بار مجھے گاڑی چلاتے ہوئے وحشت ہو رہی تھی۔ میں ایک ایمبولنس کا پیچھا کر رہا تھا اور ہوٹر بجاتی اس تیز رفتار ایمبولنس کو کھونے سے ڈر رہا تھا۔ مجھے صرف اتنا پتا تھا کہ ریسکیو 1122 کی یہ ایمبولنس پہلے سروسز ہسپتال جائے گی لیکن اگر وہاں جگہ نہ ہوئی تو کسی اور ہسپتال کی طرف نکل جائے گی۔ اگر دوسرے ہسپتال نے بھی مریض کو نہ رکھا تو ایمبولنس پالیسی کے مطابق مریض کو بے یارو مددگار اتار کر واپس چلی جائے گی۔

میں شدید خوفزدہ تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایمبولنس اور میری گاڑی کے درمیان فاصلہ بڑھتا جائے اور میں اسے کھو دوں۔ اس ایمبولنس میں وی وی آئی پی شخصیت تھی۔ میں نے ڈبل انڈیکیٹر چلا دیئے تاکہ دیگر گاڑیوں کو پتا لگ جائے کہ میں ایمرجنسی میں جا رہا ہوں۔ اس روز مجھے دو باتوں کا احساس ہوا۔ پہلی یہ کہ ایک شخص ہمارے لیے وی وی آئی پی ہوتا ہے لیکن کسی دوسرے کے لیے وہ عام مریض ہوتا ہے۔

دوسری یہ کہ ہمارے معاشرے میں لوگ ایمبولنس کو راستہ دیتے ہی اس کے پیچھے گاڑی یا بائیک لگا دیتے ہیں تاکہ وہ جس تیزی سے جائے گی اسی رفتار سے ہم بھی چلے جائیں گے۔ اس روز سے قبل مجھے بھی یہ معلوم نہیں تھا کہ ایمبولنس کے ساتھ کوئی اور گاڑی یا بائیک ہو سکتی ہے جس کے سانسوں کی لڑی اس ایمبولنس کے ہوٹر سے جڑی ہوتی ہے۔ میں نے ڈبل انڈیکیٹر چلانے کے ساتھ ساتھ پوری قوت سے ہارن پر ہاتھ رکھا ہوا تھا اس کے باوجود جلدی پہنچنے کے شوق میں لوگ گاڑی اور ایمبولنس کے درمیان آتے جا رہے تھے۔ وہ ایمبولنس دھیرے دھیرے مجھ سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اس دن

احساس ہوا کہ ایمبولینس کے پیچھے جانے کا پہلا حق کس کا ہوتا ہے۔ اس ایمبولنس میں میرے والد تھے۔ چار دن بعد ایسی ہی ایک ایمبولنس کا پیچھا کرتے کرتے میں گھر واپس آ رہا تھا تو ایک لاپروا لڑکے سے گھر کا "ذمہ دار بڑا" بن چکا تھا۔ اب کی بار میرا ہاتھ ہارن کی بجائے مسلسل آنکھیں صاف کرنے میں مصروف تھا۔ جس لڑکے نے کبھی سبزی تک نہ خریدی تھی اس نے اب پورے گھر کی ذمہ داری سنبھالنا تھی۔ اس دن کے بعد میں گاڑی روک کر ٹریفک میں پھنسی ایمبولنس کا راستہ کلیئر کرا دیتا ہوں اور راستہ بناتی ایمبولنس کے پیچھے اپنی گاڑی نہیں لگاتا۔

2021 میں کورونا کی تباہ کاریاں کافی حد تک کنٹرول ہونے لگی تھیں لیکن ابھی تک یہ وبا پاکستان میں جاری تھی۔ اپریل 2021 میں مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ باپ کو "گھنا درخت" کیوں کہا جاتا ہے۔ ہم جتنے بھی کامیاب ہو جائیں لیکن گھر کی چارپائی پر لیٹے بوڑھے باپ کی موجودگی تحفظ کا احساس دلاتی رہتی ہے۔ "ابھی تمہارا باپ زندہ ہے" جیسا جملہ دنیا کا سب سے طاقتور جملہ ہے جسے سننے کے بعد آپ میں طوفانوں سے ٹکرانے کا حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے۔

والد کی وفات وہ سانحہ ہے جس سے ہم میں سے ہر شخص کو گزرنا پڑتا ہے کہ موت اٹل حقیقت ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ باپ کی اہمیت کا اصل احساس انہیں کھونے کے بعد جنم لیتا ہے۔ گھر کی چھت جب تک قائم رہے اس کی اہمیت ضرورت کی حد تک ہی رہتی ہے لیکن جس دن وہ چھت گر جائے اس دن انسان خود کو کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑا محسوس کرتا ہے۔ چھت کی اصل اہمیت اسے کھونے والے ہی جانتے ہیں۔

اس میں دو رائے نہیں کہ ماں کی اہمیت سب سے زیادہ ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لوگ اس اہمیت کا بتاتے بتاتے والد کی توہین کر جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ باپ کا ہی ظرف ہے کہ بیٹا گاڑی پر فخر سے لکھوا کر آتا ہے "یہ سب میری ماں کی دعا ہے " اور اس بیٹے کو کامیاب انسان بنانے کے لیے دن رات محنت کرکے کمانے والا باپ یہ جملہ پڑھ کر مسکراتے ہوئے دعا دیتا ہے۔ بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو "یہ سب میرے والدین کی دعا ہے " لکھواتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جس جوش و خروش سے "مدر ڈے" منایا جاتا ہے ایسے ہی جوش و خروش سے "فادر ڈے " کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ جن لوگوں نے اپنی ماں کو کھویا ہے ان کے سامنے ماں کا ذکر کریں تو وہ رونے لگتے ہیں۔ یقیناََ یہ رشتہ ہی ایسا ہے لیکن جو اپنے والد کو کھو کر گھر کے بڑے بنے ہیں کبھی ان کے سامنے "باپ کی شان" پر بات کرکے دیکھیں۔ میں شرط لگانے کو تیار ہوں کہ ایسی محفل میں دھاڑیں مار کر رونے والوں کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔

یتیمی عمر بھر کے غیر محسوس خالی پن کا نام ہے۔ پچاس سال پہلے یتیم ہونے والوں سے پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ آج بھی اس شخص کی کمی کا احساس اپنے اندر محسوس ہوتا ہے جو زندہ ہوتا تو حالات کچھ اور ہوتے۔ یہ احساس انسان کی موت تک اس کے ساتھ رہتا ہے۔ اسلام میں یتیموں کا خیال رکھنے کا بہت اجر ہے حالانکہ یتیمی کا تعلق غربت سے نہیں ہے۔

یتیم ارب پتی ہو تب بھی یتیم رہتا ہے اور اپنے اندر کے احساس زیاں سے چھٹکارہ نہیں پاتا۔ اس کمی کی وجہ سے ہی رب نے یتیموں سے حسن سلوک کا خاص حکم دیا ہے۔ اگر آپ کے والد زندہ ہیں تو یقین مانیں آپ دنیا کے خوش قسمت ترین انسان ہیں کیونکہ باپ کا رشتہ زندگی میں ایک بار ہی ملتا ہے اور باپ کو کھونے والا ارب پتی ہو تب بھی عمر بھر یتیمی کا دکھ سہتا ہے۔