چند دن پہلے کسی جگہ ہم چار دوست بیٹھے تھے۔ دو بہت پرانے دوست بڑی شدت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ اچانک گرم بحث کرنے لگے۔ مجھے اپنی زندگی کے طویل تجربے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ گفتگو بہت جلد ذاتی نوعیت کی شکل اختیار کر لے گی۔ تلخی بڑھے گی۔
میں نے دو تین دفعہ موضوع بدلنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ دونوں کے اندر لگ رہا تھا کچھ پرانے غصے ہیں۔ بات اب ذاتی گلے شکوے تک آن پہنچی تھی۔
میں کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن چپ رہا۔ آخر مجھے کچھ سپیس ملی تو میں نے ان دوستوں کو کہا میں نے عمر کے ساتھ سیکھا کہ دوستوں کو ہر بات کہہ دینا بھی دوستی نہیں ہوتی۔ ہمارے ہاں یہ تصور غلط ہے جو منہ میں آئے کہہ دو کہ یہی دوستی ہے۔
مجھے یاد آیا میں اکثر دوستوں کی محفل میں کوئی بات کہتے کہتے رک جاتا تو ہمارا یار ارشد شریف چڑ جاتا۔ مجھے دو تین سنا کر کہتا اگر ہم دوستوں نے بیس بائیس سال سے زائد دوستی کے بعد بھی گفتگو سوچ سمجھ کر کرنی ہے یا کوئی آیا ہوا فقرہ روک لینا ہے کہ دوست کو برا نہ لگے تو پھر کیا فائدہ۔ اس کا ماننا تھا کہ دوست اس لیے ہوتے ہیں کہ جو دل میں آئے کہہ دو۔
میں جواب دیتا تھا نہیں یار میرے ایک جملے پر ہوسکتا ہے وہ دوست ذلیل ہو جائے اور باقی ہم سب اس جملے پر قہقے لگا کر لطف اندوز ہوں تو میرے خیال میں مزہ نہیں آئے گا۔ وہ دوست ہوسکتا ہے وقتی طور پر ہماری طرح اس جملے پر قہقہ لگائے گا لیکن دل کے اندر احساس رہ جاتا ہے کہ مجھ پر میرے دوست ہنس رہے تھے۔ اس دوست نے جملہ پھینک دیا جس سے میری سبکی ہوئی۔
یہ دوستوں کی محفل کے چھوٹے چھوٹے جملے اکھٹے ہوتے رہتے ہیں اور ایک دن ان کا وزن اٹھانا مشکل ہوجاتا ہے اور وہ پھٹ پڑتے ہیں۔ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا وہی ہوتا ہے کہ پھر کسی دن کسی اور بات کا بہانہ بنا کر وہی دوست معمولی بات پر بھی بھڑک پڑتے ہیں اور آپ حیران ہوتے ہیں یار اسے کیا ہوگیا ہے۔ ایسی بڑی بات تو نہیں تھی۔ وہ واقعی معمولی بات ہوتی ہے لیکن اس کے پیچھے ایسے سینکڑوں جملے کھڑے ہوتے ہیں جو ایک دن آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتے ہیں۔
اس لیے عمر کے اس حصے میں آکر اب میں یہ سوچ کر خاموش ہوجاتا ہوں اگر مجھے یہ جملہ کوئی کہے تو شاید میں ہرٹ ہوں گا چاہے اس وقت دانت نکال کر ہنس پڑوں کہ مجھے فرق نہیں پڑا۔
ان دونوں دوستوں کو بھی کہا تمہاری اس دھواں دھار گرمی سردی کی وجہ آپ کے ماضی میں ایک دوسرے پر پھینکے گئے جملے، طعنے ہیں یا کچھ ایسی باتیں ہیں جو آپ کے نزدیک ناپسندیگی کا درجہ رکھتی ہیں۔
ایک دوست نے کہا بالکل ایسا ہی ہے۔
وہ دونوں ابھی تک تلخی کی حد تک بحث کررہے تھے اور میں افسردہ ہو رہا تھا ان کے تعلقات اب وہ نہیں رہیں گے جو پہلے تھے بے شک وہ لاکھ اداکاری کرتے رہیں کہ نہیں کچھ نہیں ہوا۔ میرا خیال ہے بہت کچھ ہوجاتا ہے۔
آپ پھر دھیرے دھیرے ملنا کم کردیتے ہیں، رابطہ کم ہوتا جاتا ہے اور ایک دن جملے بازی جیت جاتی ہے اور دوست ہار جاتے ہیں۔
میں نے آٹھ دس برس لیہ کالج سے ملتان یونیورسٹی تک طویل ہوسٹل لائف گزاری جہاں دوستوں کا ایک ہی اصول تھا کسی کی بے عزتی کر دو یا کرا لو۔ آپ نیوٹرل نہیں رہ سکتے۔لیکن وقت کے ساتھ اب میں دوستوں کی محفلوں میں جملے بازی سے گریز کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ دوست اہم ہیں۔ جملے نہیں۔ تلخی بڑھنے سے پہلے موضوع بدل دو۔
اب تو خود پر حیرانی ہوتی ہے کہ عمر اور وقت بھی کیا کچھ سکھا دیتا ہے۔۔