کچھ دن پہلے ایک کیفے پر ایک ڈھلتی عمر کی خوبصورت خاتون میرے پاس آئیں۔ مجھے لگا ان سے پہلے بھی ملاقات ہوئی ہے لیکن فوراََ یاد نہ آیا۔ یہ سوچ کرمسکرا پڑا کہ بندہ خوبصورت چہرے بھولنے لگ جائے تو یقیناََ خرابی شروع ہوچکی ہے۔
وہ ہنس کر بولی مسٹر کلاسرا بڑے سالوں بعد آپ سے ملاقات ہورہی ہے اس لیے اگر یاد نہیں رہا تو کوئی بات نہیں۔ آپ بیس سال پہلے انگریزی اخبار دی نیوز میں تھے جب آپ سے ملاقات ہوئی تھی۔ بڑا عرصہ گزر گیا۔ اس وقت تو میں خود بھی بہت جوان اور خوبصورت تھی۔
میں نے انہیں غور سے دیکھا اور کہا خیر ابھی بھی آپ خوبصورت ہیں۔
وہ میرے ساتھ بیٹھ گئیں۔
ان کے لیے کافی منگوائی۔ باتیں شروع ہوئیں تو یاد آگیا کہ وہ کون تھیں۔
میں نے پوچھا کیا بنا اتنے سارے آپ کے چاہنے والے تھے پھر شادی کس خوش نصیب سے ہوئی؟
اچانک اداس ہوگئیں اور بولیں مسٹر کلاسرا۔۔ میری شادی نہیں ہوئی۔ میں نے حیرانی سے اسے دیکھا اور کہا آپ سے تو درجنوں نوجوان شادی کے لیے مرے جارہے تھے۔
خود ہی بولیں میری عمر اس وقت 45 سال ہوچکی ہے۔ اب تو لگتا ہے شادی نہیں ہوگی بلکہ اب تو امید بھی نہیں رہی اور کوشش بھی چھوڑ دی ہے۔ میں نے کہا لیکن آپ کو کوشش کی کیا ضرورت تھی۔ مجھے یاد پڑتا ہے میرے اپنے دو تین دوست آپ سے شادی کے لیے بے چین تھے۔
مسکرا کر کہنے لگیں وہ بات تو ٹھیک ہے لیکن اب مجھے عمر کے اس حصے میں پہنچ کر لگتا ہے کہ میری شادی نہیں ہوگی۔ اب اکیلے ہی گزرے گی۔ میری ایک دوست کے والد نے میرا زائچہ بنا کر کہا تھا کہ میری شادی بہت دیر سے ہوگی اور ان کی بات ٹھیک نکلی۔
میں نے ان کے چہرے پر نظر ڈال کر کہا اگر آپ کا دل نہ ٹوٹے تو آپ کی اس دوست کے ستارہ شناس والد کا کہنا تھا کہ آپ کی شادی نہیں ہوگی، وہ مہذب انسان ہوں گے کہ آپ کا دل نہیں توڑنا چاہتے ہوں گے۔ جب کوئی اسٹرولوجر اس طرح کی بات کرتا ہے تو مطلب ہے شادی نہیں ہوگی۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ آپ کی شادی نہ ہوسکی؟
ایک آہ بھر کر بولیں آپ کو سچی بات بتائوں۔ اس میں میرا ہی قصور تھا۔ شاید جوانی کے دنوں میں ہم لڑکیاں بہت ساری باتوں کا خیال نہیں رکھتیں۔ خوبصورتی کا اپنا ایک رنگ اور نخرہ ہوتا ہے۔ اچھا لگتا ہے کہ لوگ آپ کے پیچھے لگے رہیں اور آپ سب کو نظر انداز کرتے رہیں کہ ابھی اتنی جلدی کیا ہے۔ بہتر سے بہتر کی تلاش کا چکر۔
کچھ دیر کے لیے رکیں اور بولیں دراصل دو بڑے اچھے رشتے تھے۔ میرے دوست تھے لیکن مجھے وہ افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ ایک نے تو مجھے منہ پر کہہ دیا تھا کہ وہ میرے خرچے اپنی سرکاری تنخواہ میں نہیں اٹھا سکتا۔ دوسرے کو بھی یہی لگا تھا کہ میں فضول خرچ ہوں اور ان کا ابھی سے اتنا زیادہ خرچہ کراتی ہوں تو شادی کے بعد تو حالت مزید خراب ہوجائے گی۔ مجھے اس وقت تو یہی لگتا تھا کہ جو مجھے افورڈ کر سکے گا اس سے شادی کروں گی۔ کھل کر خرچہ اور عیاشی۔
اب شادی کا وقت گزر گیا ہے تو مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے خود کو اس طرح کیوں بنا لیا تھا کہ میرے جو بھی قریب آتا تھا اسے لگتا تھا وہ مجھے افورڈ نہیں کر پائے گا۔ لڑکیوں کو اس طرح نہیں کرنا چاہیے اور میں نے یہی کچھ کیا اور غلط کیا۔
اب میں وقت کو ریورس نہیں کر پاتی اور خود پر غصہ آتا ہے۔ اب میں کنوارہ چھوڑیں کسی کی دوسری تیسری بیوی بننے کا بھی سوچتی ہوں اور حیرانی سے ہنس پڑتی ہوں کہ واقعی یہ میں ہوں جو بیس سال پہلے درجنوں نوجوانوں کو کہتی تھی کہ آپ مجھے شادی کے بعد افورڈ نہیں کرسکتے۔ اب سوچتی ہوں میں ایسا کیوں سوچتی تھی۔ میں نے خود کو ایسا کیوں بنا لیا تھا کہ لڑکے مجھ سے دور ہوگئے کہ اس لڑکی کو کون افورڈ کرے گا۔
مجھے بڑے عرصے بعد کوئی ایسا انسان ملا جو بڑی بے رحمی کے ساتھ اپنا کڑا احتساب کرنے پر تلا ہوا تھا۔۔ جسے زمانے سے نہیں بلکہ خود سے گلہ تھا۔