Thursday, 12 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Modi Ka Apni Qaum Parast Khud Mukhtari Ka Drama

    Modi Ka Apni Qaum Parast Khud Mukhtari Ka Drama

    نوجوان نسل کو تاریخ کے حوالے دینا پسند نہیں۔ دو ہمسائے مگر جب ایٹمی جنگ کے دہانے کے بہت قریب پہنچ کر رک جائیں تو ذہن میں جمع ہوئے تاریخی واقعات بھلائے نہیں جاسکتے۔ حالت اضطراب میں ان کے حوالے دینا بلکہ مزید ضروری ہوجاتا ہے۔

    کئی روز خاموش رہنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کی شام اپنی قوم سے خطاب کیا۔ موصوف کا خطاب شروع ہونے سے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹے قبل دنیا کی واحد سپرطاقت تصور ہوئے امریکہ کے صدر ٹرمپ نے وائٹ ہائوس میں کھڑے ہوکر کیمروں کے روبرو کچھ خیالات کا اظہارکیا۔ پاکستان اور بھارت کے مابین جنگ بندی زیر بحث موضوعات میں جائز بنیادوں پر سرفہرست رہی۔ ٹرمپ مصر رہا کہ جنگ بندی یقینی بنانے میں اس کے ملک نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صحافیوں نے اس تناظر میں شک وتجسس سے بھرے سوالات اٹھائے تو امریکی صدر یہ انکشاف کرنے کو مجبور ہوگیا کہ ابتداََ دونوں ملک جنگ بندی کو آمادہ نہیں تھے۔ بالآخر انہیں واضح الفاظ میں یہ پیغام دینا پڑا کہ اگر جنگ فی الفور بند نہ ہوئی تو امریکہ پاکستان اور بھارت کے ساتھ تجارت سے گریز کرے گا۔

    تجارت کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ کو یہ حقیقت یاد رکھنا ہوگی کہ امریکہ پاکستان کی مصنوعات کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اوسطاََ ہم اس ملک کو 7ارب ڈالر مالیت کی اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ عالمی تجارت کے وسیع تر تناظر میں یہ حجم مضحکہ خیز حد تک تقریباََ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ہماری معیشت کو رواں رکھنے کے لئے مگر یہ حجم آئی سی یومیں بسترپر لیٹے مریض کے لئے آکسیجن کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے باوجود اگر "قومی غیرت" آڑے آجاتی تو ہم امریکہ کی جانب سے تجارت کی بندش والی دھمکی کو نظرانداز کرسکتے تھے۔

    پاکستان نے مگر 6اور 7مئی کی درمیانی رات سے شروع ہوئی جنگ کا آغاز نہیں کیا تھا۔ بھارت نے اس ضمن میں پہل دکھائی۔ اپریل کے وسط میں مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ہوئے دہشت گرد حملے کا ذمہ دار پاکستان کی ریاست اور حکومت کو ٹھہرایا اور "سبق" سکھانے پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ بدقسمتی سے دنیا کی بہت بڑی "پروفیشنل" فوج رکھنے کے دعوے دار نے 6اور 7مئی کی رات ہوئے حملے کے ذریعے ہماری فوج کو نہیں للکارا۔

    بہاولپور اور مظفر آباد جیسے گنجان آباد شہروں کے تقریباََ قلب میں واقع چند مساجد اور مدارس کو "دہشت گردوں کی تربیت گاہیں" قرار دے کر انہیں میزائلوں کی بارش سے زمین بوس کردیا۔ 7مئی کی صبح ہوئی تو بھارتی حکومت کے ترجمانوں نے نہایت مکاری سے اعلان کیا کہ پاکستان میں "دہشت گردوں کی نرسریوں" کو تباہ کرکے پہلگام پر ہوئے حملے کا بدلہ لے لیا گیا ہے۔ بھارت "پاکستان" کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔ اس کا بنیادی مسئلہ وہاں مبینہ طورپر موجود "دہشت گردوں کی تربیت گاہیں" ہیں۔ انہیں بہاولپور، مرید کے اور مظفر آباد میں تباہ کرنے کے بعد مزید جنگ کی ضرورت نہیں۔

    اپنے تئیں پاکستان میں مبینہ طورپر قائم "دہشت گردوں کی تربیت گاہوں" کو تباہ کرنے کے بعد چین سے بیٹھنے کے بجائے 7اور 8مئی کی درمیانی رات سے بھارت نے پاکستان کے تقریباََ ہر شہر کو اسرائیل کے بنائے ڈرونز کے ذریعے "پھرولنا" شروع کردیا۔ پنجابی کا یہ لفظ میں نے جنگی اصطلاح (Probing)کے ترجمے کے لئے استعمال کیا ہے۔ ڈرون بنیادی طورپر ایک جاسوس طیارہ ہے۔ بغیر پائلٹ کے چلائے اس کھلونا نما طیارے کو دشمن ملک کی سرحد کے اندر بھیج کر اہم تنصیبات کی تصاویر لینے کے علاوہ یہ جاننے کی کوشش بھی ہوتی ہے کہ جس ملک کے خلاف جنگ لڑنا ہے اس کا فضائی دفاع کتنامضبوط ہے۔

    سیٹلائٹ کے فروغ کے بعد مگر ڈرون کی "جاسوسی" افادیت ختم ہوچکی ہے۔ خلامیں آوارہ گھومتے سیٹلائٹ کے ذریعے اب دنیا کے کسی بھی مقام کی جنگی اعتبار سے تفصیلی تصویر بآسانی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سیٹلائٹ متعارف ہوجانے کے بعد ڈرون اب جاسوسی طیارہ نہیں رہا۔ انسان کی موجودگی کے بغیر اڑایا یہ چھوٹا ساطیارہ بارودی مواد بھی دشمن ملک تک لے جاسکتا ہے۔ اگرچہ اس کی مقدار ایک حد تک محدود ہوتی ہے۔

    بھارت کی جانب سے 6اور 7مئی کے بعد ڈرونز کی "بارات" بھیجنے کا واحد مقصد اس خفت کو مٹانا تھا جو اسے فرانس سے بہت چائوسے خریدے رافیل طیاروں کی تباہی کی بدولت نصیب ہوئی۔ وہ پاکستان کے خلاف جارحیت کے لئے استعمال ہونے کو اڑانیں بھرنے والے تھے۔ پاکستان کے فضائی دفاع کے نظام نے مگر انہیں سرحد پار کئے بغیر ہی تباہ کردیا۔ چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے فرانس کے تیار شدہ ناقابل تسخیر مشہور ہوئے رافیل طیارے کی تباہی بھارت ہی نہیں فرانس کے لئے بھی بہت خفت کا باعث تھی۔ اسی لئے بھارت پاکستان کو یہ پیغام دینے کو مجبور ہوا کہ "ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے"۔

    رافیل ناکام ہوگئے تو اس کے پاس اسرائیل کے فراہم کردہ ڈرون موجود ہیں۔ وہ ان کی مدد سے پاکستان کے دفاعی نظام کو مفلوج کرسکتا ہے۔ بھارت کی ڈھٹائی نے پاکستانی عوام کو بھڑکادیا۔ تقریباََ ہر دوسرا پاکستانی سوال اٹھانے لگا کہ ہم نظر بظاہر خاموش تماشائی بنے "دشمن" پر جوابی وار میں دیر کیوں لگارہے ہیں۔ مجھ جیسے دوٹکے کے رپورٹر کے لئے سماجی تقاریب میں جانا مشکل ہوگیا۔

    سوالات کی بوچھاڑ کے جواب میں محض یہ التجا کرکے جند چھڑالیتا کہ جنگ تحمل اور حکمت عملی کا تقاضہ کرتی ہے۔ مجھے کامل یقین ہے کہ ہماری جانب سے جواب آئے گا۔ بالآخر وہ جواب آگیا تو دنیا کے حتمی تھانے دار ہوئے امریکہ میں تھرتھلی مچ گئی۔ امریکی صدر اور نائب صدر ہمارے جوابی وار سے قبل کندھے اچکاکر خود کو پاک-بھارت تنائو سے لاتعلق رکھ رہے تھے۔ 9مئی کی رات سے مگر ان دونوں ملکوں کے درمیان "ایٹمی جنگ" روکنے کے لئے متحرک ہوگئے اور بقول ٹرمپ وہ اور اس کے مشیر ساری رات سوئے نہیں۔

    بالآخر جنگ بندی ہوگئی تو بھارتی ترجمان اصرار کرتے رہے کہ امریکہ کے دبائو نے انہیں اس کے لئے مجبور نہیں کیا ہے۔ پاکستان نے "گھبراکر" جنگ بندی کی درخواست کی تھی جسے بھارت نے فراخ دلی کے ساتھ مان لیا۔ کامل رعونت کے ساتھ ہوئے اس دعوے کی ٹرمپ نے ایک نہیں بلکہ دو پیغامات سوشل میڈیا پر لکھ کر تردید کی۔ بھارتی ترجمان اپنی کہانی پر ڈٹے رہے تو پیر کی صبح وہ کیمروں کے روبرو بہت کچھ کہنے کو مجبور ہوگیا۔

    مودی نے اس کی گفتگو کے ڈیڑھ گھنٹے بعد ہوئی تقریر میں لیکن اس کی باتوں کو نظرانداز کیا۔ یوں اپنی "قوم پرست خودمختاری" کا ڈرامہ رچاتا رہا۔ اس کے رویے نے مجھے 1971ء میں اندرا گاندھی کا اپنا یارویہ یاد دلایا ہے۔ پیر کی رات سے اس کے حتمی عواقب ذہن میں آئے چلے جارہے ہیں۔ آپ کے ساتھ اپنے ذہن میں چلتی فلم یقیناََ شیئر کروں گا۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.