Friday, 06 June 2025
    1.  Home
    2. Guest
    3. Nusrat Javed
    4. Field Marshal Ke Aizaz Ke Haqeeqi Mustahiq Asim Munir

    Field Marshal Ke Aizaz Ke Haqeeqi Mustahiq Asim Munir

    سوشل میڈیا پر رچائے ہیجانی تماشے سے مرعوب ہوئے افراد روایتی اخبارات کے لئے مجھ جیسے لکھنے والوں سے بھی یہ امید باندھ لیتے ہیں کہ وہ ہر معاملے کو "حق وصداقت" کے پیمانے میں تولیں۔ جو بات درست نظر آئے اس کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑے ہوجائیں۔ "سچ" کی خاطر نوکری تو کیا جان سے بھی جانا پڑے تو "فکر ناٹ"۔ پڑھنے والوں کو "سواد" تو آجائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ "قدم بڑھائو ہم، " نوعیت کی ہلاشیری عموماََ سوشل میڈیا پر بنائے اُن اکائونٹس کے ذریعے ملتی ہے جو لوگوں نے فرضی ناموں سے بنائے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اکثر غیر ملکوں میں مقیم ہیں۔

    مجھے شبہ ہے کہ ان کی اکثریت یورپ اور برطانیہ کے سوشل ویلفیئر کے نظام سے بیروزگاروں کو ملے وظیفے سے گزارہ کرنے کو مجبور ہے اور اپنے دلوں میں اُبلتے اضطراب وغصے کو سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارموں کے ذریعے دوسروں تک پہنچانے میں مصروف رہتی ہے۔ حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ جنگل کے شیروں کو شکار کے لئے گھیرنے کو ہونکاکرنے والے گروہ کی طرح یہ افراد صحافیوں کی اکثریت کو اپنی خواہشات کا اسیر بناچکے ہیں۔ پرانی وضع کے صحافی ان کی توقعات پرپورانہ اترنے سے خوف کھاتے ہیں۔ عمر کے آخری حصے میں داخل ہوکر مجھ ایسے لوگ اس گروہ کے خوف سے اعتماد بھی کھودیتے ہیں۔

    یہ جو تمہید باندھی ہے اسے پڑھتے ہی اس کالم کے قارئین کو بخوبی اندازہ ہوگیا ہوگا کہ میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ آرمی چیف سید عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا اعزاز ملنا قابل تحسین ہے یا نہیں۔ ناک کو ہاتھ گھماکر پکڑنے کے بجائے سیدھی بات کریں تو 6اور 7مئی کی رات سے ہم سے کہیں بڑے اور اقتصادی اعتبار سے بہت طاقتور ہوئے بھارت نے جدید ترین آلات جنگ کے ذریعے پاکستان پر حملہ کیا۔ عالمی سطح پر مستند گردانے "نیویارک ٹائمز" نے تین روز قبل شائع ہوئی ایک رپورٹ کے ابتدائیے میں اعتراف کیا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد 2025ء کی 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان کو "Expansive"حملے کا سامنا کرنا پڑا۔

    جو اصطلاح استعمال ہوئی وہ سادہ ترین الفاظ میں ایسے حملے کا ذکر کرتی ہے جس کے دوران ایک ملک دوسرے ملک کو اپنے پاس موجود تمام تر حربی ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے زمین سے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی رپورٹ میں تاہم "نیویارک ٹائمز" نے بالآخر نتیجہ یہ نکالا کہ پاکستان کے خلاف ہمہ جہتی اور بھرپور حملے کے باوجود بھارت اپنے اہداف کے حصول میں ناکام رہا۔ دُنیا عرصہ ہوا پاکستان کو "دہشت گردوں کا سرپرست" شمار کرتے ہوئے بھلاچکی تھی۔ اس کی معیشت زبوں حالی کا شکارہے۔ بھارت اس کے مقابلے میں سفارتی اور اقتصادی اعتبار سے چھلانگیں لگاکر آگے بڑھتانظر آرہا تھا۔ "کشمیر" کا ایشو بھی دنیا بھلاچکی تھی۔ 6اور 7مئی کی درمیانی رات پاکستان سے جنگ چھیڑکر مگر بھارت نے خود کو ایک بار پھرجنوبی ایشیاء تک محدود ہوا ایک ملک ثابت کیا ہے جس کا ازلی دشمن پاکستان ہے۔

    پاک-بھارت جنگ کو دنیا کا واحد سپرطاقت کہلاتا ملک -امریکہ- ایٹمی جنگ میں بدلتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اسی باعث امریکی صدر اسے رکوانے کو متحرک ہوئے۔ سات سے زیادہ مرتبہ کیمروں کے روبرو اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہولناک ایٹمی جنگ انہوں نے رکوائی ہے۔ ان کی کاوشوں کو مگر سراہا نہیں جارہا۔ ٹرمپ کے کردارکو نظرانداز کرتے ہوئے مکدی گل پر آئیں تب بھی یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ بھارت نے جدید ترین جنگی ہتھیاروں کو بروئے کارلاتے ہوئے 6 اور 7 مئی کی رات ہم پر جو جنگ مسلط کی تھی اس کے نتائج ہولناک ہوسکتے تھے۔ ہم نے مگر اس کے حملے کو پسپاکردیا۔ وہ ناکام نہ ہوا ہوتا تو فقط چار دن بعد ہی جنگ بندی کو آمادہ نہ ہوتا۔ بھارتی حملے کو پسپاکرنے کی کمان جنرل عاصم منیر کے پاس تھی۔ وہ اپنا فریضہ نبھانے میں کامیاب رہنے کی وجہ سے فیلڈ مارشل کا اعزاز حاصل کرنے کے مستحق ثابت ہوئے۔ "فیلڈ مارشل" ہر اعتبار سے ایک اعزازی عہدہ ہے۔ اس کی بدولت آپ کو نیا دفتر نہیں ملتا۔ نہ ہی تنخواہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ جنرل عاصم منیر کے اختیارات "فیلڈ مارشل" کا اعزاز مل جانے کے بعد ویسے ہی رہیں گے جیسے منگل کی دوپہر تک تھے۔

    ان سے قبل ایوب خان بھی فیلڈ مارشل کہلائے جاتے تھے۔ انہوں نے یہ اعزاز مگرکوئی جنگ لڑے بغیر مضحکہ خیز انداز میں حاصل کیاتھا۔ 7اکتوبر 1958ء میں اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے مارشل لاء لگانے کا اعلان کیا۔ مارشل لاء کا اعلان ہوا تو عسکری قیادت نے فیصلہ کیا کہ ان کی قوت کی بدولت جو "انقلاب" لایا جارہا ہے اس کا کریڈٹ سکندر مرزا کیوں لے۔ انہیں صدارت سے ہٹادیا گیا۔ ایوب خان اس کی جگہ صدر منتخب ہوئے تو فیلڈ مارشل کا اعزاز حاصل کرنے کے بعد جنرل موسیٰ کو افواج کا کمانڈراِن چیف لگانے کے بعد ملک کو صدارتی نظام کے ذریعے "خوش حالی" کی راہ پر چلانا شروع ہوگئے۔ دس سال اقتدار میں رہنے کے بعد مگر استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔

    جنرل عاصم منیر کی صورت ایسا نہیں ہوا ہے۔ ہمارے ہاں کا ہائی برڈ کہلاتا نظام بھی منگل کے بعد اپنی جگہ موجود ہے۔ وہ 7اکتوبر 1958ء کی طرح "انقلاب" کا خواہش مند نہیں۔ وزیر اعظم کو پارلیمان نے چنا ہے۔ ان کی قیادت میں قائم ہوئی کابینہ نے بھارتی حملے کو پسپا کرنے میں جنرل عاصم منیر کے کردار کو سراہتے ہوئے انہیں فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازنے کی منظوری دی ہے۔ وفاقی کابینہ میں مذکورہ اعزاز کی تجویز دینے سے قبل وزیر اعظم نے صدر مملکت سے مشاورت کی۔

    صدر کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ وزیر اعظم کی مسلم لیگ اور صدر کی پیپلز پارٹی کئی برسوں تک جنرل مشرف اور جنرل ضیاء کے لگائے مارشل لائوں کی مزاحمت کرتی رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے اس کے باوجود جنرل کیانی کی بطور آرمی چیف میعاد ملازمت میں توسیع کی تھی۔ عمران خان "بدی کی علامت" ٹھہرائی دو "موروثی جماعتوں" یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے مقابلے میں ابھرے یا ابھارے گئے تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد اپنے آرمی چیف کی میعادِ ملازمت میں تین سال بڑھائے تھے۔ خلیل جبران کی نقالی میں "حیف ہے اس قوم پر" کی دہائی مچانے والے سپریم کورٹ کے پاٹے خان جج آصف سعید کھوسہ کو یہ فیصلہ پسند نہ آیا۔ معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ اس کی سماعت کے دوران بڑھکیں لگانے کے بعد معاملہ پارلیمان کے سپرد کردیاگیا۔

    قومی اسمبلی اور سینٹ نے علیحدہ علیحدہ مگر بارہ منٹ کی ریکارڈمدت میں باجوہ کی توسیع کا فیصلہ منظور کرلیا۔ ایک دوسرے کو پارلیمانی فلور پر جھگڑالو عورتوں کی طرح کوسنے دینے کے باوجود تحریک انصاف، مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے باجوہ کی معیادِِ ملازمت میں توسیع کے فیصلے کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔ نام نہاد "ہائی برڈ" نظام اس دن سے مستحکم سے مستحکم ترہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے اختیارات بنیادی طورپر منتخب سیاستدانوں کے محدود ہوئے ہیں۔ مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافی باجوہ کی میعادِ ملازمت میں توسیع کی حمایت کرنے والے سیاستدانوں کی پھنے خانی بحال کرنے کے لئے لہٰذا نام نہاد حق وصداقت کا ڈھول کیوں پیٹیں۔

    About Nusrat Javed

    Nusrat Javed

    Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.