دو ملکوں کے درمیان جنگ تو دور کی بات ہے مجھے گلی محلے میں ایک دوسرے کا گریبان پکڑے افراد کو دیکھ کر بھی خوف آتا ہے۔ ایسے رویے کے ساتھ "امن پسندی" کا ڈرامہ رچایا جاسکتا ہے۔ سچی بات مگر یہ ہے کہ میں ایک بزدل اور خوفزدہ آدمی ہوں۔ جنگوں سے گھبراہٹ کے باوجود مگر صحافتی ذمہ داریوں کی وجہ سے افغانستان، عراق اور لبنان میں برسرزمین جاکر وہاں جاری رہی قیامتوں کا مشاہدہ کیا۔ پاکستان اور بھارت کے باہمی معاملات جب بھی کشیدگی کی جانب بڑھتے تو میں اپنے اداروں کی جانب سے دلی جانے کو مجبور کردیا جاتا۔ غالب کے شہر میں رہتے ہوئے رات گئے تک ان لوگوں کی تلاش رہتی جو حربی نقطہ نگاہ سے پاک-بھارت معاملات سمجھانے کے ماہر تصور ہوتے ہیں۔
اتفاق یہ بھی ہے کہ 1974ء میں جب بھارت نے پہلی بار ایٹمی دھماکہ کیا تھا تو میں عاصمہ جیلانی کے والد مرحوم ملک غلام جیلانی سے ایک ہفت روزہ کے لئے "شوقیہ" انٹرویو لینے چلا گیا۔ پاکستانیوں کی اکثریت کے برعکس ملک صاحب بھارت کی جانب سے ہوئے ایٹمی دھماکے کا "خیر مقدم"کرتے سنائی دئے۔ میں نے ان کے خیالات پر مشتمل انٹرویو چھپنے کے لئے دیا تو اس پر لگائی سرخی نے "خیر مقدمی" کا تاثر سیاق وسباق کو قطعاََ نظرانداز کرتے ہوئے سنسنی خیز انداز میں اچھالا۔
ملک صاحب پر اس کی وجہ سے بہت تنقید ہوئی۔ وہ سرکارکی کمشنری چھوڑ کر 1962ء میں ایوب خان کی بنائی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ منتخب ہونے کے بعد لاہور کے معروف خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود حسین شہید سہروردی کی بنائی عوامی لیگ میں شامل ہوگئے۔ سہروردی کے انتقال کے بعدبھی عوامی لیگ ہی سے وابستہ رہے اور یوں شیخ مجیب الرحمن سے بھی ان کے ذاتی مراسم گہرے ہوگئے۔ مجیب الرحمن سے قربت انہیں 1971ء کے واقعات کے دوران "غدار" پکارنے میں مددگار ثابت ہوتی رہی۔
بھارت کی جانب سے کئے ایٹمی تجربے کے بعد انہوں نے جو انٹرویو دیا تھا اسے بھی ان کی "غدار سوچ" کے تناظر میں جانچاگیا۔ ریکارڈ رکھنے کی مجھے عادت نہیں۔ آج بھی لیکن مجھے ان کا وہ فقرہ پوری طرح یاد ہے جس کے ذریعے انہوں نے بھارت کے ایٹمی دھماکہ کا "خیرمقدم" کیا تھا۔ ان کے الفاظ تھے کہ "میں خو ش ہوں کہ بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا ہے۔ یہ پاکستان کوبھی ایسا ہی تجربہ کرنے کو اُکسائے گا"۔
ٹھنڈے دل سے سوچیں تو ملک صاحب درحقیقت یہ کہہ رہے تھے کہ بھارت کی اندراگاندھی نے ایٹمی تجربے کے بعد پاکستان کو بھی ایٹمی صلاحیت کے حصول کو مجبور کردیا ہے۔ مشرقی پاکستان کو فوجی مداخلت کے ذریعے بنگلہ دیش بنانے کے بعد بھارت اگر جنوبی ایشیاء کی واحد ایٹمی قوت بنارہتا تو اس خطے کا حتمی تھانے دار ہوجاتا۔ بھارتی ایٹمی تجربے کے بعد پاکستان کی فطری مجبوری کو ملک صاحب نے مگر اپنے مخصوص انداز میں بیان کیا تو لوگ سمجھ نہ پائے۔ طعنوں کے نشتر برسانا شروع ہوگئے۔
یہ الگ بات ہے کہ بھارت کے ایٹمی تجربے کے چند ہی روز بعد ان دنوں پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں ملتان شہر میں واقع صادق حسین قریشی کے محل نما مکان میں ایک کانفرنس کا اہتمام کیا۔ اس کے دوران ماہرین سے طویل مشاورت کے بعد پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کافیصلہ ہوا۔ مذکورہ کانفرنس کے اختتام پر ہوئے فیصلے کے بعد جسے دنیا سے خفیہ رکھا گیا تھا بھٹو نے یہ فقرہ ادا کرنے کے لئے کئی دنوں تک انتظار کیا کہ پاکستانی "گھاس کھاکر بھی ایٹم بم بنائیں گے"۔ بھارت کو جنوبی ایشیاء کا ایٹمی اجارہ دار نہیں بننے دیں گے۔
بھارت کی جانب سے 1974ء میں ہوئے ایٹمی تجربے کے حوالے سے ملک غلام جیلانی صاحب سے ایک "شوقیہ" انٹرویو کے بعد جب عملی صحافت ہی کو پیشہ بنایا تو بتدریج امور خارجہ کی رپورٹنگ میرے متھے لگ گئی۔ یہ فریضہ نبھانے کے لئے چند کتابیں پڑھنا لازمی تھا۔ تقریباََ ہر دوسری کتاب اس حقیقت کو اجاگر کرتی کہ دو ایٹمی حریفوں کے مابین کبھی براہِ راست جنگ نہیں ہوتی۔ اس تناظر میں مئی 1998ء میں جب بھارت نے کھل کر ایٹمی قوت ہونے کا اعلان کیا تو میں ایک لمحے کو بھی اس شک میں مبتلا نہیں ہوا کہ پاکستان اس کے بعد اپنے "ایٹمی پتے" نہیں دکھائے گا۔ 28مئی کو لہٰذا درست ثابت ہوا۔
مئی 1998ء میں بھارت اور پاکستان نے جو ایٹمی دھماکے کئے تھے انہوں نے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی بذریعہ بس لاہور آمد کی راہ بنائی۔ اپنے قیام لاہور کے دوران واجپائی مینارِ پاکستان بھی گئے اور یوں ہندوانتہا پسند آر ایس ایس کی گود میں جوان ہوئی بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نے "گائو ماتا کاٹ کر" بنائے پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ مجھ سادہ لوح نے یہ تصور کیا کہ جو کتابیں میں نے امور خارجہ کی مؤثر رپورٹنگ کی خاطر پڑھی ہیں درست کہتی ہیں۔ ایٹمی قوت بن جانے کے بعد ایک دوسرے کے ازلی دشمن جان لیتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی صورت نکالنا ہوگی۔ اسی باعث ایٹمی دھماکے کرلینے کے بعد واجپائی پاکستان آیا اور مینارِ پاکستان جاکر دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنے ملک کی حقیقت کو تسلیم کیا۔
واجپائی کے دورہ لاہور کے چند دن بعد مگر کارگل کی پہاڑیوں میں جنگ چھڑگئی۔ اس جنگ کو رکوانے ہمارے وزیر خارجہ سرتاج عزیزجب دلی گئے تو وہاں کا ماحول انتہائی مخاصمانہ تھا۔ میں بطور صحافی ان کے وفد میں شامل تھا اور محض پاکستانی ہونے کی وجہ سے وہاں کے لوگوں کے طعنے برداشت کرتا رہا۔ بالآخر کارگل کی وجہ سے ابھرے بحران کو رکوانے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو 4جولائی 1999ء کے دن واشنگٹن پہنچ کر ان دنوں کے امریکی صدر کلنٹن سے پاک-بھارت جنگ رکوانے میں مدد کی اپیل کرنا پڑی۔ جنگ تو ان کی کاوشوں کے بدلے رک گئی مگر کارگل کی وجہ سے عسکری قیادت کے ساتھ ابھرے اختلاف کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہوکر بالآخر طویل برسوں کے لئے جلاوطن ہونا پڑا۔
"کارگل کے ذمہ دار" ٹھہرائے جنرل مشرف کو مگر واجپائی ہی نے چٹھی لکھ کر آگرہ میں مذاکرات کے لئے بلوایا۔ وہ مذاکرات تو کسی مثبت نتیجے پر پہنچ نہ پائے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان اس کے باوجود جنگ ٹلتی رہی۔ بھارتی پارلیمان پر حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کی سرحد پر کامل ایک برس تک اپنی افواج حالتِ جنگ میں تعینات رکھیں۔ گولی مگرکسی جانب سے ایک بھی نہ چلی۔ وجہ اس کی دونوں ملکوں کا ایٹمی قوت کا حامل ہونا بتایا گیا۔ ایٹمی قوت کا یکساں حامل ہونے کی وجہ سے پاکستان اور بھارت بمبئی میں ہوئے واقعات کے باوجود جنگ کی جانب نہیں بڑھے۔ بیک ڈور مذاکرات کے ذریعے بلکہ مشرف اور من موہن کی حکومتوں کے درمیان دائمی امن کی تلاش میں مذاکرات ہوتے رہے۔
2014ء میں لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی ہی کا نریندر مودی بھارت کا وزیر اعظم منتخب ہوگیا۔ 11سال میں تیسری بار منتخب ہوا ہے اور اس کے دورِ اقتدار میں ہم دوبار "ایٹمی جنگ" کے دہانے کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔ اتفاقاََ دونوں بار ا مریکی صدر ٹرمپ نے ممکنہ ایٹمی جنگ کو رکوایا۔ مودی کے 11سالوں کے دوران ایٹمی جنگ کو غچہ دینا مجھ بزدل کو اکثر یہ سوچنے کو مجبور کردیتا ہے کہ جنوبی ایشیاء کی دو ایٹمی اور ہمسایہ قوتوں کو نام نہاد "تیسری قوت" کب تک ایٹمی جنگ سے بچاتی رہے گی؟