امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں ایک ایسا گروہ بھی شامل ہے جو ہر حالت میں اپنے مادر وطن کے بارے میں مایوسی پھیلاتا ہے۔ اس گروہ کے نمایاں افراد ہفتے کی شام سے سوشل میڈیا کے ذریعے یہ پیغام پھیلارہے ہیں کہ بھارت کے ساتھ ہوئی فائربندی عارضی ہے۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے وہ بھول جاتے ہیں کہ 6 اور7مئی کی درمیانی رات ہوئے بھارتی حملوں کے جواب میں پاکستان بالآخر متحرک ہوا تو ہماری جانب سے چند کارروائیوں کے بعد امریکہ کی جانب سے جنگ بندی کی کاوشیں شروع ہوگئی تھیں۔
امریکہ کا جنگ بندی یقینی بنانے کے لئے میدان میں اترنا واضح انداز میں عندیہ دیتا ہے کہ پاکستان کے جوابی حملے کے بعد معاملات ناگہانی نتائج کی جانب بڑھ رہے تھے۔ کامل تباہی کے امکانات نہ ہوتے تو امریکی صدر اور اس کا نائب ہرگز متحرک نہ ہوتا۔ 6اور 7مئی کی درمیانی رات ہوئی بھارتی جارحیت کے بعدٹرمپ نے کندھے اچکاکر کہا تو فقط اتنا کہ اس کے یار تصور ہوتے مودی نے"Tit for Tat"یعنی ادلے کا بدلہ لے لیا ہے۔ اس کے بعد تنائو کو مزید بڑھانے کے بجائے اس میں کمی لانا چاہیے۔ اس سے قبل امریکی نائب صدر جس کی بیوی بھارتی نڑاد ہے، پاک-بھارت کے درمیان جنگ رکوانے کے لئے امریکہ کی جانب سے کسی کردار کے امکان کو رد کرچکا تھا۔
پہلگام پر دہشت گردی کے حملے والے دن یہ نائب صدر اپنی بیوی اور بچوں سمیت بھارت چھٹیاں منانے اترا تھا۔ پہلگام واقعہ کے دن اس کی بھارت آمد نے مجھ سمیت کئی لوگوں کو مارچ 2000ء میں مقبوضہ کشمیر کے چھتیس گڑھ قصبے میں سکھوں کا قتل عام یاد دلادیا۔ کئی غیر ملکی لکھاریوں نے گہری تحقیق کے بعد اسے "فالس فلیگ آپریشن" کا نام دیا تھا۔ اس کا مقصد کشمیری حریت پسندی کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کرنا تھا۔ جے ڈی وینس نے مگر اپنا سیاحتی دورہ جاری رکھا۔ جے پور میں اپنے بچوں کو راجستھانی رقص اور وہاں موجود مداریوں کے کرتکب دکھائے۔ اپنے قیام کے دوران وہ کسی بھارتی میڈیا کی سکرین پر پہلگام پر ہوئے حملے کی مذمت کو دستیاب نہیں ہوا۔ وطن لوٹنے کے بعد البتہ اس نے ٹرمپ اور اس کی پارٹی کے چہیتے فاکس ٹی وی کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے پاک-بھارت کشیدگی میں کمی لانے کے لئے امریکی مداخلت کے امکانات رد کردئے۔
ٹرمپ اور وینس بالآخر پاک-بھارت جنگ بندی یقینی بنانے کو متحرک ہوئے تو یقیناََ اس کی کوئی ٹھوس وجہ رہی ہوگی۔ جو وجہ بتائی جارہی ہے اسے Alarmingیا خوفناک کہتے ہوئے جندچھڑائی جارہی ہے۔ تفصیلات بتانے سے گریز ہورہا ہے۔ امریکہ کی اس تناظر میں خاموشی نے وہاں مقیم پاکستانی گروہِ مایوساں کو یہ تھیوری گھڑنے میں مدد فراہم کی کہ بھارت نے نیک نیتی سے جنگ بندی قبول نہیں کی۔ اتفاق سے بھارت خودبھی یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے پاکستان کی "درخواست" پر جنگ بندی کافیصلہ کیا۔ امریکہ نے اس میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اس بات کی اگرچہ واضح الفاظ میں تردید بھی نہیں ہورہی کہ امریکی وزیر خارجہ اور نائب صدر کے فون وہاں کے سیاسی حکام اور مشیر برائے قومی سلامتی کو تسلسل سے آتے رہے۔
گروہِ مایوساں سمجھ نہیں پایا کہ مارکوروبیو اب محض امریکہ کا وزیر خارجہ ہی نہیں۔ اسے مشیر برائے قومی سلامتی بھی تعینات کردیا گیا ہے۔ اسی باعث وہ پاکستان اور بھارت کے مشیران برائے قومی سلامتی سے رابطے میں رہا اور فون کے ذریعے ہمارے آرمی چیف سے بھی گفتگو کی۔ بھارتی میڈیا کی جانب سے امریکی کردار کی مسلسل نفی امریکہ میں مقیم گروہِ مایوساں کو یہ فرض کرنے کو اُکسارہی ہے کہ بھارت نے "آپریشن سندور" جاری رکھا ہوا ہے۔ "جنگ بندی" درحقیقت اس میں آیا ایک "وقفہ" ہے۔ اس کے دوران بھارت کی سیاسی اور عسکری قیادت 6مئی کی رات سے 10مئی تک ہوئے جنگی اقدامات کا بغور جائزہ لے گی۔
اتوار کے روز مودی نے اپنے افواج کے سربراہان کے ساتھ مشیر قومی سلامتی کو بٹھاکر جس اجلاس کی صدارت کی ہے اسے متوقع جائزے کا پہلا دن کہا جارہا ہے۔ گروہِ مایوساں کے "ماہرین دفاع" مصر ہیں کہ بھارت جنگ بندی کو "دوہفتوں" سے زیادہ برقرار رکھنا نہیں چاہے گا۔ یہ وقفہ گزرجانے کے بعد پاکستان کے خلاف ایک اور رائونڈ کھیلے گا۔ وہ جانتا ہے کہ پاکستان کی معیشت کمزور ہے۔ وقفوں وقفوں سے جدید ترین ہتھیاروں سے ہوئے حملوں کی بدولت ہوئے نقصانات کو یہ معیشت برداشت نہیں کر پائے گی۔
گروہِ مایوساں کے برعکس امریکی صدر نے اتوار کے دن جو پہلا ٹویٹ لکھا اس میں کشمیر کا نام لے کر اس "ہزار سال پرانے" قضیے کو حل کرنے میں کردار ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس ٹویٹ نے بھارت میں یقیناََ کئی دل توڑے ہوں گے۔ چند انتہا پسند اس ٹویٹ کی وجہ سے ٹرمپ کو دورِ حاضر کا نکسن پکارنا شروع ہوگئے ہیں جو 1971ء کی پاک-بھارت جنگ ٹالنے کو بے قرار تھا۔ اندراگاندھی نے مگر اس کی ایک نہ سنی۔ مودی کے متوالوں کو امید ہے کہ وہ بھی اندراگاندھی کی طرح امریکی صدر کو رعونت سے نظرانداز کرتے ہوئے نئے سازوسامان کے ساتھ پاکستان پر دوبارہ چڑھ دوڑے گا۔
کامل طیش کے عالم میں بھارتی انتہا پسند یہ سوچنے کو تیار نہیں ہورہا کہ 2025ء اور 1971ء میں بہت فرق ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان میں بے پناہ "اتحادی" تلاش کرلینے کے باوجود بھارت کو بنگلہ دیش کے قیام کے لئے نو مہینے تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ ہماری بدقسمتی کہ مذکورہ نو مہینوں میں ہمارے فوجی صدر بنگالیوں کے دل جیتنے میں ناکام رہے۔ روس یوکرین کے مقابلے میں بہت بڑا ملک ہونے کے علاوہ ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ اس کے باوجود وہ اپریل 2022ء میں یوکرین پر برپا کی جنگ کو ابھی تک جیت نہیں پایا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ کی کاوشوں سے یوکرین کو امریکہ اور یورپ سے جو جدید ترین ہتھیار ملے ہیں انہوں نے روس کی مزاحمت ممکن بنائی۔
پاکستان کو اس تناظر میں تنہا تصور کرنا مگر حماقت ہے۔ چین نے برسوں کی تحقیق سے جو ہتھیار تیار کئے ہیں وہ پاکستان کے بہت کام آئے ہیں۔ ان کی وجہ سے چین دنیا کو یہ دکھانے کے قابل بھی ہوا کہ اس کے ہتھیار فرانس اور اسرائیل کے جدید ترین جنگی جہازوں اور بارودی مواد والے ڈرونز کو پچھاڑسکتے ہیں۔ بھارتی اشرافیہ "گودی میڈیا" کی مچائی دہائی کے برعکس اپنے وطن میں ایپل جیسی کمپنیوں کے برانڈ تیار کرنا چاہ رہی ہے۔ پاکستان کیساتھ وقفوں سے ہوئے جنگی رائونڈ بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کو ناممکن بنادیں گے۔ تھوڑے دن کی بڑھک بازی کے بعد بھارت کو پاکستان کے حوالے سے امریکہ کو مطمئن رکھنا ہوگا۔