بہت سارے لوگ تجزیہ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے دوایٹمی قوتوں کو ایک طویل، تباہ کن اور ہولناک جنگ سے واپس لانے پرنوبل انعام کے لئے نامزد کرکے غلط اقدام کیا ہے مگر ان میں سے بیشتر تجزیہ کار وہ ہیں جو اپنے تجزیوں میں پچھلے پچیس تیس برسوں سے نون میں سے شین نکالتے رہے ہیں۔ یہ وہ تجزیہ کار ہیں جو کہتے تھے کہ مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی سے عمران خان کی حکومت ختم نہیں ہوگی لیکن جب حکومت ختم ہوگئی تو ان کا موقف تھا کہ عمران خان اقتدار سے نکل کر زیادہ خطرے ناک ہوجائے گااور یہ کہ پی ٹی آئی الیکشن نہیں ہار ے گی۔
دلچسپ تو یہ ہے کہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ڈیفالٹ سے بھی نہیں بچایا جا سکے گا اوربہت جلد مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی آپس میں لڑ پڑیں گی۔ جب ان کے یہ تجزیے غلط ہوئے تو ان کا خیال تھا کہ فوج حکومت کو رخصت کر دے گی اور تجزیے تو یہاں تک پہنچے کہ یہ جسٹس منصور علی شاہ کے ذریعے حکومت کی رخصتی کی دلیلیں دینے لگے۔ انہی تجزیہ کاروں کے تجزیوں کی انتہا یہ تھی کہ ٹرمپ آئے گی اور عمران کو لائے گی۔ ابھی چند روز پہلے ایک تجزیہ کار فرما رہے تھے کہ عمران خان کو جیل میں وزیراعظم کے پروٹوکول کے ساتھ ایک بریفنگ دی گئی ہے جس پر بہت سارے شاہ دولہ کے چوہوں نے ناچ ناچ کے گھنگھرو توڑ دئیے تھے۔
سفارتکاری، سوشل میڈیا پر لگائی گئی بڑھکوں سے بہت مختلف چیز ہے جس کا اندازہ آپ کو ان دو سے تین برسوں میں ہوگیا ہوگا۔ جو عالمی سطح پر ہونے والے فیصلوں کو جانتے ہیں انہیں اچھی طرح علم ہے کہ نہ آکسفورڈ کی چانسلر شپ سوشل میڈیا پر ملتی ہے اور نہ ہی نوبل انعام۔ ان تمام چیزوں کے لئے باقاعدہ طریقہ کار مقرر ہیں۔ یہ ہرگز ضروری نہیں کہ پاکستان کی طرف سے نامزدگی کے بعد امریکی صدر نوبل انعام حاصل کر لیں یا اس کے لئے باقاعدہ طور پر نامزد بھی ہوجائیں۔ یہ پاکستان کی حکومت کا ڈپلومیسی میں ایک ماسٹر سٹروک ہے۔
موجودہ امریکی صدر خود پسند ہیں اور اپنی تعریف پسند کرتے ہیں۔ اگر آپ منفی بھی سوچیں تو پاکستان نے ان کی اسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کاسوچا ہے اور اگر آپ مثبت سوچیں تواگر وہ نامزد نہیں بھی ہوتے تو اس سفارش میں پاکستان کا کیا نقصان ہے لیکن اگر وہ پاک بھارت جنگ رکوانے پر نوبل انعام کے حقدار قرار پا جاتے ہیں تو اس سے پاکستان کی بلے بلے ہوجائے گی۔ اس کی خارجہ پالیسی میں اسے ایک سپر پاور کی طرف سے بڑی مدد مل جائے گی تواس میں ان تجزیہ کاروں کا کیا نقصان ہے۔ وہ لوگ جو پاکستان کی طرف سے نامزدگی کو خوشامد کہہ رہے ہیں وہ خود امریکی صدر کے کمنٹس کے بارے کیا کہیں جس میں وہ پاکستانیوں کو شاندار کہہ رہے ہیں، ان کی قیادت کو مضبوط کہہ رہے ہیں، آئی لو پاکستان کہہ رہے ہیں۔
ظرف اور کردار والے ہمیشہ اچھا اجر دیتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ پاکستان کی معاشی اور سماجی تعمیر میں امریکہ نے ہمیشہ مثبت اور بڑا کردارادا کیا ہے، اتنا مثبت اوربڑا کہ کوئی دوسرا ملک اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ کسی کو شک ہے تو وہ یو ایس ایڈ کے پراجیکٹس کو ہی سٹڈی کر لے خاص طور پر خیبرپختونخوا اور سندھ میں۔
چلیں، اس نامزدگی کے لئے سفارش کے میرٹ کا جائزہ لے لیتے ہیں مگر اس میرٹ کا جائزہ آپ نے پاکستانی کی حیثیت سے لینا ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب پاکستان کی بات آتی ہے تو ہم میں سے کوئی ایرانی بن جاتا ہے کوئی سعودی اور کوئی افغانی۔ میں امریکہ کی جنگوں کے حوالے سے تاریخ کو ہرگز ہرگز شاندار نہیں سمجھتا اور اگر ایسے میں کوئی امریکی صدر یہ کہتا ہے کہ وہ جنگوں کا مخالف ہے تو ہمیں اس کی مدد کرنی چاہئے کہ وہ اپنے اس اچھے نعرے پر عمل کر سکے تاکہ امریکہ کسی اور ملک کو عراق، لیبیا یا افغانستان نہ بنا سکے۔
پاکستان کا تو خیر سے معاملہ ہی الگ ہوگیا ہے، امریکی صدر کی خیر سگالی تو ایک طرف رہی مگر کیا ان کا کردار جنگ رکوانے کے لئے واقعی اہم نہیں تھا اور کیا واقعی پاکستان اور ہندوستان دو ایٹمی قوتیں نہیں ہیں اور اگر روایتی جنگ طویل ہوتی تو کسے علم تھا کہ وہ کس طرف جاتی۔ آپ غزہ، ایران اور اسرائیل جنگ ہی دیکھ لیجئے، ایک ایک عمارت اور ایک ایک ادارہ برسوں اور عشروں میں بنتا ہے جو ایک میزائل سے تباہ ہوجاتا ہے۔
میں تو اس سے بھی آگے بڑھ کے کہتا ہوں کہ اگر ہم صدر ٹرمپ کے اس کردار کو اجاگر کریں گے کہ وہ جنگوں کے مخالف ہیں، جنگیں رکوانے والے ہیں تو ان سے ایران کے معاملے میں بھی مثبت رویے کی امید رکھ سکیں گے، کم از کم یہ امید کہ امریکہ براہ راست اس جنگ میں ایران پر حملہ آور نہیں ہوگا اور اگر امریکہ جنگ سے باہر رہے تو ایران کے پاس اتنی طاقت موجود ہے کہ وہ اسرائیل کو سبق سکھا سکے۔
کچھ کہہ رہے ہیں کہ اس سے چین ناراض ہوجائے گا جبکہ میرا خیال برعکس ہے۔ چین بہت سیانا ہے، پاکستان نے چین اور امریکہ کے درمیان تعلقات کے حوالے سے ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جو کردارادا کیا اسے آج بھی تاریخی قرار دیا جاتا ہے۔ چین کسی بھی ملک سے جنگ نہیں چاہتا اور اگر پاکستان کے ذریعے اس کے تعلقا ت امریکہ سے ٹھیک ہوتے ہیں تویہ ایک اور پلس پوائنٹ ہوگا۔
چین اس وقت امریکہ سے اپنے تجارتی تعلقات بحال رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اوراس میں پاکستان بھی اپنا کردارادا کرسکتا ہے اور اسی طرح ایران کے معاملے میں بھی مجھے لگتا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات کی بنیاد پر مثبت کردار ادا کرے گا، یہ عین ممکن ہے کہ جنگ بندی میں ہمارا بھی کردار ہو، ایک بہت بڑا کردار۔ ہمیں اپنے امریکہ سے تعلقات کو بھارت اور اسرائیل کو بھی سامنے رکھ کے دیکھنا ہوگا۔ یہ دونوں قوتیں چاہیں گی کہ امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہوں جبکہ ہمارا ٹارگٹ یہ ہوگا کہ دنیا پر بہت زیادہ اثرانداز امریکہ ہمارے ساتھ مخاصمت میں نہ ہو۔
ہمارے کئی دوست کہتے ہیں کہ امریکہ بعد میں ہمارے مخالف ہوجائے گا تو میرا سوال ہے کہ کیا ہم اپنا آج کل کے کسی خدشے کے تحت خراب کر لیں یا جو آج اچھا ہورہا ہے اسے مزید اچھا بنانے کے لئے کوشش کریں۔ کل کیا ہوگا مجھے اس کا علم نہیں مگر آج جو ہو رہا ہے وہ بہت اچھا ہو رہا ہے۔ پاکستان کے بدخواہ شہباز شریف اور عاصم منیر کو انڈر ایسٹیمیٹ کر رہے ہیں جو کہ ان کی حماقت ہے۔ امریکی تاریخ میں پہلی بار کوئی صدر آئی لو پاکستان کہہ رہا ہے، اس کے آرمی چیف کو ظہرانہ دے رہا ہے، اس ملاقات کو اپنے لئے اعزاز کہہ رہا ہے، پاکستانیوں کی تعریف کر رہا ہے توا س پر یوتھیوں اور مودیوں کے پیٹ میں ایک ساتھ مروڑ اٹھ رہے ہیں تواٹھتے رہیں۔