سوشل میڈیا پر آج بھی وہ تصویر زیر گردش ہے، جب پاکستان کے پہلے فیلڈ مارشل ایوب خاں 60کی دہائی میں امریکی دورہ پر بے تکلفی اور پٹھانوں والے انداز میں اُس وقت کے امریکی صدر کے گال تھپتھپا رہے تھے، امریکہ یاترا کے موقع نہ صرف انھیں پذیرائی ملی بلکہ عوامی سطح پر بھر پور استقبال بھی ہوا، ماونٹ ورنن مقام پر ان کے اعزاز میں سرکاری عشائیہ دیا گیا، صدر پاکستان کو محظوظ کرنے کے لئے "ملٹری پیجنٹ" کا مظاہرہ ہوا، یہ خاص اہتمام صرف پہلے فیلڈ مارشل کے لئے تھا۔
اس کے بعد موصوف کو سی آئی اے کے خفیہ منصوبہ میں شمولیت اختیار کرنے کی قیمت ادا کرنا پڑی، جاسوسی طیاروں کی اُڑان کا یہ منصوبہ سویت یونین سے فوجی معلومات جمع کرتا تھا، مگر پشاور سے یو 2کی پرواز کو روس نے دھر لیا، اس کے بعد روس سے د ھمکی ملی کہ پشاور اب میزائلوں کے ہدف کی زد میں ہے، جس چین کا بڑا حریف انکل سام آج ہے اسی چین کو امریکہ کے قریب لانے میں بھی اسلام آباد کا کلیدی کردار ہے، ان تمام تر خدمات اور خوش فہمیوں کے باوجود پہلے فیلڈ مارشل کو پاک امریکہ تعلقات کے تناظر میں Friends not Master کتاب تحریر کرناپڑی، سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدات پر فیلڈ مارشل نازاں رہے، یہ معاہدے سقوط ڈھاکہ جیسے سانحہ کو بھی نہ روک سکے۔
جمہوریت کی بساط لپیٹ کر "عزیز ہم وطنو" کہہ کر مخاطب کرنے والے دوسرے حکمران بھی جرنیل تھے یہ سرد جنگ ہی کا عہد تھا، افغانستان میں روسی جارحیت نے امریکہ کی آمد کے در کھول دیئے ایک بار پھر باوردی صدر پاکستان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ امریکی ہداف کی تکمیل کا فریضہ انجام دیں۔
روس کے حصے بخرے کرنے کے بعد امریکہ نے افغانستان میں نمائندہ حکومت کے قیام سے قبل ہی جنیوا معاہدہ کے بعد اپنا بستر گول کیا اور گھر کی راہ لی، جہاد کے روح رواں جنرل ضیاء اب انکے لئے چلے ہوئے کارتوس ثابت ہوئے اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ہائی پروفائل عسکری قیادت نے اکھٹے جام شہادت نوش فرما یا، گرنے والے طیارہC130 میں امریکہ کو اپنے سفیر کی قربانی البتہ دینا پڑی۔
9/11 کی پاداش ایک بار پھر کسی ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو انکل سام کی خواہشات پر پورا اتر سکے، جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے والے چوتھے ڈکٹیٹر تھے "سب سے پہلے پاکستان" کا نعرہ بلند کرکے بھی وہ امریکہ کی آنکھ کا تارا بن گئے، ایک طرف انھیں اپنے اقتدار کو طوالت دینے کا موقع ملا دوسری طرف دہشت گردی کی جنگ کے خاتمہ کے لئے امریکہ بہادر کی زبان بولنے لگے، کشمیر جیسے حساس ایشو پر پاکستان کے دیرینہ موقف سے انحراف" چناب فارمولا " کی صورت میں برآمد ہوا، یہ وقت کا جبر تھا کہ دہشت گرد کہلوانے والے واشنگٹن کے ساتھ مذاکرات کی میز پر قطر میں موجود تھے۔
مارشل لائوں کے مابعد اثرات کا جائزہ لیا جائے تو پہلے فیلڈ مارشل کی پالیسیوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی جبکہ دوسرے مارشل لاء نے سقوط ڈھاکہ میں آخری کیل ٹھونک دی، تیسرے مارشل لاء کی بدولت روس تو بکھر گیا، مگر سماجی طور پرمعاشرہ شدت پسندی کا شکار رہا، چوتھے مارشل لاء نے قبائلی علاقہ جات کے محب وطن افراد کا اعتماد کھو دیا، معصوم شہریوں پر امریکی ڈرون کی برسات نے عوام الناس کے دلوں میں نفرت پیداکی، بڑی وجہ امریکی پالیسیاں تھیں۔
سارے عوامل نے اس تاثر کو اور گہرا کیا کہ عوام کی فلاح سے زیادہ ریاست کو سکیورٹی کی ضرورت ہے، تمام تر قربانیوں کے باوجودکشمیر جو ہمارا دیرینہ مسئلہ ہے تادم تحریر حل طلب ہے۔
پاک بھارت جنگ کی فتح کے نتیجہ میں جو قدر ومنزلت نئے فیلڈ مارشل کا مقدر بنی ہے وہ بجا طور پر خلوص نیت سے انکی کارکردگی کا ریوارڈ ہے، پوری قوم انکی پشت پر کھڑی رہی امریکی صدر نے انکی بہادری کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ہاں مدعو کیا، ان کے اعزاز میں ظہرانہ دیا، فیلڈ مارشل مذکورہ فوجی سربراہان کے برعکس امریکی حکم کی تعمیل کی وصولی کی بجائے وائٹ ہاوس کے مہمان بنے، وکٹری سٹینڈ پر کھڑے سپہ سالار کو نہ تو بلیک میل جاسکا، نہ ہی کوئی الٹی سیدھی فرمائش کی گئی کہ ایران، اسرائیل جنگ کے تناظر میں امریکی صدر نے کہا فیلڈ مارشل ایران کو بہتر طور پر جانتے ہیں، امریکی سرزمین پر کھڑے ہو کر انھوں ایران کی حمایت کا اعادہ کیا۔
فیلڈ مارشل بخوبی جانتے ہیں انڈیا کے ساتھ جنگ کے نتائج نے عوام میں نیا جذبہ پیدا کیا ہے، مخالف ہمسایہ ریاست نے فوج اور عوام کے مابین فاصلہ کا جو تاثر دیا تھا وہ جھوٹ ثابت ہوا، اس محبت کو برقرار رکھنے کے لئے فیلڈ مارشل کو بھی کلیدی کردار ادا کرنا ہے، ہر چند وہ سیاسی عزائم نہیں رکھتے لیکن سرکار کا یہ دعویٰ کہ قومی مفاد کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ایک پیج پرہیں، فیصلہ جات میں اسکا عکس بھی نمایاں ہے، وقت آگیا ہے کہ سکیورٹی مملکت سے فلاحی ریاست تک کے سفر کا آغاز کیا جائے، عوام کو ریلیف دیا جائے، مافیاز کے گرد شکنجہ تنگ کیا جائے، لوٹی ہوئی دولت کو بلا امتیاز واپس لایا جائے، قومی قرضہ جات جن شخصیات نے معاف کرائے ہیں ان سے بلا امتیاز وصول کئے جائیں، کرپشن کے لئے زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائی، قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جائے، آئین کی بالا دستی کے لئے ہر ادارہ فعال کردار کرے، ذخیرہ اندازوں، ملاوٹ خوروں کو نشان عبرت بنایا جائے، عدالتی اور انتظامی اداروں کو آزادانہ ماحول میں کام کرنے کا موقع دیا جائے، اس ہجوم کو قوم بنانے میں ہر چند ہر فرد اور ادارہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ لیکن فیلڈ مارشل کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہے وہ ریاست کے اہم شیئر ہولڈر ہیں۔
مذکورہ غیر اخلاقی برائیوں کے خاتمہ میں ان کا کردار اہم سمجھا جائے گا موجودہ حالات کے تناظر میں لازم ہوگیا ہے کہ، تمام قومی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ بند کمرہ میں طے شدہ قومی ایجنڈہ مرتب کرنے کے بعد اس کے اطلاق کا ٹارگٹ اداروں کو دیا جائے، جس کے لئے پہلی قربانی سماج کی ایلیٹ کلاس کو دینا ہوگی، کیونکہ عام شہری تو قربانیاں دے کر عاجز آچکا ہے۔
فیلڈ مارشل اپنے ذرائع سے بھی سفید پوش طبقہ کی مشکلات کا جائزہ لے سکتے ہیں، پروٹوکول کلچر کے غیر ضروری اخراجات کا معاشی بوجھ اٹھانے کی سکت یہ عوام اب نہیں رکھتے۔ بدعنوان طبقات نے سکیورٹی سٹیٹ کے نام پر قوم کو بے قوف بنا رکھا ہے، فیلڈ مارشل سے امید کرتے ہیں کہ بڑی جنگی کامیابی کے بعد ریاست کی گاڑی کا رخ سکیورٹی ریاست کے ساتھ ساتھ فلاحی مملکت کی طرف بھی موڑ دیں گے۔ ، تاکہ قوم بھی "بنیان مرصوص "کی عملی شکل اختیار کر سکے۔