فیض حمید کو انھی کے محکمے کی جانب سے سنگین سزا سنائے جانے کے بعد ملک بھر کے بے شمار صحافیوں کو براہِ راست ان کے ہاتھوں یا مبینہ طورپر ان کے حکم پر دیے صدمے یاد آنے لگے ہیں۔ مجھ دو ٹکے کے صحافی کو مگر موصوف نے کبھی براہِ راست رابطے کے قابل ہی نہ سمجھا۔ ان کی بے اعتنائی نے میرے نام کے ساتھ سینئر صحافی، کی لگی تہمت عیاں کردی۔ ثابت ہوگیا کہ عمر تمام صحافت کی نذر کردینے کے باوجود میں اس قابل ہی نہ تھا کہ ان جیسی خلائی مخلوق، میرے بارے میں مضطرب محسوس کرتی۔
زندگی یوں بھی گزرہی جاتی مگر 2016ء کے دوران جس ٹیلی وژن چینل نے مجھے بہت چائو سے اپنے ہاں ملازم رکھا تھا وہاں عجیب واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔ برا وقت بھول جانا میری عادت ہے۔ اس چینل کا نام اسی وجہ سے لکھ نہیں رہا جہاں یہ واقعات پیش آئے۔ انھوں نے مجھے حیران وپریشان اس لیے بھی کیا کیونکہ وہ چینل ایک نہایت تگڑے صحافتی ادارے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہاں میسر آزادی، دیگر صحافتی اداروں میں کام کرنے والوں کے لیے قابل حسد شمار ہوتی تھی(کم از کم اس کے اخبار کی حد تک)۔
چینل میں چند ہی ہفتے گزرے تو پیغام آیا کہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یعنی ضرورت سے زیادہ بے باک ہوجاتا ہوں۔ اس کے علاوہ مجھے اپنا لہجہ بھی مہذب، رکھنے پر زور دیا گیا۔ چھٹی جماعت سے ریڈیو پاکستان لاہور کے سکول براڈکاسٹنگ، کے لیے ہوئے کوئز شو زاور دیگرڈرامائی فیچروں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ 19سال کی عمر میں پاکستان ٹی وی کے لیے پچاس منٹ کا ڈرامہ بھی لکھا تھا۔ لفظ کی ادائیگی کے حوالے سے آغا ناصر مرحوم کو اپنا حتمی گرو تسلیم کرتا ہوں۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ میں ان کے تیار کردہ ڈراموں میں حصہ لیا کروں۔ اداکاری سے مگر مجھے رعونت بھری نفرت تھی۔ انھیں غچہ دیے رکھا۔
ریڈیو پاکستان کے مائیک پر براہِ راست بولتے ہوئے وہاں کی اساطیری آوازوں کی قربت بھی میسر رہی۔ موہنی حمید اور لطیفی صاحب جیسے سٹار، میرا تلفظ درست کرتے۔ میرے لہجے کو مگر ہمیشہ بہت ہی مہذب کہا۔ بے تکلفی کے لمحات میں بلکہ اس امر پر حیرانی کا اظہار کرتے کہ قدیمی لاہور کے بارہ دروازوں میں سے ایک کے اندر پیدا ہوکر بڑے ہونے والے مجھ کم ہنر سے ایسی شائستگی، کی توقع نہیں رکھی جاتی۔ زندگی کے بے تحاشا برس ریڈیو اور ٹی وی کے لیے بولنے کے علاوہ اپنے لکھے ڈراموں میں ہمیشہ پروڈیوسر کے ساتھ ریہرسل اور ریکارڈنگ کی نگرانی بھی کیا کرتا تھا۔ زندگی بھر کی کمائی اس وقت لٹتی محسوس ہوئی جب مہذب، سنائی نہ ہونے کا طعنہ ملا۔
1975ء سے سوائے صحافت کے اور کسی ذریعے سے روزی نہیں کمائی۔ صحافت کی یا بیروزگاری کے طویل وقفوں کا سامنا کیا۔ نوکری کرتے ہوئے ہمیشہ اپنے کام پر توجہ دی۔ مالکوں اور ایڈیٹروں کی چمچہ گیری سے گریز کیا۔ دفتری سازشوں میں حصہ لینا تو دور کی بات ہے ان کا علم بھی مجھے سب سے آخر میں ہوتا۔ اس کے علاوہ اہم ترین بات یہ بھی تھی کہ جب بھی کسی ادارے میں ماحول کو اپنی طبیعت کے ناموافق محسوس کیا تو ازخود استعفیٰ دینے میں طویل تردد نہ برتا۔ جس پیغامبر کے ذریعے مہذب، ہونے کا حکم ملا تھا اسے غیر مہذب، پنجابی میں فوراً اطلاع دی کہ حکم مل گیا ہے۔ حکم صادر کرنے والے کو بتادیں کہ آج شام ان کی سکرین پر نظر نہیں آئوں گا۔ ان کے پاس کافی گھنٹے ہیں۔ ان کے دوران کسی مہذب، اینکر کو تلاش کرلیں۔ یہ اطلاع دینے کے بعد گھر لوٹ آیا۔
دریں اثناء گاڑی چلاتے ہوئے فون مسلسل بجتا رہا۔ گھر کے دوازے پر پہنچ کر ہیلو، کیا تو دوسری جانب ہمارے شعبے کی ایک انتہائی قابل احترام شخصیت تھے۔ مرحوم کو میں اپنے استادوں میں شمار کرتا تھا۔ انھوں نے مجھے ڈانٹ کر بڑا، ہوجانے کا مشورہ دیا اور اطلاع یہ دی کہ مہذب، رویہ اور لہجہ اختیار کرنے کی تلقین فیض حمید کے تگڑے مصاحب کی تمنا تھی۔ محض اس مصاحب کی تسکین مقصودتھی۔ تم نے حسبِ عادت بھڑک اٹھنے میں لیکن ایک منٹ بھی نہ لیا۔ جن صاحب کے ذریعے یہ پیغام ملا ان سے بحث کی جرأت مجھ میں موجود نہیں تھی۔ ان کے حکم کے مطابق دفتر لوٹ کر شو کی تیاری شروع کردی۔
جس چینل کا ذکر ہے اس کے لیے شو کا آغاز کرتے ہی پانامہ پیپرز دھماکہ کی طرح مارکیٹ میں آگئے۔ ہم صحافیوں کی اکثریت اُن کی وجہ سے 7بجے سے رات بارہ بجے تک تقریباً متحد ہوکر نواز شریف سے رسیدیں دکھائو، کا مطالبہ شروع ہوگئے۔ دیانتداری کی بات ہے کہ مجھے نواز شریف اور ان کے خاندان اور سیاست سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ اس حقیقت کو مگر نظرانداز نہیں کرسکتا تھا کہ پانامہ پیپرز میں نوازشریف کا نام ہی موجود نہیں تھا۔ ان کے بیٹوں کے لندن میں زیر استعمال فلیٹوں کا ذکر یقیناََ تھا۔ ان کے علاوہ مگر 300دیگر پاکستانیوں کے نام بھی پانامہ پیپرز میں شامل تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہم فقط نواز شریف ہی سے رسیدوں، کا مطالبہ کیوں کررہے ہیں؟
پانامہ پیپرز کے بارے میں اپنی رائے تفصیل سے بیان کرنے کے لیے میں نے آف شور کمپنیوں، کی تاریخ بیان کرنا شروع کردی۔ ٹیکس چوری اور ٹیکس سے بچنے میں فرق اجاگر کرنے کی مشق میں الجھ گیا۔ میری دانشوری مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز تھی۔ ثاقب نثار کے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے بانی سے گھبراکر ازخود نوٹس لے لیا۔ روزانہ کی بنیاد پر چلائی سماعتوں کے اختتام پر نظر بظاہر نواز شریف کو کلین چٹ، دے دی گئی۔ اس کے باوجود فیصلہ یہ بھی ہوا کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں سمیت چند دیگر ادارے جو مالی معاملات کی نگہبانی کرتے ہیں ان کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے۔ وہ نواز شریف اور ان کے بیٹوں اور بیٹی سے تفتیش کے بعد یہ طے کرے کہ تیسری بار پاکستان کا منتخب ہوا وزیر اعظم بدعنوان، ہے یا نہیں۔
مذکورہ فیصلے کے اعلان کے بعد وزیر اعظم ہائوس میں نواز شریف کو ان کے چند ساتھی مبارک دینے کے علاوہ ان کے منہ میں مٹھائی کے ٹکڑے ٹھونستے ہوئے بھی ٹی وی سکرینوں پر نظر آتے رہے۔ میں یہ مناظر دیکھ کر چڑگیا۔ اپنے شو میں مصر رہا کہ نواز شریف کو مستعفی ہوکر مجوزہ کمیٹی کے روبرو پیش ہونا چاہیے۔ انھوں نے ایسا نہ کیا تو کسی اور وزیر اعظم کو ایس ایچ او کے ہاتھوں تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ خیالات کی روانی میں قمر جاوید باجوہ کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ وہ اپنے ادارے سے متعلق انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندے مجوزہ کمیٹی کے لیے نامزد کرنے میں تامل فرمائیں۔ تامل کے وقفے میں سپریم کورٹ سے التجا کریں کہ فوجی ایجنسیوں کی جانب سے کسی وزیر اعظم کے خلاف آئی شہادت لوگوں کو یہ سوچنے کو مجبور کرے گی کہ ایک اور وزیر اعظم کو ریاست کے طاقتور ترین ادارے نے سازشی انداز میں اپنے منصب سے فارغ کروادیا ہے۔
میرے گرانقدر، خیالات نشر ہونے کے دوسرے دن انھیں خطِ کشیدہ کرتے ہوئے فیض حمید کی میز تک پہنچایا گیا اور اس خبر کا انکشاف ایک اخبار سے وابستہ صحافی نے کیا۔ خبر کی تردید نہ ہوئی لیکن دوسرے دن دفتر پہنچا تو علم ہوا کہ جس چینل کے لیے میں شو کرتا ہوں اسے ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں میسر چینلوں کی فہرست میں سے ہٹادیا گیا ہے۔ ابھی یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ اپنے ناظرین کی کثیر تعداد تک پہنچنے کے لیے کیا ترکیب لڑائیں تو ڈان لیکس، ہوگئیں۔ ان کے ذمہ دار تین کرداروں کو ٹھہرایا گیا۔ اتفاقاً وہ تینوں ہی بہت قریبی دوست تھے۔ بے غرض اور بے تکلف یار جن کے سیاسی خیالات سے میں اکثر اتفاق نہیں کرتاتھا۔ سیرل المیڈا، رائو تحسین اور پرویز رشید ان کے نام ہیں۔
رائو تحسین ان دنوں حکومتِ پاکستان کے پی آئی او ہوا کرتے تھے اور پرویز رشید وزیر اطلاعات۔ مجھے سو فیصد علم تھا کہ وہ دونوں سیرل کو ملی خبر کے ذمہ دار نہیں تھے۔ اتنے برس گزرجانے کے بعد بھی آج تک سیرل المیڈا سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی کہ اسے مذکورہ خبر کس نے دی تھی۔ خبر مگر سچی تھی۔ میں اپنے شو میں اس کی تصدیق کو ڈٹ گیا اور ہر شو کے اختتام پر یہ اعلان بھی کرتا کہ شو ختم کرنے کے بعد میں سیدھا گھر جانے کے بجائے سیرل المیڈا سے ملنے جارہا ہوں۔ رائو تحسین اور پرویز رشید کے خلاف ڈان لیکس، کے حوالے سے انکوائری کا اعلان ہوجانے کے بعد بھی یہ چلن برقرار رکھا۔ میری ڈھٹائی مگر تینوں دوستوں کے کام نہ آسکی۔
قمر جاوید باجوہ بھی نوازشریف کی انکوائری کے حوالے سے میری رائے سے غالباً آگاہ ہی نہ ہوپائے۔ بالآخر پوری پاکستانی قوم کے رویے پر خلیل جبران سے مستعارلی حیف، کااظہار کرتے ہوئے آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کو جھوٹا اور خائن، ٹھہراکر کسی بھی منتخب عہدے کے لیے نااہل کردیا۔ مجھے یہ نااہلی بھونڈے انداز میں چلائی کلہاڑی لگی اور اس خیال کے برملا اظہار سے باز نہیں آیا۔
ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹی میں اگرچہ میرا چینل ناظرین کو میسر نہیں تھا۔ ایک ایسی سوسائٹی میں چینلوں کو رسائی فراہم کرنے کے ذ مہ دار کئی حوالوں سے قریبی آشنا تھے۔ ان سے اپنی سکرین سے گمشدگی، کا پوچھا تو انھوں نے ریکارڈنگ سے گھبراتے ہوئے اپنی میز پر رکھی پنسل سے ایک چٹ پر (C)لکھ کر مجھے دکھانے کے بعد اسے لائٹر سے جلادیا۔ بعدازاں ایک سے زیادہ گھنٹہ یہ سمجھانے میں لگایا کہ ان کو ناراض کرتے ہوئے میں صحافتی خودکشی کا مرتکب ہورہا ہوں۔ منیر نیازی کی طرح مگر مشکل راہوں کا سامنا کرتے ہوئے مرنے کا شوق بھی ہے۔ ہورہے گا کچھ نہ کچھ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے یاوہ گوئی میں لہٰذا مصروف رہا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ لکھنے کے لیے شاید ایک اور کالم لکھنا ہوگا۔