Monday, 15 December 2025
  1.  Home
  2. Guest
  3. Haider Javed Syed
  4. Kya Chashma Haye Faiz Hamesha Ke Liye Band Ho Jayen Ge?

Kya Chashma Haye Faiz Hamesha Ke Liye Band Ho Jayen Ge?

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور پشاور و بہاول پور کے سابق کور کمانڈر جنرل ر فیض حمید کے پندرہ ماہ تک جاری رہنے والے فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے اختتام پر انہیں چار بنیادی الزامات کے تحت 14 سال قید بامشقت کی سزا سنادی گئی۔ اس فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کردہ اعلامیہ میں کہا گیا "12 اگست 2024 کو سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع ہوا، جو 15 ماہ تک جاری رہا۔

ملزم پر چار الزامات میں مقدمہ چلایا گیا جن میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنا جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق طویل اور محنت طلب قانونی کارروائی کے بعد ملزم کو تمام الزامات میں قصوروار قرار دیا گیا اور 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ یہ فیصلہ 11 دسمبر 2025 کو باضابطہ طور پر جاری کیا گیا۔

بلاشبہ ملک کی سیاسی و عسکری تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی سزا ہے فوج کے ترجمان ادارے کا کہنا ہے کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔ ملزم کو اپنی پسند کی دفاعی ٹیم سمیت تمام قانونی حقوق دیے گئے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔

آئی ایس پی آر کے اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کرکے سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے میں ملزم کی مبینہ شمولیت سمیت کچھ دیگر معاملات پر الگ سے کارروائی جاری ہے"۔

اندریں حالات یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فوج کے ادارہ جاتی احتساب کے قانون اور سماعتی عمل نے ایک مثال قائم کی ہے ماضی میں ایسے منصب کے حامل کسی سابق افسر کے بارے اس طرح سوچا بھی نہیں جاسکتا، آج نہ صرف 14 برس کی سزا سنائی گئی بلکہ یہ بھی کہا گیا کہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کرکے سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے پر الگ سے کاروائی کی جائے گی۔

بعض تجزیہ نگار یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ فوج کے اعلیٰ افسروں کو ماضی میں بھی سزائیں ہوتی رہی ہیں ان کی بات بجا ہے لیکن جن الزامات کے ثابت ہونے پر جنرل ر فیض حمید کو سزا سنائی گئی یہ اپنی نوعیت کا ایک طرح سے پہلا موقع ہے۔ ماضی میں پنڈی سازش کیس اور بعض دوسرے مقدمات میں بہت اعلیٰ فوجی افسروں کو بغاوت کے منصوبے تیار کرنے پر سزائیں ہوئیں مگر ملک کی سب سے بڑی طاقتور ایجنسی کے سابق سربراہ کو جو دو کورز کی کمانڈ بھی کرچکا ہو یہ پہلی بار احتساب کے عمل سے گزرنا پڑا۔

جس وقت یہ سطور لکھ رہاہوں اخبارات میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کے بیان کی سرخی یہ ہے "9 مئی کے پیچھے فیض حمید کا دماغ تھا" وزیر دفاع کہتے ہیں تمام لوگوں کا محاسبہ ہونا چاہئے وہ وردی میں ہوں یا پشاوری چپل میں، بلاشبہ یہ مطالبہ اپنی جگہ درست ہے۔

لیکن خواجہ آصف ہی نہیں سابقہ پی ڈی ایم کے بعض بڑے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے باجوہ رجیم کے تعاون وغیرہ کے جو اعترافات کرتے آئے ہیں ان کا کیا کرنا ہے؟

یہ سوال ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا یہ الگ بات ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اس تعاون کی تاویلات ہیں۔ بہرطور یہ امر اپنی جگہ مبنی بر حقیقت ہے کہ جن الزامات میں جنرل ر فیض حمید کو سزا سنائی گئی ہے ان کا بوجھ بھی تنہا ان کے کاندھوں پر نہیں فوج عدلیہ بیوروکریسی اور سیاسی عمل میں موجود کچھ اور کردار بھی ہیں انہیں بھی احتساب کے عمل سے گزارا جانا چاہئے۔

وزیر دفاع خواجہ آصف آج 9 مئی کے حوالے سے فیض حمید کے جس کردار کا اشارہ دے رہے ہیں اس پر میں ان سطور میں اس وقت تفصیل سے عرض کرچکا جب 9 مئی ہوا اور بہت بعد میں جنرل ر فیض حمید گرفتار ہوئے۔ پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ میں نے ان کالموں میں عرض کیا تھا کہ جنرل ر فیض حمید فوج سے سبکدوشی سے قبل اور بعد میں بھی متوازی جاسوسی کا نظام چلاتے رہیں اور یہ کہ ان کے متوازی جاسوسی کے نظام نے 2022 میں ہونے والے دو درجن سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے ضمنی انتخابات میں جنرل باوجوہ کے بعض ماتحتوں کے ساتھ ملکر "رنگ بازی" کی حالانکہ فیض اس وقت ابھی وردی میں تھے۔

بعد میں ان کے متوازی نظام نے 2024 کے عام انتخابات میں بھی مئوثر کردار ادا کیا 9 مئی کے بعد انہی سطور میں عرض کیا تھا کہ اس کی ناکامی کی وجہ یہ رہی کہ یہ منصوبہ فوج کے سابقین نے بنایا تھا۔ داخلی ڈیسپلن اور اس سے جُڑے معاملات بڑے پیمانے پر اندرونی تعاون کے مانع ہوئے یہاں تک کہ منصوبہ سازوں نے جس شخص کو بعد میں آرمی چیف بنانا تھا وہ قدموں پر کھڑا نہ رہ سکا۔

اسی 9 مئی کے چکر میں لاہور کے اس وقت کے کورکمانڈر سمیت متعدد چھوٹے بڑے نوکریوں سے محروم ہوئے یہ سب ہماری قریبی تاریخ کا حصہ ہے۔

پاکستانی سیاست اور اقتدار سازی میں سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں کی دلچسپی و مداخلت یا یوں کہہ لیجے کہ مرضی کے نتائج حاصل کرنے کی جنون بھری خواہش نئی بات ہر گز نہیں ہم آج بھی ایسے ہی ماحول اور حالات میں جی رہے ہیں ہمارے ہاں اپنے اپنے وقت اور ضرورت کے تحت تقریباً سبھی نے اسٹیبلشمنٹ کی پیشگی شرائط پر اقتدار حاصل کیا اور پھر اسی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں دربدر بھی ہوئے۔

ہم آگے بڑھتے ہیں جنرل ر فیض حمید کو سنائی گئی سزا کے بعد مخبروں نجومیوں اور مجاہدین آزادی اظہار کی "بہار" ہے ہر سُو ان میں سے ہر ایک دور کی کوڑی لارہا ہے۔ چند ایک کی ماضی کے حوالے بات درست ہے لیکن اکثریت انگلی کٹوا کر شہیدوں میں اسمِ گرامی لکھوا رہی ہے خیر ہمیں کیا وقت فیصلہ کرے گا کہ مجاہد آزادی اظہار کون ہے اور نمبر ٹنگ مجاہد کون۔

البتہ مجھ سمیت جو قلم مزدور اُن برسوں میں "دی فرنٹیئرپوسٹ لاہور" میں خدمات سرانجام دے رہے تھے انہوں نے دو مرحلوں میں طاقتور محکمے کے جبر و ستم کا سامنا کیا۔ پہلے دوہزار پندرہ سے اٹھارہ تک مسلم لیگ ن کے دور میں اور بعد ازاں دوہزار اٹھارہ سے دوہزار بیس تک۔ تبدیلی سرکار کے دور میں جبروستم کی وہ تلخ یادیں آخری سانس تک نہیں بھلائی جاسکتیں۔ افسوس کہ اُن برسوں میں سارے مجاہدینِ آزادی اظہار دھنیا پی کر سوئے رہے۔

خیر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں ہمارے ہاں اصل اور بڑی طاقت اسٹیبلشمنٹ ہے اس کے سول حصے عدلیہ اور دوسروں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے اطاعت گزاروں چلیں یوں کہہ لیجے ساجھے داروں کا کردار ادا کیا اور فیض پایا فیض کی تقسیم کا یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا چہرے اور کردار بدلے ہیں جیسے ہمیشہ بدلتے رہے ہیں ہاں آپ اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فیض کے فیض کا جو عالم تھا وہ اپنی نوعیت کا انوکھا فیض تھا۔

بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ جنرل ر فیض حمید کے کیس کا اگلا مرحلہ کب شروع ہوتا ہے اور کیا حقیقتاً سارے فیض یافتگان اور ساجھے دار احتساب کے کٹہرے میں لائے جائیں گے یا پسندوناپسند کا مظاہرہ ہوگا؟ یہ بنیادی سوال ہے اس کا تسلی بخش جواب ہی یہ طے کرے گا کہ فیض کے چشمے بند کیئے جارہے ہیں ہمیشہ کیلئے یا پھر جھانسا دیا جارہا ہے ہم اور آپ امید ہی کرسکتے ہیں اُمید پہ دنیا قائم ہے۔