Friday, 15 August 2025
  1.  Home
  2. Nai Baat
  3. Khalid Mahmood Faisal
  4. Punjab Ke Sarkari Mulazmeen Ka Muashi Qatal

Punjab Ke Sarkari Mulazmeen Ka Muashi Qatal

دنیا میں مروجہ قانون یہی ہے کہ کسی فرد کو جب سرکاری یا نیم سرکاری ادارہ میں ملازمت کی پیش کش کی جاتی ہے، تو متعلقہ شعبہ یا آرگنائزیشن کی طرف سے تحریری معاہدہ کیا جاتا ہے جس میں تمام قواعد ضوابط رقم ہوتے ہیں، سماجی اور معاشی فوائد پالیسی کا حصہ ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کسی بھی سرکاری یانیم سرکاری ملازم کو ملازمت سے برطرف کرنے سے قبل تما م قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھا جاتا ہے، سرکاری اور نیم سرکاری ملازم تکمیل ملازمت کے بعد انھیں شرائط کے تحت جس کے تحت وہ بھرتی ہوتا ہے اپنی پنشن اور دیگر فوائد حاصل کرتا ہے، یہ طریقہ کار قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے، جس طرح سامراجی دور میں افسر شاہی اور کچھ خاص اداروں کے ملازمین کو تنخواہ کے علاوہ خصوصی مراعات دی جاتی رہی ہیں، اسی طرح فی زمانہ بھی اس "سامراجی روایت" کو جاری رکھا گیا ہے، مگرعام سرکاری ملازم آج بھی غلامی کے عہد میں جی رہا ہے۔

ان دنوں پنجاب کے ملازمین بالخصوص اور ملک بھر کے سرکاری ملازم بالعموم سراپا احتجاج ہیں، جسکی بنیادی وجہ انکی مالی مراعات میں خلاف ضابطہ کمی کی جارہی ہے جن شرائط پر انھیں ملازمت پر رکھا گیا اور جو مالی مراعات انھیں آفر کی گئی تھیں اب اس سے انحراف کیا جا رہا ہے یہ فعل نہ تو قانونی طور پر درست ہے نہ ہی اخلاقی طور اس کو صحیح مانا جائے گا۔

جس طرح دنیا کی ہر ریاست میں سول سرونٹ ایکٹ نافذ العمل ہوتا ہے، اسی طرح ہماری ریاست میں سرکاری ملازمین کی بھرتی، ترقی، تنزلی اور مراعات کے لئے ایکٹ موجود ہے، یہ وفاق اور صوبہ جات میں کچھ کمی بیشی کے ساتھ رائج العمل ہے۔

مہذب ریاستیں اپنے ملازمین کا بطور خاص خیال رکھتی ہیں یہی وہ سرکاری مشینری ہے جس کی وساطت مملکت کے امور انجام پاتے ہیں، کسی بھی قسم کی تخصیص مراعات کی ادائیگی کے اعتبار سے ملازمین میں نہیں رکھی جاتی، وفاق سے لے کر ایک کاونٹی تک ہر درجہ تک کے ملازمین کی بنیادی ضرویات کو پورا کرنے کی مکمل سعی کی جاتی ہیں، اس لئے وہاں نہ تو ٹیکس کی کٹوتی بوجھ دکھائی دیتی ہے نہ ہی بچوں کی تعلیم، گھر بنانے جیسے مسائل کا سامنا رہتا ہے، کیونکہ ایسے معاشرے"کلاس لیس" سوسائٹی پر مشتمل ہیں، کوئی کسی کو کمتر نہیں سمجھتا ہے، کبھی کبھارملازمین کواپنے حقوق کے لئے احتجاج کی ضرورت پیش آتی ہے انکے مطالبات کی باز گشت ہر فورم پر سنی جاتی ہے، پھر انھیں ریلیف بھی عطا کیا جاتا ہے۔

ہماری ریاست کی طرح ملازمین کو "لاڈلے اور غیر لاڈلے" میں منقسم نہیں کیا جاتا، تنخواہ کے اعتبار سے ان سے یکساں سلوک ہوتا ہے، وہ معاشرے امن ترقی، بہترین گورننس کی عمدہ مثال ہیں، کیونکہ ان کے حکمرانوں کا خمیر غلامی سے نہیں اٹھا وہ تمام تر فوائد"مخصوص کلاس" کو دینے کی بجائے عام شہری تک پہنچاتے ہیں۔ ، کلونیل مانئنڈ سیٹ کی وجہ سے ہماری نسل نو قانون کی حکمرانی، خوشحالی، بہترین تعلیم، نظم و ضبط کی وجہ سے بیرون ملک بسیرا کو اپنی خوش بختی خیال کرتی ہے۔

سوشل میڈیا پنجاب کے ملازمین کے ساتھ ناانصافی پر سراپا احتجاج ہے، پنشن میں غیر منطقی اصلاحات کے نام پر ان کے مالی حقوق پر ڈاکہ مارا جارہا ہے۔

پنجاب میں برا جمان وزیر اعلی جب اپوزیشن میں تھیں تو ملازمین کی تنظیموں کے ساتھ مذاکرات میں موجودہ سپیکر پنجاب اسمبلی کی موجودگی میں وعدہ کیا تھا کہ ان کے جائز مطالبات ہر حال میں تسلیم کے جائیں گے اب وہ اقتدار میں مگر ان مطالبات کو ماننے سے انکاری ہیں کسی مہذب صوبہ کی مکھ منتری ہوتیں وعدہ وفا نہ کرنے پر انھیں مستعفی ہونا پڑتا مگر ان کے رویہ کو ہٹ دھرمی کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے۔

دلیل یہ کہ پنشن کے بوجھ کی بناء پر عالمی ادارہ کا دباؤ ہے، صرف پنجاب میں پنشن کے نئے رولز کا اطلاق بتاتا ہے کہ آئی ایم ایف کا جواز بنا کریہ ظلم کیا جارہا ہے، دیگر صوبہ جات میں پنشن کی ایسی اصلاحات کا کوئی وجود نہیں ہے، مسلم لیگ نون کے حوالہ سے ملازمین میں یہ رائے پائی جاتی ہے کہ اس کی پالیساں ہمیشہ ملازمین کش رہی ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی نے ملازمین کے لئے نرم گوشہ رکھا ہے۔

ایک سیاسی جماعت جو چار دہائیوں سے پنجاب میں برسراقتدار ہے اس کو سرکاری ملازمین کی پنشن اس لئے بوجھ لگ رہی ہے کہ قیادت نے صوبے کے قدرتی، معدنی وسائل سے مستفید ہونے کی سنجیدہ کا وش نہیں کی، جاگیر داری، وڈیرہ شاہی کا خاتمہ نہیں کیا، قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی نہیں بنایا، کرپشن پر زیروٹالرنس پالیسی نہیں اپنائی، صوابدیدی اختیارات کا خاتمہ نہیں کیا، گورننس میں سادگی نہیں اپنائی، پروٹووکول کلچر کو پروان چڑھایا، اپنی ناکامی کو چھپانے کے لئے سرکار نے آسان راستہ اپنایا کہ ملازمین کے گلے کاٹ کر انکا معاشی قتل کردیا جائے۔

اک زمانہ تھا کہ کوئی سرکار ملازم ریٹائرڈ ہوتا تو اسے اتنے وسائل میسر ہوتے کہ وہ گھر تعمیر کر سکتا بچوں کی شادیاں کر لیتا، اب غیر"لاڈلہ" ملازم کاقلیل پنشن اور واجبات سے صرف روح اور جان کا رشتہ بھی مشکل نظر آرہاہے، اس کے بچوں کے سینہ میں دل نہیں کی، انھیں اشرافیہ کے بچوں کی طرح اپنی خواہشات رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے؟ آئین پاکستان کی نگاہ میں دونوں برابر اور قومی وسائل پر ایک جیسے تصرف کا حق رکھتے ہیں، تو پھر سرکاری ملازمین اور ان کے بچوں آئینی حق سے کیسے محروم رکھا جا سکتا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں بھی جب مرکز اور صوبہ جات میں الگ الگ حکومتیں رہی ہیں، تو پنجاب کے ملازمین کوچند مراعات سے دانستہ محروم رکھا جاتا تھاایسی ناانصافیاں ارباب اختیار کی نیک نامی میں کوئی اضافہ نہیں کرتیں۔

پنجاب میں بیوہ کی پنشن کو دس سال تک محدود کرنا اور سرکاری ملازم کے معذور بچہ یا بچی کو پنشن سے سرے محروم کرنے کے بعد بھی اگر عدلیہ ان اقدامات کا از خود نوٹس نہیں لیتی اس کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا، تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ "پیاروں کے علاوہ" باقی ملازمین کی حیثیت شودر کی سی ہے، ریاست میں ملازمین کی مراعات کے اعتبار سے دو دستور نافذالعمل ہیں، سرکار اگر پنشن کو بوجھ سمجھ رہی ہے تو اس کا اطلاق ان ملازمین پر کرے جو نئی شرائظ کے تحت بھرتی ہوں گے، سابقہ ملازمین نے جن شرائط کو تحریری طوپر ملازمت کے لئے قبول کیا تھا۔

اس کے تحت ہی ان کو مراعات دینی چایئے، بصورت دیگر یہ قدم خلاف قانون ہے بڑے صوبہ کاملازمین کے معاشی قتل میں کردار سب سے زیادہ گھناونا ہے، معززمنصف اعلی پنجاب کو اس ناانصافی کم ازکم نوٹس ضرور لینا چاہئے۔