Wednesday, 24 April 2024
    1.  Home/
    2. Irshad Ahmad Arif/
    3. Imran, Riasat Madina Aur Pait Ke Pujari

    Imran, Riasat Madina Aur Pait Ke Pujari

    لاہور میں تحریک انصاف کے کامیاب اجتماع اور عمران خان کی طویل مگر متاثر کن تقریر پر یار لوگوں کی برہمی قابل فہم ہے۔ قومی خزانے سے کروڑوں روپے عمران خان کی کردارکشی پر خرچ ہوئے، سیاسی ناکامیوں کا پروپیگنڈا اور اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کا الزام، کچھ بھی مخالفین کے کام نہ آیا۔ عمران خان کی شخصی کشش برقرار اور مقبولیت روز افزوں ہے۔ لوگ بلاوے پر اُمڈے چلے آتے اور توجہ سے سنتے ہیں، مزاج یار برہم کیوں نہ ہو؟ تقریر کی طوالت سے نالاں احباب مقبول، سیاسی و مذہبی قائدین اور کرائوڈ پلر خطباو مقررین اور اُن کے سامعین کے ذہنی ربط و ضبط اور جذباتی رشتے سے لاعلم ہیں اور نہیں جانتے کہ صرف پاکستان نہیں پورے برصغیر کے عوام کن رس ہیں، طول کلام، خواب فروشی ہمارے رہنمائوں کا شیوہ اور عوام کا مشغلہ اور کم گوئی عیب ہے۔ ویسے بھی بات اگر کانوں کو بھاتی اور دل پر اثر کرتی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کس قدر طویل ہے حکم اگرچہ یہی کہ خیرالکلا م ماقلّ و دلّ(بہترین گفتگو مختصر اور مدلل ہوتی ہے) لیکن اختصار کے ساتھ دلیل واستدلال کی شرط ہے۔ بے ربط اور دلچسپی سے عاری گفتگو کوئی بڑا لیڈر کرے یا عالم دین اختصار کے باوجود بوریت کا باعث بنتی ہے۔ عمران خان کے گیارہ نکات اب عوام کی ملکیت ہیں اور موافق مخالف اپنے اپنے ذوق کے مطابق حاشیہ آرائی کریں گے لیکن تقریر کے آخری حصہ نے مجھے متاثر کیا جس میں خان نے عوام، نوجوانوں اور سیاستدانوں کو اعلیٰ مقصد کے لیے زندگی بتانے اور بڑے اہداف کو حاصل کرنے کی ترغیب دی۔ ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ اقبالؒ اور قائد کی پیروی چھوڑ کر ہم چھوٹے ذہن کے مالک، ادنیٰ مفادات کے اسیر لیڈروں کے شکنجے میں پھنس گئے۔ ریاست مدینہ اور فلاحی مملکت کے تصوّر سے ناآشناپیسے کے پجاری اور کذب و ریا کے بیوپاری ان لیڈروں نے عالم اسلام کی قیادت اور خطے کی سیادت کا خواب دیکھنے والے عوام کو اپنی طرح شکم پروری اور نفس پروری پر لگا دیا اور ایک ایسی ریاست جو 1988ء بلکہ 1990ء تک بھارت سے برابری کی بنیاد پر بات کرتی، بڑے ممالک دونوں ریاستوں سے برابری کا سلوک کرتے اور امریکی صدر یا نائب صدر برصغیر کے دورے میں یہ احتیاط روا رکھتے کہ بھارت و پاکستان میں اُن کے قیام کا دورانیہ مساوی ہونا چاہیے، وہ بنگلہ دیش اور افغانستان کے ہم پلّہ سمجھی جانے لگی۔ پرویز مشرف، آصف زرداری اور نواز شریف سے یہ کریڈٹ کوئی نہیں چھین سکتا کہ انہوں نے پاکستان کو سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر برابری کے اس تصوّر سے نجات دلائی اور تینوں شعبوں میں زوال کے سبب بھارت کی علاقائی بالادستی کی راہ ہموار کی۔ یہ دانستہ سعی تھی، کم ہمتی اور ناعاقبت اندیشی یا امریکہ و یورپ سے مرعوبیت اور غیر ملکی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والے چرب زبان دانشوروں کی پڑھائی ہوئی پٹی کا اثر، وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ شاہین صفت قوم کو صحبت زاغ نے خراب بہرحال کیا۔ اقبالؒ نے لیڈر کے لیے نگاہ بلند، سخن دلنواز، جاں پرسوز کی شرط عائد کی۔ سخن دلنواز کی شرط پر عمران پورا اترے نہ اترے نگاہ بلند اور جاں پرسوز سے انکار ممکن نہیں۔ جو شخص 1997ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف کی طرف سے تیس نشستوں کی پیشکش اور پرویزمشرف کی جانب سے پنجاب کے ایک خاندان کے ساتھ مفاہمت کی ترغیب کو ٹھکرا کر اپنی جدوجہد اور عوامی پذیرائی کے بل بوتے پر اقتدار کی راہداریوں میں داخلے کا خواہش مند ہے، الطاف حسین، آصف زرداری، میاں نوازشریف، اسفند یار ولی اور مولانا فضل الرحمن کو بیک وقت ہدف بنا کر انہیں رُلاتا تڑپاتاہے کسی ناکامی سے دلبرداشتہ نہیں ہوتا اور ممولوں کو شہبازوں سے لڑنے بلکہ غالب آنے کی ترغیب دیتا ہے وہ عملدرآمد کا اہل کیوں نہیں؟ عام انتخابات سے چند ہفتے قبل بیس ارکان اسمبلی کو رشوت ستانی کے الزام میں پارٹی سے نکالنے اور الیکٹ ایبلز سے سرعام کہنے والا شخص کہ وہ محض اس بنا پر ٹکٹ ملنے کی اُمید نہ رکھیں کہ پارٹی میں شامل ہو گئے ہیں، بھلا یہ اہداف کیوں حاصل نہیں کر سکتا؟ بڑے بڑے سیاسی بت گرانے کے بعد کیا وہ بیورو کریسی کا مزاج درست کرنے، سرخ فیتے سے چھٹکارا پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا؟ سٹیج پر جہانگیر خان ترین کی موجودگی میں گنے کے کاشتکاروں کا دکھ بیان کرنا، شوگر مافیا کو لتاڑنا اور الیکٹ ایبلز کو یہ سبق پڑھانا کہ وہ سلام کا جواب نہ دینے اور شادی غمی میں شریک نہ ہونے پر لیڈر اور جماعت کو چھوڑنے کی عادت بدلیں اور بڑے مقاصد کے لیے جینا سیکھیں، آسان نہ تھا مگر عمران خان کہہ گزرا، شیخ رشیداحمد اور شاہ محمود قریشی کو ماضی کی باتیں یاد دلانے کے بعد جب انہوں نے اپنے دیرینہ اور وفادار ساتھی احسن رشید مرحوم اور سلومی بخاری مرحومہ کا ذکر چھیڑا تو کارکن جھوم اُٹھے یہ پیغام تھا کہ وہ کارکنوں کو بھولا ہے نہ الیکٹ ایبلز کے طرز عمل کو، حالات کے جبر اور سیاسی مصلحتوں نے کارکنوں سے رشتہ نہیں توڑا البتہ ان کے ساتھ بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے جو کل اس کا مذاق اُڑاتے تھے۔ لاہور کے جلسے سے عدلیہ اور فوج کے خلاف مہم کو نقصان پہنچا اور ان دعوئوں کی نفی ہوئی کہ ملک میں میاں نواز شریف کا بیانیہ مقبول ہے۔ جلسے کے بعد مسلم لیگی لیڈروں اور اجرتی حامیوں کے مزاج کی برہمی اس کا ثبوت ہے۔ ان نکات میں سے ناقابل عمل ایک بھی نہیں اور ممکن سب کچھ ہے۔ جنوبی پنجاب صوبے کا قیام مشکل ہے نہ ٹیکسوں کا حجم دو گنا کرنا ناممکن۔ تعلیم اور صحت کے شعبے میں عمران خان نے ذاتی حیثیت سے جو کیا اور پولیس و محکمہ مال کو خیبر پختونخوا میں جس حد تک سدھارا، وہ عوام کے اعتماد میں اضافہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ لوٹ مار اگر رکتی، بلا تمیز و تفریق احتساب کا عمل جڑ پکڑتا اور وی آئی پی کلچر، اپنی موت آپ مرتا ہے تو ملک میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ اکیس کروڑ آبادی کو آبرومندانہ طریقے سے تین وقت کی خوراک، بچوں کو تعلیمی، طبی سہولتیں اور روزگار کے مواقع مل سکیں۔ ہمیں بھکاریوں کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کے سامنے کشکول لے کر کھڑا ہونے اور امریکہ اور بھارت کے روبرو تھر تھر کانپنے کی ضرورت نہیں۔ جب ایوب دور کی معاشی ترقی کا ذکر ہو تو ہمارے ناکردہ کار، نام نہاد جمہوریت پسند کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں مگر یہ ہماری تاریخ کا سنہرا باب ہے اور بھٹو کل جماعتی کانفرنس کو سبوتاژ نہ کرتے، سیاسی سمجھوتہ ہو جاتا تو ایوب خان کی رخصتی کے بعد تعمیر و ترقی کا یہ سفر رکتا نہ مشرقی پاکستان علیحدہ ہوتا، کامیاب معاشی پالیسیوں کو نیشنلائزیشن کی دیمک بھی نہ لگتی جس نے ہماری تعلیم اور صنعت کا بیڑا غرق کر دیا۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں صرف اپنے کارکنوں کو نہیں پاکستانی قوم کو ولولہ تازہ دیا، اُسے ارفع خواب دیکھنے اور اعلیٰ مقاصد مدنظر رکھنے کی ترغیب دی۔ یکساں نصاب و نظام تعلیم کا وعدہ کیا جو قوم سازی اور ترقی و خوشحالی کی شرط اول ہے۔ ٹھیک اسی روز سوات میں نسل اور زبان کے نام پر ایک نئے فتنے کو ہوا دینے والے عناصر بھی پاکستان اور پاکستانی فوج کے خلاف زبان درازی میں مصروف تھے، ان بدبختوں کی پاکستان دشمنی کا ثبوت سبز پرچم کے جلسہ گاہ میں داخلے کی ممانعت سے اور زہریلی تقریروں سے ملا، مگر مسلم لیگ(ن) کے ہمدرد سارا دن قومی میڈیا کو اس بات پر کوستے رہے کہ وہ اس بے ہودگی کو براہ راست نشر کرنے سے کیوں قاصر ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیڈر فرحت اللہ بابر کی ٹویٹ "جمہوروں " کوخوب بھائی۔ بابر نے لکھا"ہمارے الیکٹرانک میڈیا کی طوائفوں کو اگر مینار پاکستان پر ہونے والے ناچ کمپیٹیشن سے فرصت مل جائے تو تھوڑا سا وقت ان مظلوموں کو دے دیا جائے جو سوات میں ایک بامقصد جلسہ کر رہے ہیں جو مظلوموں کی آواز عوام تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان لوگوں کو بھی انسان سمجھ کر سننا چاہیے" پاکستان اور پاک فوج سے نفرت کے پرچارکوں کو سننا میاں نواز شریف کے مداحوں اور آصف علی زرداری کے سابق ترجمان کی مجبوری ہو گی اور فوج سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کے لیے ضروری مگر محب وطن عوام اور میڈیا کا ان فضولیات سے کیا لینا دینا؟ جن لیڈروں اور دانشوروں کو منظور پشتین عمران خان سے بڑا لیڈر اور عوام کا ہمدرد نظر آتا ہے ان کا کیا علاج؟ کرسیاں گننے، موثر تقریر میں کیڑے نکالنے اور کامیاب جلسے پر پھبتی کسنے سے ان کا رانجھا راضی ہوتا ہے تو کسی کو کیا اعتراض؟ 2011ء میں پیپلز پارٹی کو یہی غلط فہمی یا خوش فہمی مہنگی پڑی اب مسلم لیگ کی باری ہے۔ 2018ء کے انتخابات کا نقشہ واضح ہونے لگا ہے۔ خدا کرے کہ بروقت ہوں۔